ناعاقبت اندیش قوم کے بیہودہ تبصرے۔۔۔علی اختر

کہتے ہیں کہ  بغداد میں بہلول دانا سڑک کے کنارے بیٹھے تھے کہ ایک مفلس آدمی انکے سامنے آیا ادب سے ہاتھ باندھ کر دریافت کیا کہ “حضور نادار ہوں ۔ مفلس ہوں ۔ محض دو درہم جیب میں ہیں ۔ آپکی دانائی مشہور ہے ۔ کوئی  مشورہ عنایت فرمائیں کہ یہ ناداری دور ہو سکے ” ۔ بہلول دانا نے نظر اٹھا کر اسکی جانب دیکھا اور دریافت کیا “دو درہم کے علاوہ کیا ہے تمہارے پاس ؟” اس نے کہا “ایک چھوٹا سا خطہ زمین کا ہے ” ۔ بہلول دانا نے کہا کہ  دو درہم سے گندم خرید لے۔ زمین تیار کر اور اسے اس زمین میں بو دے ۔ اللہ تیری ناداری دور کردے گا ۔

اس نے مشورہ پر عمل کیا اور اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ  فصل بھی اچھی ہو گئی  ۔ ناداری دور ہوئی ۔ امیری آئی تو گردن میں سولہ ایم ایم کا سریا بھی آگیا ۔ پھر ایک دن اسی سڑک سے اس کا گزر ہوا تو بہلول دانا کو کنارے پر بیٹھا دیکھا ۔ دولت کے تکبر میں گھوڑے پر سوار اسی نادار نے جواب امیر ہو چکا تھا دور سے آواز دی “ابے او بہلول دیوانے ! ادھر آ” بہلول سر جھکائے سامنے کھڑے ہو گئے ۔ “بتا اس بار زمین میں کیا کاشت کروں ؟”۔ بہلول نے سر جھکا کر کچھ دیر سوچا اور کہا “اس بار تربوز کی کاشت کرو ” ۔ دل میں اور دولت کمانے کی دھن سوار تھی سو اس نے بلا سوچے سمجھے اپنی ساری دولت تربوز کی کاشت میں جھونک دی ۔

اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ اس بار فصل خراب ہو گئی  اور تربوز گرمی میں سڑنے شروع ہو گئے ۔ اپنی ساری کمائی  اپنے سامنے برباد ہوتے دیکھ وہ دیوانہ وار بہلول دانا کے سامنے پہنچا ۔ “بہلول تیرے مشورے پر عمل کرکے میں برباد ہو گیا ۔ میری ساری جمع پونجی تباہ ہوگئی ۔ یہ تو نے میرے ساتھ کیا کیا ۔ ” اس  نے بہلول دانا سے شکوہ کیا ۔ بہلول نے سر جھکا کر سارا معاملہ سنا اور آخر میں گویا ہوئے ۔ “جب تو میرے پاس پہلی بار آیا تو مجھے بہلول دانا کہہ کر ادب سے مخاطب کیا ۔ میں نے تجھے داناؤں والا مشورہ دیا ۔ اگلی بار مزاح کے انداز میں دیوانہ کہہ کر مخاطب کیا تو میں نے بھی دیوانوں والا مشورہ دیا ۔ اب بھگت ” ۔

حکمرانی ، ملک کا انتظام چلانا ۔ ایک بہت ہی سنجیدہ کام ہے ۔ کروڑوں لوگوں کا مستقبل اس سے وابستہ ہوتا ہے ۔ ہمارا المیہ اور مجبوری یہ ہے کہ ہمارے حکمران بھی گنے چنے لوگ ہیں ۔ گھوم پھر کر یہی لوگ ایوانوں میں آتے ہیں ۔ ملک کی باگ ڈور سنبھالتے ہیں ۔ یقینا ًانہیں بہت اچھی طرح علم ہے کہ جن پر یہ لوگ حکومت کر رہے ہیں انکی  ذہنیت کیا ہے ۔ تو انکا رویہ ، حکومت کا انداز بھی وہی کچھ ہوتا ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ  اس قوم کے ساتھ کیا جانا چاہیئے ۔ یا دوسرے الفاظ میں جو قوم ڈزرو کرتی ہے ۔ یہ ایک پلیٹ بریانی کھاتے ہیں اور ووٹ لے لیتے ہیں ۔ جذباتی بیان دیتے ہیں اور لاکھوں کا مجمع اکھٹا کردیتے ہیں ۔ ایوانوں میں ایک دوسرے پر جگتیں کستے ہیں اور ہم ان جگتوں کی ہیڈ لائن بنا دیتے ہیں ۔

ہمارے ایک وفاقی وزیر پریس کانفرنس میں بلاول اور اپنا ذکر معنی خیز انداز میں کرتے ہیں ۔ تالی بجا کر اسکا مذاق اڑاتے ہیں ۔ ہم خوش ہو کے حوصلہ افزائی کرتے ہیں تو وہ اگلی پریس کانفرنس میں اور بھی زور وشور سے یہ عمل دہراتے ہیں بلکہ بعض صحافیوں کی جانب سے انہیں اکسایا جاتا ہے کہ ایسا کریں ۔ ہماری عوام کو آپ سے ایسے ہی بیانات چاہئیں ۔ کوئی  سنجیدگی سے اگر ایک بار بھی یہ پوچھ لے کہ  کروڑوں لوگوں نے خون پسینے کی کمائی سے  آپکو ایوانوں میں اس نان سیریس ایٹیٹیوڈ یا مسخرہ پن کرنے کے لیئے بھیجا تھا تو میری گارنٹی ہے کہ  آئندہ وہ ایسی بات کرتے ستر بار سوچیں گے ۔ لیکن افسوس کہ  ہماری پسند ایسے ہی نان سیریس لوگ ہیں ۔

آپ ہمارے اسٹیج ڈراموں کی ہی مثال لے لیں ۔ شیکسپیئر کے ڈراموں سے شروع ہونے والے اسٹیج پر تھپڑوں کا سلسلہ شروع ہوا ۔ پھر کہانی فحش جملوں اور جنسی اعضاء کی نمائش والے مجروں پر انجام پذیر ہوئی ۔ ضیاء محی الدین اور راحت کاظمی کی جگہ روحی صنم اور نرگس نے لے لی ۔ اسکی وجہ صاف ہے جو ہمیں چاہیے  تھا وہی ہمیں ملا اور ہم اس میں خوش بھی ہیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یہ حکمران اگر حکمرانی کے قابل نہیں تو آپ خود کو حکومت کروانے کے قابل بنا لیں ۔ امید ہے کہ یہ خود بھی کچھ نہ کچھ سدھر جائیں گے ۔ بصورت دیگر جب بلاول یہ دیکھے گا کہ قوم کو اسکے حکومتی اقدامات سے زیادہ اسکی جنس میں دلچسپی ہے ۔ مریم نواز کے علم میں ہوگا کہ  افطار پارٹی میں اسکے صوفے پر بیٹھنے کے انداز اسکے سکینڈل ، شادی وغیرہ کے واقعات ہی زیر بحث ہیں تو پھر کل ملک کی باگ ڈور سنبھالنے کے بعد یہ بھی ہمیں بہلول دیوانے ہی کی طرح ٹریٹمنٹ دیں گے ۔ نہ کہ  کسی دانہ کی مانند ۔

Facebook Comments

علی اختر
جو دیکھتا ہوں وہی بولنے کا عادی ہوں ۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply