• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • ہائرونوموس بوش اور جاگیرداری کے عالم نزع کی تصویر کشی(1)۔۔تحریر:ایلن ووڈز/ ترجمہ: صبغت وائیں

ہائرونوموس بوش اور جاگیرداری کے عالم نزع کی تصویر کشی(1)۔۔تحریر:ایلن ووڈز/ ترجمہ: صبغت وائیں

ہائیرونوموس بوش ہر دور کے لحاظ سے ممتاز ترین اور ایک حقیقی مصور تھا۔ اس کے فن پارے پانچ سو سال قبل تخلیق کیے گئے تھے لیکن آج بھی حیران کن طور پر جدید سرئیلزم کا شاہکار لگتے ہیں۔ یہ ایک ایسی پریشان حال دنیا کا آرٹ ہے جو کہ متضاد رجحانات ]کی کھینچا تانی[ کے باعث نُچی پھٹی پڑی ہے، ایک ایسی دنیا جہاں سے عقل کا چراغ گُل کر دیا گیا ہے اور جہاں درندگی کی خونخوار جبلتیں بازی جیت چکی ہیں۔ ایک دہشت، تشدد اور وباؤں سے بھری دنیا، جاگتی آنکھوں سے دیکھا جانے والا ایک بھیانک سپنا۔ مختصراً۔۔۔ایک ایسی دنیا جو کہ بالکل ہماری آج کی دنیا جیسی ہے، خاص طور پر موجودہ وباء کے جیسی۔ ایلن ووڈزؔ نے ہائیرونوموس بوشؔ کا تاریخی مادی نکتہ نظر سے جائزہ لیا ہے جو کہ پہلی مرتبہ 23 دسمبر 2010ء کو شائع ہو ا تھا۔

 

جس ہائیرونوموس بوش کو آج ہم جانتے ہیں اس کی زندگی کے بارے میں بہت کم معلومات موجود ہیں۔ یہاں تک کہ اس کا یہ نام بھی، جو کہ اس کے قلمی نام کے بطور اس کے فن پاروں پر رقم ہے۔ اس کا اصلی نام”یرون انطونی سون فان ایکن“ تھا، اور وہ 1450 عیسوی کے آس پاس جرمن سرحد کے قریب ہالینڈ کے ایک متمول تجارتی قصبے ’ایس سیتوغن بوش‘ میں پیدا ہواتھا۔ یہ 25000 نفوس کی آبادی پر مشتمل ایک امیر قصبہ تھا۔ کپڑا بنانے کی صنعت یہاں کی اہم صنعت تھی۔ لیکن آلاتِ موسیقی اور گھنٹیاں بنانے والے، پرنٹنگ والے، چاقو چھریاں، کیل اورپنیں بنانے والے اور ہتھیار ساز بھی اس کی وجہ شہرت تھے۔ اس کی تقریباً نوے فی صد آبادی کاشت کاری سے منسلک تھی۔

بوش جس دور میں رہتا رہا ہے یہ وہی دور ہے جس کو ہُوئی زِنگاؔ نے”قرونِ وسطیٰ کے انحطاط“ کے نام سے پکارا ہے۔ لیکن اسی کے ساتھ ساتھ عظیم ثقافتی بیداری کی ابتدا ہو رہی تھی جس کو ہم نشاۃِ ثانیہ کہتے ہیں۔ منطقی تشکیکیت کے اس ماحول میں تحقیق اور سائنسی دریافتوں نے پھولنا پھلنا شروع کیا تھا۔ ظاہری عبادات، مذہبی جلوسوں، مقاماتِ مقدسہ کی زیارات، اور نیکو کاری کی سطح کے نیچے لوگ مسلسل تشکیک پسند ہو رہے تھے اوران میں کلیسا کے اور”خدا کی مرتب کردہ دنیا“ کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا ہو رہے تھے۔ چھاپے خانے کی ایجاد نے بڑے پیمانے پر عوام کو علم سے بہرہ ور کرنا ممکن بنا دیا تھا۔

یہ تاریخ کا ایک نہایت ہی اہم موڑ تھا۔ یہ وہ دور تھا جب جاگیر داری کی بنیادیں سرمایہ داری کے ہاتھوں کھوکھلی ہو رہی تھیں، جیسا کہ مارکس و اینگلز نے وضاحت کی ہے:

”عہد وسطیٰ کے زرعی غلاموں سے ابتدائی شہروں کے حقوق یافتہ شہری پیدا ہوئے تھے۔ ان ہی شہروں سے بورژوا طبقے کے ابتدائی عناصر کی نشوونما ہوئی۔

امریکہ کی دریافت اور افریقہ کے گرد جہاز رانی شروع ہونے کی وجہ سے ابھرتے ہوئے بورژوا طبقے کے لئے راہیں کھل گئیں۔ ایسٹ انڈیا اور چین کی منڈیوں، امریکہ کی نو آباد کاری، نوآباد یوں کے ساتھ تجارت،ذرائع تبادلہ اور عام طور سے اجناس کی کثرت نے تجارت، جہاز رانی اور صنعت کو ایسی ترغیب دی جو کہ اس سے پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آئی تھی۔ اور اس کی وجہ سے گرتے ہوئے جاگیردار ی سماج میں انقلابی عناصر کو تیزی سے بڑھنے کاموقع ملا۔

صنعت کا جاگیر دارانہ نظام، جس میں صنعتی پیدا وار کاریگروں کی شراکت میں بنائی کارگاہوں کی اجارہ داریوں میں ہوا کرتی تھی، اب نئی منڈیوں کی بڑھتی ہوئی مانگوں کے لئے ناکافی ہو گیا۔ کارخانہ دار نظام نے اس کی جگہ لے لی۔ استاد کو درمیانی کارخانہ دار پرت نے نکال باہر کیا۔ ہر کارخانے کی اندرونی تقسیم محنت کے مقابلے میں اہل حرفہ کی مختلف شراکتی جماعتوں کی باہمی تقسیم محنت ختم ہو گئی“۔ (کمیونسٹ مینی فیسٹو، بورژوا اور پرولتاریہ)

’سیتوغن بوش‘ کی خوش حالی سرمایہ دارانہ طریق کے متعارف ہونے کی بدولت تھی۔ عہدِ وسطیٰ میں حرفت پر مبنی تمام تجارت گلڈز ]کاریگروں کا مل کر ایک جگہ تقسیم کار کرتے ہوئے شراکت داری میں کام کرنا[ کے ذریعے کی جاتی تھی۔ لیکن اب آجروں نے پیداوار کے نئے طریقے متعارف کروا دیے تھے۔ ان میں سے وہ لوگ جو کامیاب ہو جاتے تھے ان کی نسبت زیادہ منافع کماتے جو کہ دستکاری کے پرانے طریقوں پر کاربند تھے۔ ہالینڈ کی حکمران اشرافیہ نے بورژوازی کے لیے خود کو متحد کیا اور اس نئے سرمایہ داری کے طبع پیداوار ]mode of production[ کے منافعے میں سے اپنا حصہ بٹورنے لگے۔ لیکن گلڈز اس تبدیلی کے خلاف مزاحمت کرنے لگے جو کہ ان کے لیے موت کا پیغام تھی۔ مفادات کی اس جنگ میں بات خانہ جنگی تک جا پہنچی تھی۔

بوش کو جب بیسویں صدی میں کہیں جا کے دریافت کیا گیا تب تک وہ گمنامی کی تین صدیاں جھیل چکا تھا۔ یہ کوئی حادثہ نہیں تھا۔ اس سے پچھلی نسلیں اس عجیب و غریب آرٹ کو سمجھ ہی نہ سکیں۔ یہ ایک ایسی پریشان حال دنیا کا آرٹ ہے جو کہ متضاد رجحانات ]کی کھینچا تانی[ کے باعث نُچی پھٹی پڑی ہے، ایک ایسی دنیا جہاں سے عقل کا چراغ گُل کر دیا گیا ہے اور جہاں درندگی کی خونخوار جبلتیں بازی جیت چکی ہیں۔ ایک دہشت، تشدد اور وباؤں سے بھری دنیا، جاگتی آنکھوں سے دیکھا جانے والا ایک بھیانک سپنا۔ مختصراً۔۔۔ایک ایسی دنیا جو کہ بالکل ہماری آج کی دنیا جیسی ہے۔

ایک عبوری دَور

باوجود اس کے کہ بوش کے کام اور آج کی دنیا میں پانچ سو سال کا فاصلہ ہے مگر پھر بھی یہ ہمیں بہت سے ہم عصر آرٹ سے زیادہ حقیقت سے رُوشناس کراتا ہے۔ جس دنیا میں ہم آج جی رہے ہیں یہ اس سے کہیں زیادہ متعلقہ ہے۔ اس آرٹ میں ایک عجیب طرح کا دل فریب حسن تو موجود ہے، لیکن جو چیز اس میں عنقا ہے وہ ہے منطق۔ اس میں انسانی تعقل کی ہر قدم پر چنوتی سے مُڈھ بھیڑ ہے۔ یہاں حقیقت سر کے بل کھڑی ہے۔ ہمیں محیرالعقل شبیہوں کا سامنا ہوتا ہے، روز مرہ کی دنیا کو دیکھنے کے ہمارے عام رویے سے عدم مطابقت کی بنا پر ہمارا سر چکرانا شروع کر دیتا ہے۔ یہاں ہیگل کا بیان پوری طاقت سے ہم سے آن ٹکراتا ہے کہ: تعقل عدم تعقل بن جاتا ہے۔

Detail of mountains from Bosch's "The Garden of Earthly Delights"
”دنیاوی لذت کے باغ“ میں پہاڑوں کی تفصیل۔

انوکھا پن اس آرٹ کا اصلی جوہر ہے۔ یہ ایک ایسی دنیا کا عکس ہے جس کی سا لمیت ٹوٹ چکی ہے، جس کے روم روم سے شکستگی عیاں ہے۔ دھرتی جو ہمارے قدموں کے نیچے ہے، کھوکھلی ہو چکی ہے۔ جو کچھ کبھی سخت تھا سیال حالت اختیار کر چکا ہے اور جو سیال تھا سخت ہو کر اکڑ چکا ہے۔ پہاڑ جو کہ اس دنیاوی لذات کے باغ کے وسط میں ایستادہ ہے مہیب دیو قامت پودوں کی جون میں بدل چکا ہے جو کہ غیر فطرتی پکاؤ کے عمل سے پھوٹ کر جگہ جگہ سے کھلا پڑا ہے۔ ہر شے خود کے الٹ میں تبدیل ہو رہی ہے، یا پھر اگر ہراقلیطس کے الفاظ میں کہیں تو: ”ہر شے ہے بھی اور نہیں بھی کیونکہ ہر شے مسلسل بہاؤ میں ہے“۔

اسلوبیاتی نکتہ نظر سے بوشؔ کا کام نہ تو عہدِ وسطیٰ کے آرٹ سے میل کھاتا ہے اور نہ ہی یہ نشاۃِ ثانیہ کے آرٹ سے۔ باوجود اس کے کہ ان دونوں کے عناصر اس میں موجود ہیں پھر بھی بوش کا کام حیران کُن حد تک جدید نظر آتا ہے۔ یہ مبہوت کر نے والی، بلکہ جھنجھوڑ کے رکھ دینے والی شبیہیں ہیں، ان کا آپسی تعلق انتہا کی حد تک تضادات سے پُر اور اس قدر غیر متوقع ہے کہ شاید ہی کسی کو سُریئلزم کی نگری میں بھی ڈھونڈے سے اس سے ملتی جُلتی کوئی نظیر ملے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ڈراؤنے خواب جیسی ان شبیہوں کی ہیبت ناکی ڈالیؔ کے”ٹارچرڈ ٹارسوز“ اور”لِمپ واچز“ سے کئی گنا بڑھ کر ہے۔

دکھنے میں بظاہر نراجی ]انتشار پسند یا انارکسٹ[ اور غیر منطقی لگنے والا یہ آرٹ حقیقت میں اُس دنیا کی ایک انتہائی سچی تصویر پیش کرتا ہے جس میں بوش زندگی گزار رہا تھا۔ یہ ایک عبوری دور کا آرٹ ہے؛ وہ دور جس میں جاگیر داری کا زوال اور سرمایہ داری کا ابھار ہو رہا تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب بڑے بڑے واقعات اور تبدیلیاں رونما ہو رہی تھیں۔ جاگیر داری کی حکمرانی ایک ناقابلِ واپسی گراوٹ کا شکار تھی اور سرمایہ داری شہروں میں پرانے نظام کو للکارتی ہوئی اپنے حقوق کی مانگ کر رہی تھی۔

”دنیاوی لذت کے باغ‘‘ میں انسانوں کے مچھلیوں کو اٹھا کر لے جانے کی تفصیل۔

کوئی بھی سماجی اقتصادی نظام جب ترقی کی جانب گامزن ہو تو عمومی فضا میں ایک اعتماد اور امید کا رویہ پایا جاتا ہے۔ موجود نظام پر کوئی سوال ہوتا ہے اور نہ ہی اس کے نظریات یا اخلاقی قدروں پر۔ لیکن یہاں تو عہدِ وسطیٰ کی کہن زدہ دنیا اپنی تمام تر مذہبی اعتقادات کی بنیادوں کی ہمراہی میں ڈھے رہی تھی۔ ایک ہی ساعت میں ہر شے کٹھالی میں پگھلانے کو ڈال دی گئی تھی۔ ہزار سال پرانا سلطنتِ روما کے زوال کے بعد کا مذہبی عقائد پر قائم حکمران نظام بری طرح سے لڑکھڑا رہا تھا۔ یہ وہ دور تھا جب تشکیک اور نفسا نفسی کے بادل سارے کے سارے سماج پر چھائے ہوئے تھے۔ عمومی سماجی تبدیلی نے آفاقی تشکیک ]ہر چیز پر شک کرنے[ میں اپنے اظہار کی راہ پا لی تھی۔

یہ ایک ایسی دنیا ہے جو کہ پاگل ہو چکی ہے، ایسی دنیا جو کہ مرض الموت میں مبتلا ہے اور جس کی بیماری کا کوئی علاج نہیں مل رہا۔ بوشؔ کی دنیاوی لذات کے باغ کی عظیم سہ لوحی تخلیق ] اس کے تین حصے ہیں، دائیاں، بائیاں اور درمیانہ [ کے چھوٹی چھوٹی تفاصیل لیے درمیانے حصے کی ہر جانب پھیلی ہوئی تھیم ]theme[ مختصراً کراہیت آمیز پکاؤ کا ایک اظہار ہے۔ دیو قامت مچھلیاں یقینی طور پر لِنگ کی علامت ہی ہیں۔ گناہ (جس کو زیادہ تر جنس کے ساتھ ہی منسلک کر کے دیکھا اور سوچا جاتا ہے) کا اظہار ایک عظیم الجثہ اور پُر گوشت پھل سے کیا گیا ہے، جن میں سٹرابیریاں نمایاں ہیں۔ ان کا غیر معمولی طور پر پَکنا ان کا اندرونی گلاؤ اور سڑاہٹ ہے، جو کہ اصل کراہیت آمیزی اور نفرت کا احساس دلاتا ہے۔

پندرھویں صدی کے اختتام نے سو سالہ جنگ کی آخری خونریز جھڑپوں اور تُرکوں کی پہلی یورشوں کا مشاہدہ کیا۔ یہ کوئی اتفاق نہیں کہ بوشؔ کی تصاویر میں ترکوں کا ہلال مستقلاً بار بار سامنے آنے والی شبیہ کے طور پر پایا جاتا ہے۔ مردوں اور عورتوں کی زندگیاں مستقل طور پر انجانے تشدد اور موت کے خطرے کی زد میں تھیں۔ سیاہ موت ]یورپ میں طاعون کی وباء کا نام رکھا گیا تھا[ کروڑہا انسان نگل گئی تھی، اس طرح ہر جانب جنگوں کا اور معاشرتی بے چینی کا دور دورہ تھا۔ سماجی ٹوٹ پھوٹ کا عمل، چوری، ڈاکے اور عمومی لاقانونیت کی وباء کی صورت اختیار کر چکا تھا۔

۔پیٹر بریوگلؔ کی پینٹنگ ”موت کا جشن“

”سیتوغن بوش“ جیسے شہروں میں سولیاں، اذیت رسانی کے آلات اور زندان خانے کثرت سے ہوتے ہوں گے۔ اس دور میں یہ معمول کی بات تھی کہ کسی کو بھی بغیر کسی وجہ کے، کسی بھی وقت تشدد جھیلناپڑ جائے، موت ہمہ وقت ہر کسی کے قرب و جوار میں تھی۔ اس کی زہر خند شکل ہر کلیسا میں دیکھی جا سکتی تھی۔ اور ان پینٹنگز کے پس منظر میں موت ہر وقت پھنکارتی موجود رہتی ہے۔ جو کہ عام طور پر ایک استخوانی ڈھانچے کی شکل میں ہوتی۔ بعینہ یہی موضوع بوشؔ کے واحد حقیقی وارث پیٹر بریوگلؔ نے پکڑا، جو کہ اس کی تصویر ”موت کا جشن“ میں موجود ہے۔

جاگیر دارانہ سماج کی ٹوٹ پھوٹ نے، جو اپنے ساتھ ہر طرح کی برائیاں (جنگیں، بھک مری، وبائیں) لے کر آئی تھی، بے مایہ اسفل طبقہ جنما تھا جس میں، بے زمین دہقان، بیسوائیں، فُقرے، پھیری باز، شعبدہ باز، برخاست شدہ فوجی، اور زمینی قزاق تھے جو کہ چند سکوں کے لیے گلے کاٹ دیا کرتے تھے۔ جرمنی میں تو خود بہت سے جاگیر دار شرفا نے ”ڈاکو نواب“ کا پیشہ اختیار کر لیا تھا جو کہ کسانوں کو لوٹا مارا کرتے تھے۔

”کالی موت“ یا طاعون، جس نے چودھویں صدی میں یورپ میں موت کا بازار گرم کیا، نے کم از کم ایک تہائی آبادی کا صفایا کر دیا تھا۔ اور اس کا پیچھا کرتے قحط بھی آن پہنچے جنہوں نے اپنے حصے کی صفائی کرنے میں کسر نہ چھوڑی۔ ایک اندھی اندھیری، افراتفری اور چھینا جھپٹی سے بھری پُری دنیا پیچھے بچ گئی تھی۔ لوگوں کا اس بات پر کامل ایمان تھا کہ بیماریاں اور وبائیں عذاب ہیں اور ”کالی موت“ خدا تعالیٰ کے غصے اور برہمی کا ایک واضح نشان ہے۔ قرونِ وسطیٰ کے ذہن کو، جو کہ مذہبی دنیا کی روحانیت، بھوتوں اور تواہم کے شکنجے میں بری طرح سے جکڑا ہوا تھا، یہ لگ رہا تھا کہ بس روزِ حشر آن پہنچا ہے۔ ان دنوں عام جنتا اس ایک بات پر ایمان کر بیٹھی تھی کہ سن 1500 عیسوی شروع ہوتے ہی قیامت آ جائے گی۔ وہ سب بس جہنم کے کنارے کھڑے ہیں، اور نسلِ انسانی کے فرار کا اب کوئی راستہ نہیں رہ گیا تھا۔

جاری ہے

Advertisements
julia rana solicitors london

لال سلام

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply