• صفحہ اول
  • /
  • گوشہ ہند
  • /
  • مرج البحرین: دیوبند اور علیگڑھ پر نہایت دلچسپ کتاب(1)۔۔محمد غزالی خان

مرج البحرین: دیوبند اور علیگڑھ پر نہایت دلچسپ کتاب(1)۔۔محمد غزالی خان

نام کتاب : مرج البحرین ،سوانح شیخ الاسلام مولانا عبداللہ انصاریؒ
مولف: نورالحسن راشد کاندھلوی
تبصرہ: محمد غزالی خان
صفحات: 256
قیمت: 300 روپے
ناشر: Iqra Educational Foundation, A-2 Firdaus, 2 Veer Savarkar Road, Mahim (W) Mumbai 400016, India
Email: contact@iqraindia@org

جہاں ایک طرف سرسیدؒ اورعلیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے خلاف الزام تراشی کا سلسلہ آج تک کسی طرح رکنے کا نام نہیں لے رہا ہے اور برصغیرہند و پاک میں کچھ مسلمان احسان فراموشی کی بدترین لعنت میں مبتلا ہیں (یہ احسان فراموشی صرف سرسیدؒ کے تئیں ہی مخصوص نہیں، اس قوم نے اوربہت سی شخصیات کو نہیں بخشا ہے۔ بہرحال یہ ایک الگ بحث ہے) تودوسری جانب کچھ ایسے اہل فکر بھی ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے توفیق عطا فرمائی ہے کہ اپنی علمی صلاحیت و وسائل کو مثبت کاموں اور نئی نسلوں کی رہنمائی کے لئے استعمال کریں۔ ایسا ہی ایک نیک کام اللہ تعالیٰ نے نورالحسن راشد کاندھلوی صاحب سے لیا ہے جنہوں نے مرج البحرین، سوانح شخ الاسلام مولانا عبداللہ انصاریؒ‘ مرتب کر کے تاریخ میں گم ہوجانے والی ایک بڑی شخصیت کے غیر معمولی کارنامے کو نئی نسل کے سامنے پیش کیا ہے۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ سرسیدؒ کے خلاف جو طوفان ان کی زندگی میں برپا کیا گیا تھا اورجو کبھی کا ختم ہوچکا ہے کچھ حلقے اس طوفان کو زندہ کرنے کی مستقل کوشش کرتے رہتے ہیں۔ سرسید اور علیگڑھ کے خلاف ان لوگوں کا بغض کسی طرح ٹھنڈہ ہونے کا نام نہیں لیتا۔ اگرآپ کو لفظ ’بغض‘ پر اعتراض ہو اور اس میں میری شدت نظرآرہی ہوتو آپ آئے دن سر سید اور اس کے خلاف ہند پاک کے رسائل و جرائد یہاں تک کہ سوشل میڈیا پر تحریریں اور بیانات دیکھ سکتے ہیں جو گوگل اور یوٹیوب پر ایک سرچ میں ہزاروں کی تعداد میں موجود ہیں۔

کاش ایسے لوگ بانی دارالعلوم دیوبند مولانا قاسم نانوتویؒ کے اس جواب پرکچھ غورکرلیتے جو انہوں نے ایک سوال کے جواب میں دیا تھا: ’پیر جی صاحب یہ گمنام کبھی کسی سے نہیں الجھتا اور الجھے بھی تو کیونکر الجھے، وہ کون سی خوبی ہے جس پر کمر باندھ کر لڑنے کو تیار ہو۔ ایسی کیا ضرورت ہے کہ اپنے عمدہ مشاغل کو چھوڑکر اس نفسا نفسی میں پھنسوں۔ ہاں اس میں کچھ شک نہیں کہ سنی سنائی سید صاحب کی اولولعزمی اور درمندی اہل اسلام کا معتقد ہوں اور اس وجہ سے ان کی نسبت اظہار محبت کروں تو  بجا ہے۔ مگر اتنا یا اس سے زیادہ ان کی فسادِ عقائد سن سن کر ان کا شاکی اور ان کی طرف سے رنجیدہ خاطر ہوں۔۔۔‘ (تصفية العقائد، صفحہ نمبر 6)

یہ مختصر سا اقتباس مولانا قاسم نانوتویؒ کے ایک خط سے ماخوذ ہے جس میں انہوں  نے سرسیدؒ کے مذہبی عقائد پر اظہارافسوس اوران سے شدید اختلاف کے باوجود ان کے تئیں اپنے نیک جذبات مخفی نہیں رکھے ہیں۔

39 صفحات پر مشتمل اس کتابچے میں اپنے دور کے دو بڑے محسنین ملت، مولانا قاسمؒ اور سرسیدؒ، پیر جی محمد عارف کی معرفت ایک دوسرے سے مخاطب ہیں۔ تین صفحات پر سرسید کی اپنے موقف کی وضاحت ہے اور 36 صفحات میں مولانا قاسم نانوتوی کا جواب ہے۔

مندرجہ بالا اقتباس میں ان جملوں پر ایک مرتبہ پھرغورکیجیے جن سے صاف ظاہرہوتا ہے کہ مولانا قاسمؒ کے نزدیک وہ طوفان بالکل غیرضروری تھا جو سرسیدؒ کے خلاف برپا کیا گیا تھا اورانہیں کافر قرار دے کر واجب القتل قراردیا جا رہا تھا۔ ان جملوں پر ایک مرتبہ پھر توجہ فرمائیں :  ’۔۔۔ وہ کون سی خوبی ہے جس پر کمر باندھ کر لڑنے کو تیار ہو ایسی کیا ضرورت ہے کہ اپنے عمدہ مشاغل کو چھوڑ کر اس نفسا نفسی میں پھنسوں۔ ہاں اس میں کچھ شک نہیں کہ سنی سنائی سید صاحب کی اولولعزمی اور درمندی اہل اسلام کا معتقد ہوں اور اس وجہ سے ان کی نسبت اظہار محبت کروں تو بجا ہے۔۔۔

حالانکہ، جیسا کہ نام سے ظاہر ہے، یہ کتاب علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ دینیات کے بانی اورپہلے ناظم مولانا عبداللہ انصاریؒ کی سوانح ہے، مگرفی الحقیقت یہ دیوبند اورعلیگڑھ کے نزدیکی تعلق اورباہمی تعاون پرایک عمدہ تاریخی دستاویزبھی ہے۔

اس کتاب میں نوارالحسن کاندھلوی صاحب کی قیمتی اوراہم تحقیق کے علاوہ مولانا عبداللہ انصاریؒ صاحب کے دو پڑپوتوں ڈاکٹر عابد اللہ غازی صاحب (چیرمین اقراء انٹرنیشنل ایکوکیشنل فاؤنڈیشن، شکاگو، امریکہ)؛ محمد طارق غازی صاحب (سینئر صحافی، مصنف اورامم اسٹڈیز ہاؤس، ٹورانٹو، کینیڈا) کے ساتھ ساتھ مولانا سعود عالم قاسمی، (سابق ڈین اور ناظم دینیات، علیگڑھ مسلم یونیورسٹی) اور ڈاکٹرراحت ابرار صاحب (سابق افسر اعلیٰ رابطہ عامہ، علیگڑھ مسلم یونیورسٹی) کے نہایت دلچسپ، تحقیقی مضامین شامل ہیں۔

مولانا عبداللہ انصاری صاحب اللہ تعالیٰ کے ان نیک بندوں میں تھے جو ملت کی خدمت کرکے تاریخ کے صفحات میں کہیں گم ہوگئے۔ علیگڑھ کے فارغین ہوں یا دارالعلوم دیوبند اور ندوہ کے فاضلین، کتنوں نے مولانا عبداللہ انصاری کا نام سنا ہوگا اوراگر سنا ہوگا تو کتنوں کواس مرد قلندر کی اس خدمت اورہمت کے بارے میں معلوم ہوگا جس نے دینی مدارس اور علیگڑھ کے درمیان خلیج کو پاٹ کر آئندہ نسلوں کے لئے دین اور دنیا کی راہیں ہموارکردیں جو مسلسل گہری سے گہری اوروسیع سے وسیع ہوتی چلی جارہی تھی۔

سرسیدؒ کے خلاف تکفیری مہم میں شامل ہونے سے انکارکے باوجود علمائے دیوبند ان کے ساتھ تعاون کرنے کو کسی بھی طرح تیار نہ تھے اور ان حالات میں مولانا عبداللہ انصاریؒ کا علیگڑھ آنا اور سرسید کے ساتھ تعاون کرنا نہایت جرات مندانہ تاریخی فیصلہ تھا۔

سرسید کے  کارواں  میں شامل ہونے کی وجہ سے اپنے بزرگوں کی برہمی کے باعث مولانا عبداللہ انصاری کو کس ذہنی اورروحانی کرب سے گزرنا پڑا ہوگا اس کا آج کے ماحول میں شاید ہم ٹھیک طرح اندازہ بھی نہ کرسکیں۔ اس کی ایک مثال پیش کرتے ہوئے عابداللہ غازی صاحب مولانا رشید احمد گنگوہی کے نام حاجی امداداللہ مکی کا ایک خط نقل کرتے ہیں جس میں انہوں نے لکھا ہے: ’مولوی عبداللہ صاحب کے حالات سن کر تعجب ہوا اور افسوس کہ باوجود دعویٰ صوفیت اور بزرگ زادگی کے اس مدرسہ کے متعلق ہوگئے جس کا نام علمائے آخرت کے نزدیک دارالالحاد ہے اور جو مذہب اور مشرب کے خلاف ہے اور یہ جو آپ سے کسی نے کہا ہے کہ وہ فقیر کی اجازت سے مدرسہ نیچریہ میں ملازم ہوئے ہیں سبحانک ھذابحتان عظیم [سبحان اللہ، یہ تو ایک بڑا بہتان ہے] ۔۔۔ علمائے آخرت اس مدرسہ کے متعلقین کو دیندار نہیں سمجھتے بلکہ نصوص الدین جانتے ہیں خواہ وہ علما ہوں یا بزرگ زادے، کیونکہ آخرت میں نہ تو مجرد علم کام آوے گا نہ بزرگ زادگی۔۔۔‘

ڈاکٹرعابداللہ غازی رقم طراز ہیں: ’مولانا انصاری نے اپنے پیرو مرشد کی بات کو نظرانداز کرکے اورعلی گڑھ میں دعوت و تبلیغ اور حکمت و موعظت کے روشن امکانات کو دیکھ کر بیعت و سلوک کے آداب کے خلاف فیصلہ کیا تھا لیکن نہ مولانا انصاری نے بیعت ختم کی اور نہ حاجی امداد اللہ نے انہیں اپنے حلقہ خلافت سے خارج کیا۔ البتہ حاجی صاحبؒ اور بزرگان دیوبند سے ان کے تعلقات یقیناً متاثر ہوئے ہوں گے۔‘

عین ممکن ہے ایساہی ہوا ہو مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ اپنے، شاگرد، بھانجے اورداماد کے علیگڑھ جانے پر مولانا قاسمؒ کی ناراضگی کا شاید کوئی ثبوت نہیں ہے یا کم از کم اس کتاب میں موجود نہیں ہے۔ حالانکہ مولانا رشید گنگوہیؒ کے رد عمل اور ناراضگی سے یہ بات تو ظاہر ہے کہ علیگڑھ جانے کا مولانا عبداللہ انصاری کا فیصلہ کوئی آسان فیصلہ نہ تھا۔

مگر مولانا انصاری کے سامنے وہ کون سا بڑا مقصد تھا جس کے لئے انہوں نے اپنے بزرگوں کی نارضگی مول لی؟ عابداللہ صاحب لکھتے ہیں: (1) ’سرسید کے مشن میں مولانا عبداللہ انصاری کی شرکت سے اس مشن کوغیرمعمولی تعاون حاصل ہوا۔ وہ لوگ جواب تک متاءمل تھے شریک کار ہوگئے، جو شریک کار تھے وہ رفیق سفر ہوگئے؛ (2) مولانا انصاری نے شعبہ دینیات قائم کر کے اس کا نصاب مدارس کی مروجہ اور مستند روایات کے مطابق بنا کر لوگوں کےان شبہات کو دور کردیا جو انہیں سرسید کے عقائد کی ترویج کے سلسلہ میں لاحق تھے؛ (3) مولانا انصاری کی تدریس و تربیت اور موجودگی سے کالج میں ایسی دینی فضا قائم ہوئی جس سے عقیدہ اور عبادات اور شعائر کا تحفظ ہوا؛ (4) مولانا انصاری کے علمی مقام سے ملک کے مختلف ادارے مستفید ہوئے۔ خاص طور پر ندوةالعلما کی تاسیس اور ترقی میں مولانا نے خصوصی رہنمائے فرمائی؛ (5) مولانا انصاری کا وجود علماء اورجدید ذہن کے درمیان ایک رابطہ بن گیا جس نے مستقبل میں تعاون کی راہیں ہموارکیں؛ (6) مولانا انصاری کے ابتدائی کام نے یونیورسٹی میں سنی اور شیعہ دینیات کی فیکلٹی، اسلامک اسٹڈیز، عربی، فارسی، اردو وغیرہ کے لئے راہیں ہموار کیں۔‘

عابداللہ صاحب مزید لکھتے ہیں: ’سرسید کی غیر معمولی قدردانی، مولانا انصاری کی دینی تعلیمی خدمات سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان سے جو امیدیں سرسید نے قائم کی تھیں وہ پوری ہوئیں اور مرتے دم تک سرسید کی عقیدت واحترام میں فرق نہیں آیا، اور آخرت کے سفر کی امامت کے لئے انہوں نے مولانا انصاری کو منتخب فرمایا۔‘

جن لوگوں کا ذہن آج ڈیڑھ سو سال بعد بھی سرسید کے اصل مشن اورمقاصد سے متعلق صاف نہیں شاید مولانا عبداللہ انصاری صاحب کی تقرری سے پہلے لکھا گیا سرسید کا یہ خط ان کی آنکھیں کھول دے۔ کتاب میں پورا خط شامل ہے مگرمضمون کی طوالت کے پیش نظر یہاں اس کے چند اقتباسات پیش کئے جارہے ہیں:

’۔۔۔ مدرستہ العلوم ایک ایسی جگہ ہے جہاں کثرت سے مسلمان نوجوان جمع ہیں، ان میں نیکی اور اخلاق محمدی اور محبت اسلامی اور پابندی فرائض مذہبی کو پھیلانا اور ان کے دلوں کو نرمی اور اخلاق سے نہ تشدد اور سختی اور تعصب اور تشقف سے نیکی کی طرف مائل کرنا ایک مذہبی  اور ثواب کا کام ہے۔۔۔ مولوی عبداللہ صاحب فرزند ہیں مولوی انصارعلی صاحب کے، نواسے ہیں مملوک علی صاحب کے، داماد ہیں مولوی محمد قاسم صاحب کے اور ان سب بزرگوں سے مجھے ذاتی واقفیت تھی اور امید ہے کہ ان بزرگوں کی صحبت کے فیض سے مولوی عبداللہ صاحب کی بھی ایسی ہی طبیعت ہے کہ دینی کاموں کو بہ لحاظ دین اور بہ لحاظ محبت اسلام انجام دیں۔۔۔مدرسے میں قیام پذیر ہونے میں جن کاموں کے انجام کی ان سے خواہش ہے وہ یہ ہیں اول: مسجد کا اہتمام اور نماز پنجگانہ کا انتظام ان کے متعلق رہے اور پانچوں وقت کی نماز وہ خود پڑھادیا کریں۔ ان کے سبب سے جماعت کو ترقی ہو گی اور طالب علموں کو نماز باجماعت کی زیادہ ترغیب ہو گی۔ دوسرے یہ کبھی کبھی جمعہ کی یا اور کسی نماز کے بعد بطوروعظ کے طالب علموں کو کسی قدر نصیحت کردیا کریں۔ کالج کے طالب علم خود تعلیم یافتہ ہیں اور متعدد قسم کے علوم سے واقفیت رکھتے ہیں، ان کے لئے زیادہ تر مفید یہ ہوگا کہ اخلاق اورعادات محمدالرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اور صحابہ کرام اور دیگر بزرگان دین کی نیکیوں اور حسن اخلاق اور خدا پرستی اور خدا کی محبت اوراحکام مذہنی کے خلوص سے ادا کرنے، والدین اور استاد کے ادب اور آپس میں مسلمانوں کی ہمدردی، عقائد مذہب اسلام کی خوبی اور سادگی، واحدانیت خدا کی عظمت و شان، قرآن مجید کی خوبی اور جناب رسالت مآب کی ہدایات کی خوبی اور برتری سے وقتاً فوقتاً ان کا آگاہ کیا جاوے جس سے طالب علموں کے دلوں میں نیکی پیدا ہو اور ان کے دل سچائی اور باہمی محبت اسلامی اور نیکی کی طرف مائل ہوں۔۔۔ زیادہ تر میرا مقصد یہ ہے کہ طالب علموں کے دلوں میں نماز پنج گانہ اور با جماعت نماز ادا کرنے کا شوق پیدا ہو یا عادت پڑجاوے۔۔۔ جو لوگ جماعت میں غیر حاضر ہوتے ہیں ان سے مواخذہ کیا جاتا ہے اور تدارک بھی ہوتا ہے۔۔۔ جو بلاوجہ اکثر جماعت سے غیر حاضر ہوتے ہیں۔۔۔ مولوی صاحب کسی وقت ان کو علیحدہ تخلیہ میں بلا کر نصیحت کریں گے اور سمجھاویں گے کہ نماز پڑھنی اور جماعت میں شریک ہونا چاہئے۔۔۔ غرض کہ اس قسم کی مشفقانہ نصیحتیں زیادہ کار آمد ہوں گی اور ان دنیاوی سزاؤں سے جو پرنسپل صاحب نماز کی غیر حاضری کے سبب دیتے ہیں زیادہ ترکارگر ہوں گی۔‘

سرسید کے طویل خط سے اس اقتباس سے آپ خود اندازہ کرلیجئے کہ سرسیدعلیہ رحمہ اس کالج کے ذریعے کیا حاصل کرنا چاہتے تھے۔ کالج میں دینی تعلیم اورطلبا میں دین کے تئیں رغبت پرنورالحسن راشدی صاحب رقم طراز ہیں: ’کالج میں طلبہ کے دل میں نماز کی اہمیت، اس کے لئے خود امامت اور درس ووعظ کی جن خدمات کا سرسید کے خط میں تذکرہ آیا ہے کہ وہ ابتداء ہی سے نظر آنے لگا تھا۔۔۔

’مولانا عبداللہ انصاری کی کوشش سے طلبہ میں ایسا رنگ پیدا ہوگیا تھا کہ طلبہ خود ہی مسجد آنے کے پابند ہوگٗے تھے اور نمازوں میں اس قدر اہتمام سے آتے کہ مسجد بھرجاتی اور ہر طرف طلبہ کا جمگھٹا نظر آتا۔‘

وہ اس ضمن میں علامہ شبلی نعمانی کا ایک خط نقل کرتے ہیں:’مغرب کی نماز سبحان اللہ کیا شان و شوکت ہوتی ہے کہ بس دل پحٹا پڑتا ہے۔ خود سید صاحب بھی شریک نماز ہوتے ہیں اور چونکہ وہ عامل بالحدیث (غیر مقلد) ہیں آمین زور سے کہتے ہیں ان کی آمین کی گونج مذہبی جوش کی رگ میں کون بڑھادیتی ہےمجھ کو اس بات کا فخرحاصل ہے کہ اس نئی زندگی کے پیدا ہونے میں میرا بھی حصہ ہے۔‘

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply