غلام، جو ہوا کانگریس سے آزاد (2)۔۔افتخار گیلانی

مجھے یاد ہے کہ میں چند دیگر ساتھیوں کی معیت میں یہ انتخاب کور کر رہا تھا کہ حیدر آباد سے محبوب نگر جاتے ہوئے چائے پینے کیلئے ایک ڈھابے پر رکا، معلوم ہوا کہ کانگریس پارٹی کی ایک ریلی آرہی ہے۔ ریلی میں ایک وین کی چھت سے آزاد اور مقامی کانگریس لیڈر راج شیکھر ریڈی ہاتھ ہلاکر لوگوں سے کانگریس کو ووٹ ڈالنے کی درخواست کر رہے تھے۔ آزاد نے ہمار ی طرف دیکھ کر بھی ہاتھ ہلایا اور شاید کچھ کہہ بھی رہے تھے۔ ریلی کے گزرنے کے بعد ایک گاڑی ہمارے سامنے رکی اور استفسار کیا کہ کیا ہم دہلی سے آئے ہوئے صحافی ہیں اور بتایا کہ دس کلومیٹر دور اسی سڑک کے کناے ایک ڈاک بنگلہ میں آزاد لنچ کریں گے اور انہوں نے پیغام بھیجا ہے کہ وہ اس دوران ہم سے ملاقات کرنا چاہتے ہیں۔ لنچ کرتے ہوئے ان سے خاصی گفتگو ہوئی۔ خیر تمام تر رائے عامہ کے جائزوں کو پس پشت ڈال کر اس صوبہ میں چندرا بابو نائیڈو کو بری طرح شکست کا سامنا کرنا پڑا اور کانگریس کی قیادت والے متحدہ ترقی پسند اتحاد کو 41 میں 36 سیٹیں حاصل ہوئی۔اس ایک صوبہ نے واجپائی حکومت کوبے دخل کرکے اگلے دس سالوں تک من موہن سنگھ کی قیادت میں کانگریسی حکومت بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ اسی طرح جنوبی صوبہ تامل ناڈو میں دو بار اور چھتیس گڈھ اور جھار کھنڈ میں بطور انچارج دیگر سیکولر جماعتوں کے ساتھ سیٹوںکے تا ل میل اور اتحاد کی وجہ سے انہوں نے کانگریس اور اسکی اتحادی پارٹیوں کو کامیابی دلانے میں ایک اہم کردار ادا کیا۔ اسی لئے آزاد کے ساتھ ایک سرد جنگ کے باوجود،گاندھی خاندان مشکل حالات میں آزاد کو ذمہ داریاں تفویض کرتا تھا۔ کانگریس کے اکبر روڈ صدر دفتر میں تو یہ زبان زد و خاص عام تھا کہ آزاد کے ہاتھ میں چراغ جلتا ہے یعنی نہایت ہی قسمت والا ہے اور کڑ کڑ کرنے یا رنجیدہ ہو کر خول میں بیٹھنے کے بجائے سزا کو بھی جزا میں تبدیل کرنے کی اہلیت رکھتا ہے۔وہ 1996ء سے لگاتار ایوان بالا یعنی راجیہ سبھا کے رکن رہے اور 2014ء سے اس ایوان میں لیڈر آف اپوزیشن تھے۔ آزاد کانگریس پارٹی کا ایک ایسا ’مسلمان‘ چہرہ تھا جس کو وہ ہندو اکثریتی علاقوں میں بھی انتخابی مہم کے لیے استعمال کرتی تھی۔ تاہم بھارت میں بی جے پی اور ‘ہندو نیشنلسٹ سیاست’ کے عروج کے بعد کانگریس نے انہیں مبینہ طور پر نظرانداز کرنا شروع کر دیا۔ 2018ء میں لکھنو میں علی گڈھ مسلم یونیورسٹی کے فارغ التحصیل طلبہ کی طرف سے یوم سر سید کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے شکوہ کیا تھا کہ ’’ 1973ء میں کانگریس میں شمولیت کے بعد سے لیکر آج تک انہوں نے ہر انتخابی مہم میں شرکت کی ہے اورہندو لیڈر، ان کو اپنے انتخابی حلقوں میں لیجانے کیلئے بے تاب ہوتے تھے۔پہلے جہاں جلسے جلوسوں میں ان کو مدعوکرنے کیلئے 95فیصد درخواستیں ہندو لیڈروں کی آتی تھیں، اب پچھلے چار سالوں میں سکڑ کر محض 20فیصد رہ گئی ہیں۔میں نے اپنے انتخابی کیریئر کا آغاز ہی 1980ء میں مہاراشٹرہ کے ہندو اکثریتی لوک سبھا حلقہ واسن سے کیا۔یوتھ کانگریس کے دنوں سے لے کر اب تک میں نے ملک بھر میں پارٹی کے لیے انتخابی مہم چلائی ہے لیکن اب پارٹی کے امیدوار مجھے ہندو اکثریتی علاقوں میں بلانے سے ڈرتے ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ اگر میں انتخابی مہم کا حصہ بن گیا تو پتہ نہیں اس کا رائے دہندگان پر کیا اثر ہو گا۔‘‘ وہ اکثر فخراً یہ کہتے تھے کہ ان کا سیاسی کیریئر اقلیتی سیاست کے بجائے بھارت کے سیکولر ہندو اکثریت کا مرہون منت ہے۔ بطور وزیر صحت مجھے یاد ہے کہ ایک روز صبح سویرے ان کا فون آیا کہ کسی وقت ان سے دفتر میں آکر ملوں۔ کشمیر ٹائمز کے دہلی بیورو کیلئے کام کرنے کی وجہ سے ان کو کور کرنا بیٹ کا ایک حصہ تھا۔خیر آفس جاتے ہوئے میں نرمان بھون میں وزارت صحت کے ہیڈ کوارٹرز پہنچا اور ان کے پی۔اے راما چندرن کا دروازہ کھٹکھٹایا، جس نے مجھے انتظار گاہ میں بیٹھنے کیلئے کہا۔جنوبی بھارت کا یہ سانوالا گھٹے جسم کا مالک پی۔اے ان کا خاصہ نک چڑھا ملازم تھا۔ میں نے دیکھا کہ وزیر موصوف کے کمرے کے باہرسبز بتی جل رہی تھی، جس کا مطلب تھا کہ وہ کسی میٹنگ میں مصروف نہیں ہیں۔ اسکے علاوہ راما چندرن جی انتظار گاہ میں آئے افراد کو ایک ایک کرکے یا وفد کی صورت میں وزیر کے کمرے میں لے جارہے تھے۔میں نے انکو یاد دلایا کہ وزیر موصوف نے خود مجھے بلایا ہے۔ قریباً ایک گھنٹے تک نظر انداز کرنے کے بعد پی اے نے مجھے اپنے کمرے میں بلا کر پرسوں ملاقات کیلئے آنے کو کہا۔ کیونکہ کل وزیر دہلی سے باہر ہیں۔میرے بار بار کے اصرار پر وجہ یہ بتائی کہ آج ملاقاتیوں کی لسٹ میں مسلمان نام کچھ زیادہ ہیں۔ ’’ہمیں وزیر سے ملنے والوں میں توازن رکھنا پڑتا ہے۔ آپ کو معلوم ہے کہ ہم ایک سیکولر ملک میں ہیں اوراسکا تقاضا ہے کہ وزیر سے ملنے والوں کی لسٹ بھی سیکولر ہو۔ آج کی لسٹ میں ہندو ملاقاتیوں کی تعداد کچھ کم اور مسلمان زیادہ ہیں۔‘‘ راما چندرن کی یہ توضیح سن کر میں چکرا گیا۔لیکن جاتے جاتے ان کو بتایا کہ آزاد صاحب خاص طور پر اسوقت وزارتی کونسل میں صرف مسلمان اور کشمیر ی ہونے کی حیثیت سے ہیں۔راما چندرن کی سیکولر ازم کی اس طرح کی توجیح کا شاید ان کو علم ہوگیا تھا اور بعد میں اسی لئے انہوں نے ضلع ڈوڈہ کے ہی ایک کشمیری مسلم افسر خالد جہانگیر کو آفس میں متعین کیا۔ کیونکہ آزاد کے بارے میں انکی پارٹی میں عام تھا کہ وہ ناقابل پہنچ ہے اور ملاقاتیوں کو پسند نہیں کرتے ہیں۔ اس کی بڑی وجہ راما چندرن جیسا ان کا پی اے تھا۔ جہانگیر کی آمد کے بعد یہ شکوہ بڑی حد تک لوگوں کا دور ہوگیا۔ آزاد کا طرز عمل ایک روایتی سیاستدان جیسا تھا۔ وزارت صحت میں ان کے پیش رو تامل ناڈ کے انمبومنی رام داس نے مرکزی حکومت سے صحافیوں کو بہم صحت کی سہولیات ختم کر دی تھیں۔ ایکریڈیٹڈ صحافیوں کی انجمن پریس ایسوسی ایشن نے جب آزادسے اسکو بحال کرنے کی درخواست کی، تو انہوں نے ایسوسی ایشن کے ذمہ داروں کو بلایا۔ میں ان دنوں ایسوسی ایشن کا نائب صدر تھا۔ انہوں نے مقررہ وقت پر اپنے سیکرٹری کے علاوہ وزارت کے سیکرٹری اور سینٹرل گورنمنٹ ہیلتھ سروس کے جوائینٹ سیکرٹری کو تمام فائلوں کے ساتھ حاضر ہونے کا حکم دے دیا تھا۔ تاکہ باالمشافہ اس کا حل نکالا جائے۔ افسران بضد تھے کہ یہ سروس صرف مرکزی حکومت کے حاضر سروس اور ریٹائرڈ اہلکاروں کیلئے ہے اور صحافیوں کو چونکہ جوائنٹ سیکرٹری درجہ کی سہولیات دی گئی تھیں، اس سے اس سروس پر بوجھ پڑتا ہے۔ فائلوں پر کئی نوٹ لکھے گئے تھے۔ ہم نے جب پوچھا کہ پچھلے کئی برسوں کا ڈیٹا نکالا جائے کہ کتنا بوجھ صحافیوں کی وجہ سے اس سروس پر پڑا ہے، آزاد نے اس گفتگو اور بحث کو ختم کرتے ہوئے ، افسران کو بتایا کہ ’’ہم ایک جمہوری ملک میں رہتے ہیں اور جمہوریت کی ایک قیمت ہوتی ہے۔ پریس اس جمہوریت کا ایک اہم ستون ہے۔ (جاری ہے)بشکریہ 92 نیوز

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply