تطفیف ۔۔ مختار پارس

لطف و کرم کی بساط سَجی ہے۔ کیسی ہار اور کیسی جیت ! میں خالی ہاتھ رخصت لے لوں یا گٹھڑی اٹھا کر سر پر رکھ لوں، جانا اسی کے پاس ہے۔ ہار گیا تو بھی اسکا اور جیت گیا تو بھی اسکا۔ تہی دست سوال کرے تو عالمِ غیب میں سازشیں ہوتی ہیں کہ اس دکھ کے مداوا کرنے کا اختیار کسے تفویض کیا جاۓ۔ کسی کی کیا مجال کہ کوئی کسی کے ہاتھ پر کچھ رکھ دے۔ یہ اختیارِ ذات کی عطا ہے جو دینے پر مائل کرتی ہے، یہ جبرِ وقت کی خطا ہے جو حاصل کو خود سے دور نہیں ہونے دیتی۔

التفات کے لبریز پیمانوں میں تخفیف ہو سکتی ہے۔ ٹکٹکی باندھ کر حسنِ بیتاب کو دیکھتے رہنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ جس نے آنکھ جھپکی وہ اس منظر سے نکل گیا جس میں کبھی وہ خود موجود تھا۔ محبت کرچیاں ہو جاۓ تو پھر وہ محبت نہیں رہتی۔ موجود ہر جگہ موجود ہے مگر یہ کہیں رہنے نہیں دیتا۔ نہ خلدِ بریں میں قرار نصیب ہوا اور نہ بَر خاکِ نم قیام مل سکا۔ زیرِ زمیں تو تزلزل ہی الگ ہے۔ جس کا سکوت سفر میں ہے صرف وہی دودھ کے پیالے میں گلاب بن سکتا ہے۔

احسان کا محبت سے کوئی تعلق نہیں، لیکن نفرت کا احسان سے کوئی سلسلہ ضرور ہے۔ کسی کے سر پر دستِ شفقت رکھتے وقت آنکھیں بند رہیں تو بہتر ہے کہ کسی کو کچھ یاد نہ رہے۔ احسان مند بھی اس نیکی کو بھلا ڈالے تو اچھا ہے ورنہ وہ بوجھ اسے سر اٹھانے نہیں دیتا۔ خود پرستی کی کوکھ سے خود غرضی جنم لینے میں زیادہ دیر نہیں لگاتی۔ قد بڑا ہو جاۓ تو آنکھیں نہیں دیکھتیں کہ کس کا گریبان ہاتھ میں ہے۔ جس کے سر پر ہاتھ رکھ دیا جاۓ، اس کے قد بڑے ہونے سے پہلے، اس کے سایے سے بھی دور رہا جاۓ تو بہتر ہے۔ آسمان کس قدر مہربان ہے۔ اس کی نیلاہٹ میں سکھ کی پُروا چلتی ہے۔ مت سمجھو کہ سارے بادل اجلے اور چمکیلے ہیں۔آسمان کا سایہ تو ہوتا نہیں۔ تم اس سے کتنا دور رہ سکتے ہو۔ آسمان نامہربان بھی ہو سکتا ہے۔ وہ اپنی آنکھیں تم پر بند بھی کر سکتا ہے۔ اسے معلوم ہے کہ تم نادانی کر سکتے ہو اور خدا سے بھی الجھ سکتے ہو۔ تم اس سے یہ بھی استفسار کر سکتے ہو کہ اس نے تمہیں باعثِ تدبیر کیوں کیا۔ مگر تم اس سے یہ نہیں پوچھ سکتے انسان نے خود تدبر کا استعمال کیوں نہیں کیا۔

خدا کی ایک بات واضح ہے کہ وہ توہین نہیں کرتا۔ سخنِ طرب انسان کی آنکھ میں سما جاۓ تو ولیِ حق بن جاتا ہے۔ طرزِ تکلم پر گرفت مضبوط نہ ہو تو حسنِ کامل بھی نظرانداز ہو جاتا ہے۔ دل تک پہنچنے کا راستہ مسکراہٹ کی نشیب سے ہو کر جاتا ہے۔ احساس انسان کو راستے سے بھٹکنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں ہونے دیتا۔ اپنی عزت کا پاسبان ہی دوسرے شخص کی تعظیم کر سکتا ہے۔ کسی نیک صفت پر تلوار سونت لی جاۓ تو پھر کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ انسان کے پاس اتنا وقت نہیں ہوتا کہ وہ توہین کے ارتکاب کو اپنی نیک نامی سے نیا نام دے سکے۔ نیکی ناروائی برداشت کر سکتی ہے مگر توہین نہیں۔ صاحبِ فہم و فراست سے مشقت نہیں لی جا سکتی۔ اسکا کام صرف یہ سوچنا ہے کہ ریاضت کو دکھ میں بدلنے سے کیسے روکا جا سکتا ہے۔

ہر شخص زندگی میں جو پاتا ہے، وہی نبھاتا ہے۔ کسی کے حصے میں صرف تلاش آئی اور کوئی منزل پر بکھر گیا۔ کوئی حسن کے تخت پر بیٹھ کر مرکزِ نگاہ و فریب ٹھہرا اور کسی کے نصیب میں ہر فریب کو سمجھ کر راز و نیاز کا سبق لکھ دیا گیا۔ حیاتِ آدم صرف جستجو ہرگز نہیں کہ مقامِ آدمیت منزل سے بھی ماورا ہے۔ یہ مختصر سی زندگی ہزار داستان ہے جو کہیں ختم ہی نہیں ہوتی۔ حسن کو نصیب سمجھنے والے فریب سمجھنے سے قاصر رہنے پر مصر رہتے ہیں اور فریب میں گرفتار سمجھتے ہیں کہ تخت و تاج و جاہ و حشم جستجو کی سرحدوں سے کبھی باہر نہیں نکل سکے گا۔ نہ حسن کبھی منزل بن سکا اور نہ نصیب کسی کی گرفت میں آ سکا۔ خدا کی تلاش اقصیٰ کے میناروں پر کی گئی مگر وہ کہیں اور ہویدا ہوا۔ کوہِ طور پر چڑھ کر نقاب الٹنے کی خواہش نے پہاڑ کو سرمگیں کر ڈالا اور شمعِ مراد آسمانوں سے طعام اترنے کے باوجود بھی روشن نہ رہ سکی۔ حسنِ نایاب پر نظر اس وقت ٹھہرتی ہے جب بات سمجھ آتی ہے۔ سمجھ بوجھ کے بت تراشنے میں وقت تمام ہو جاتا ہے اور پھر ایک ہی لحظے میں سب فراموش ہو جاتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

سورج اور چاند کے درمیان گھومتے سیاروں کے مقدر میں گردشِ دوراں کا ایک شائبہ ہے اور بس۔ یہ مقامِ اور قیام انسان کا ہے ہی نہیں تو پھر اس کو یہاں کیا ملے اور کیونکر۔ نہ خاک اسکی اور نہ خلد؛ اسے تو بس ابتدا اور انتہا کی گواہی دینا ہے۔ گواہوں کے استحقاق کم اور ذمہ داریاں زیادہ ہوتی ہیں۔ محبوب خوبصورت ہو تو امکانِ محبت کم ہی رہتا ہے۔ جرم و جفا کی ذمہ داریاں نبھانے کے بعد وصل کی گھڑیاں گنتے رہنا آزمائیش تو ہے مگر یہ فرمائیش نہیں بن سکتی۔ محبت مانگ کر کبھی نہیں لی جاتی۔۔۔ خدا سے بھی نہیں۔ خدا کی محبت میں انسانوں کا قتل کبھی سرخرو نہیں کر سکتا۔ حسد و عناد کی روایت نے تطفیفِ عدل کو رواج دے ڈالا ہے۔ نفرت کی آگ آنکھوں میں بھڑکا کر ہم پلِ صراط پر کیسے چل سکیں گے۔ جو پیمانے ہم اپنی آنکھوں سے لبریز کرتے ہیں، ان میں تخفیف کیسے ممکن ہے۔

Facebook Comments

مختار پارس
مقرر، محقق اور مصنف، مختار پارس کا تعلق صوفیاء کی سر زمین ملتان سے ھے۔ ایک عرصہ تک انگریزی ادب کے استاد رھے۔ چند سال پاکستان ٹیلی ویژن پر ایک کرنٹ افیئرز کے پروگرام کی میزبانی بھی کی ۔ اردو ادب میں انشائیہ نگار کی حیثیت سے متعارف ھوئے ۔ان کی دو کتابیں 'مختار نامہ' اور 'زمین زاد کی واپسی' شائع ہو چکی ھیں۔ ادب میں ان کو ڈاکٹر وزیر آغا، مختار مسعود اور اشفاق احمد جیسی شخصیات سے سیکھنے کا موقع ملا۔ ٹوئٹر پر ان سے ملاقات MukhtarParas@ پر ھو سکتی ھے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply