• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • رشتوں کا احترم، آپسی حقوق اور بھائی چارگی کافروغ ۔ کیسے؟۔۔ اسانغنی مشتاق رفیقیؔ

رشتوں کا احترم، آپسی حقوق اور بھائی چارگی کافروغ ۔ کیسے؟۔۔ اسانغنی مشتاق رفیقیؔ

کائنات میں انسان ہی ایک ایسی واحد مخلوق ہے جو اپنی پیدائش سے کر موت تک اپنے ہی جیسے دوسرے انسانوں کی محتاج رہتی  ہے۔ قدرت نے اس کی بناوٹ ہی اس انداز میں کی ہے  کہ   اسے قدم قدم پر سہارے کی ضرورت پڑتی ہے۔ بچپن سے جوانی تک اور جوانی سے بڑھاپے تک، ماں باپ، بھائی بہن، دور اور نزدیک کے رشتہ دار، شوہر بیوی، اولاد اور دوست   احباب کے بغیر کسی بھی انسان کی کہانی مکمل نہیں ہوتی۔ ایک پُر امن اور عادل معاشرے کی تشکیل کے لئے آپسی رشتے کا احترام، ایک دوسرے کے حقوق کی حفاظت، دکھ درد ہو یا شادمانی کے مواقع بھائی چارگی کا اظہار، بے حد ضروری ہے۔ اگر کسی معاشرے اور سماج میں اس کے برعکس ہوتا ہوا نظر آئے تو سمجھ لیں کہ وہ معاشرہ تیزی سے  تنزل کی طرف بڑھ رہا ہے اور اس کی تباہی کے دن قریب ہیں۔

موجودہ زمانے میں سائنسی ترقی نے بظاہر ہمیں کئی انسانی سہاروں سے بے نیاز کردیا ہے،جس کی وجہ سے رشتوں کے احترام میں نمایاں فرق پیدا ہو گیا ہے۔ مادہ پرستی اور ایک پُر تعیش زندگی کی جستجو جو ایک وبا کی طرح ہم میں پھیل چکی ہے، اس کی وجہ سے بھی آپسی حقوق کی حفاظت کرنے کارجحان اور بھائی چارگی کا اظہار ہم میں ختم ہوتا جارہا ہے۔ اس کے نتیجے میں جہاں ایک طرف ہمارا سماج انتشار کا شکار ہورہا ہے دوسری طرف رشتوں میں نفرت، حسد اور لالچ کے پیدا ہوجانے سے سماجی اور معاشرتی جرائم کا ایک سیلاب ہم میں داخل ہوچکا ہے۔

ماں باپ کے تئیں اولاد کے رویے میں اب وہ عقیدت و محبت نہ رہی جو ماضی میں باعث افتخار سمجھی جاتی تھی۔ انہیں آجکل ایک بوجھ سمجھا جانے لگا ہے، اسی طرح اولاد سے بیزاری اور ان کی  تربیت سے غفلت،اب ایک عام سی بات ہے۔ بہنوں اور بھائیوں میں بھی ایک دوسرے کے ساتھ محبت اور ہمدردی کا فقدان ہے۔ برسوں گزر جاتے ہیں آپس میں ملاقاتیں نہیں ہوتیں ۔ اگر دولت اور عہدے کی دیوار کھڑی ہوجائے تو یوں سمجھیے رشتہ ہی ختم ہوگیا، سرِ راہ کبھی نظریں ٹکرابھی گئیں تو اجنبی کی طرح ایک دوسرے کے پاس  سے گزر جائیں گے۔ دور اور نزدیک کے رشتہ داروں کا تصور ہی ختم ہوتا جارہا ہے۔ دو تین نسلوں کے بعد پتہ ہی نہیں چلتا کہ ہم سب ایک ہی جدّ سے ہیں اور اتنی اجنبیت آجاتی ہے کہ ایک دوسرے کے احوال سے کیا واقف ہوتے بلکہ ناموں تک کا پتہ نہیں ہوتا۔

رشتوں میں سب سے نازک رشتہ شوہر اور بیوی کا ہوتا ہے۔ اس کاتو کہنا ہی کیا۔ شادی کے دوسرے تیسرے دن سے ہی تو تو میں میں شروع ہوجاتی ہے،جس کا انجام اگر کوئی ایک سمجھدار نہ ہو تو بد ترین عداوت اور ایک طویل قانونی اور غیر قانونی جنگ کی شکل میں سامنے آتا ہے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں کو اتنا بڑا کیا جاتا ہے کہ خاندان کے خاندان برباد ہوجاتے ہیں۔ کبھی جہیز کے نام پر چال وچلن کے نام پر   شکل و صورت کے نام پر عادت و اطوار کے نام پر بیویوں کو اتنا پریشان کیا جاتا ہے کہ ان کی زندگی جہنم بن جاتی ہے اور کبھی کمائی کا طعنہ دے کر بات بات پر شک کر کے رشتہ داروں سے سلوک کو لے کر رہن سہن کی  عادات پر طنز کر کے شوہروں کا جینا دوبھر کردیا جاتا ہے۔

یہ تمام برائیاں کسی ایک طبقے تک محدود نہیں ہیں۔ عالم سے لے کرجاہل تک، دانشور سے لے کر عامی تک سبھی اس میں ملوث ہیں۔ یہ ہمارے سماج اور معاشرے میں پھیلی ہوئی گھر گھر کی کہانی ہے۔ اس کا سدھار کیسے ہو۔ لوگوں میں رشتوں کا احترام  پھر سے کیسے پیدا کیا جائے۔ سماج میں آپسی بھائی چارگی کا فروغ ہو اس کے لئے لائحہ عمل کیا ہے! سچ پوچھیں تو موجودہ دور کے در پیش چیلنجوں میں در حقیقت یہی سب سے بڑا چیلنج ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مذہبیوں کے نزدیک مذہب سے دوری اس کا کارن ہے تو سماجی مصلحوں اور دانشوروں کے نزدیک مسابقت کی دوڑ، اور سرمایہ پرستی کا بڑھتا رجحان اس کی وجہ۔ اسلام جو ایک فطری دین ہے اگر اس کی روشنی میں اس وبا کے لئے ویکسین ڈھونڈا جائے تو وہ صاف صاف لفظوں میں واضح کرتا ہے کہ معاشرے سے اس بیماری کو ختم کرنے واحد حل تقویٰ ہے۔ تقویٰ یعنی خدا کا ڈر، خدا کے آگے جوابدہی کا ڈر، جب تک سماج کے ہر فرد میں خالق کے آگے جوابدہی کا احساس بیدار نہیں ہوگا چاہے لاکھ قوانین وضع کرلیں، سزا کا خوف دلائیں، اس بیماری پر قابو نہیں پایا جاسکتا۔ تقویٰ ہی ایک ایسی واحدسوچ اور فکرہے جو انسان کو زندگی کے ہر موڑ پر، عیش و عشرت کے سر سبز و شاداب وادیوں میں ہو یا رنج و الم کے تپتے ہوئے صحراؤں میں، سونے چاندی کے ظروف میں مرغ وماہی سے شکم سیر ہوتے ہوئے ہو یا مٹی کے پلیٹوں سے سوکھی روٹی توڑتے ہوئے، خلوتوں میں جلوتوں میں، رشتوں کا احترم، ایک دوسرے کے حقوق کی حفاظت اور آپسی بھائی چارگی پر ثابت قدم رکھ سکتی ہے۔ تقویٰ ہی وہ صراط مستقیم ہے جس پر چل کر ہم اپنے معاشرے اور سماج کو محبت، امن اور عدل کا گہوارا بنا سکتے ہیں۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ پھر سے انسانیت کے لئے ایک نمونہ بنے، ہمارے خاندان اور گھرانے میں سکون و اطمینان قلب کا دور دورا ہو تو ہمیں ہر حال میں تقویٰ اختیار کرنا ہوگا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply