سادہ عوام۔۔۔ عبد الروف خٹک

میں اپنے ہسپتال سے باہر ممتاز چائے والے کے ڈابے پر کھڑا گاڑیوں میں موجود لوگوں کو دیکھ رہا تھا ،ایسا لگ رہاتھا جیسے ان لوگوں کو گاڑیوں میں زبردستی ٹھونسا گیا ہو۔ ان کے چہرے سے کہیں بھی یہ نہیں لگ رہا تھا کہ وہ کسی عظیم الشان جلسے کے لئیے آئے ہوں، بلکہ ان کے چہرے کے تاثرات تو کچھ اور ہی بتا رہے تھے ۔وہ لوگ چہروں سے بالکل اجڑے ہوئے لگ رہے تھے۔ کئی لوگوں نے ہاتھوں میں جھنڈے بھی تھامے ہوئے تھے لیکن اکثریت کو دیکھا گیا کہ وہ جھنڈا الٹا تھامے ہوئے تھے ،یعنی خالی ڈنڈا اوپر اور جھنڈا نیچے کی طرف۔ جیسے کسی مخصوص غصے کا اظہار کیا جارہا ہو۔جب ممتاز چائے والے سے اس بابت پوچھا گیا کہ یہ کیا تماشہ ہے؟ تو وہ ہنس کر کہتا ہے یہ کارکن نہیں بلکہ یہ تو کھیتوں میں کام کرنے والے وہ مزارع ہیں، جنھیں پتہ ہی نہیں ہمیں یہاں کیوں لایا گیا ،یہ ان لوگوں کے کھیت کھلیانوں میں کام کرنے والے لوگ ہیں جو اسمبلیوں میں بیٹھے عیاشیاں کررہے ہیں۔

ممتاز کی باتیں سن کر میں سوچنے لگا کہ یہ شخص جس کی تعلیم بھی برائے نام ہے وہ بھی اتنی جانکاری ضرور رکھتا ہے کہ میرے ملک کے حکمران جو اسمبلیوں میں بیٹھے ہوئے ہیں وہ کس طرح اسمبلیوں میں پہنچتے ہیں اور وہ اپنی عوام کے ساتھ کتنے مخلص ہیں؟ ایک طرف میرے دماغ میں ممتاز چائے والے کی باتیں گھوم رہی تھیں تو دوسری طرف روڈ کے چاروں طرف پھنسی گاڑیوں میں بیٹھے لوگوں کے چہرے کے تاثرات پڑھ رہا تھا ،جیسے وہ اپنے حکمرانوں سے کچھ کہنا چاہتے ہوں۔ ایسا لگتا تھا جیسے وہ کچھ جانتے ہی نہ ہوں کہ ہمیں کہاں لیجایا جارہا ہے؟ دوسری طرف حالت یہ تھی کہ شہر میں جا بجابڑے بڑے بینرز بورڈوں پر آویزاں تھے جس پر حکمرانوں کی تصویریں بھی نمایاں تھیں ۔بینرز پر لگی حکمرانوں کی تصویروں سے ایک چھپی مسکراہٹ ٹپک رہی تھی جیسے عوام کا مذاق اڑایا جارہا ہو۔ان بینرز پر بھی گورنمنٹ نے لاکھوں روپے خرچ کیئے ہونگے ۔یعنی عوام کو جلسے میں لانے کے لئیے گورنمنٹ کیا کیا حربے اختیار کرتی ہے ،بلکہ ساتھ ساتھ سرکاری مشینری کو بھی استعمال میں لایا جاتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

اتنا سب کچھ کرنے کے باوجود بھی جلسوں میں عوام کی اصل طاقت نظر نہیں آتی ،اس کی وجہ عوام کی یکسوئی نہ ہونا عوام جلسوں میں ادھر ادھر ایسے گھوم رہی ہوتی ہے جیسے وہ جلسے میں نہیں بلکہ کہیں گھومنے آئیں ہوں ۔جو قوم ہمیشہ چہروں سے الجھی ہوئی نظر آتی ہو اور حاکم اس کے سلجھے ہوئے اور قوم اپنے الجھنے کا سبب ہی نہ جان پاتی ہو اس قوم سے آپ کیا توقعات وابستہ رکھیں گے۔جو قوم اب تک اپنے حقوق کے بارے میں نہیں جان پائی کہ میرے کیا حقوق ہیں ؟ جو اپنا حق مانگتے ہوئے ہچکچاتی ہو، جو یہ ہی نہیں جان پائی کہ جابر سلطان کے آگے کلمئہ حق کہنا افضل جہاد ہے۔یہ قوم تو بھیڑ بکریوں کی طرح حکمرانوں کے پیچھے ہے ۔لیکن حکمرانوں کے کھوکھلے نعرے جب کانوں میں رس گھولتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں تو ہم جیسوں کا بھی جی چاہتا ہے کہ ان کے چرنوں میں پڑے رہیں۔
سوچا تھا الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کا دور ہے عوام کچھ سمجھدار اور نڈر ہوگئی ہوگی اب اپنے حقوق ڈنکے کی چوٹ پر مانگے گی ۔اور اپنے آپ کو منوائے گی کہ ہمارے بھی حقوق ہیں اور ہمیں ہمارے رائٹس دئیے جائیں ۔لیکن افسوس سوشل میڈیا پر ہر قسم کی ادھم اس قوم نے مچارکھی ہے لیکن افسوس اپنے لئیے کہیں بھی نوحہ نہیں ۔

Facebook Comments

Khatak
مجھے لوگوں کو اپنی تعلیم سے متاثر نہیں کرنا بلکہ اپنے اخلاق اور اپنے روشن افکار سے لوگوں کے دل میں گھر کرنا ہے ۔یہ ہے سب سے بڑی خدمت۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply