عرفی تو میندیش زغوغائے رقیباں۔۔نجم ولی خان

مجھے جناب عطاء الحق قاسمی سے کچھ کہنا ہے،جی ہاں، وہ عطاء الحق قاسمی جو اس پائے کے شاعر ہیں کہ ان کے شعر ضرب المثل بنتے چلے جا رہے ہیں، وہ عطاء الحق قاسمی جنہوں نے نثر نگاری میں اپنا مقام ان سے بھی منوایا ہے جو میں نہ مانوں کی تفسیر بنے رہتے ہیں اور رہ گئی ان کی کالم نگاری، وہ ہم جیسے لکھنے کی کوشش میں ہلکان ہونے والوں کے لئے روحانی استاد ہیں ، ان کے فقروں کی روانی اور خوبصورتی نے کالم نگاری کی تاریخ میں نئے ابواب کا اضافہ کیا ہے، یہ عطاء الحق قاسمی جو پاکستان ٹیلی ویژن کے چئیرمین کے عہدے سے استعفٰی  دے چکے ہیں مگر کیا یہ امر دلچسپ نہیں ہے کہ وہ اپنا عہدہ چھوڑنے کے باوجود اتنے ہی بڑے عطاء الحق قاسمی ہیں جتنے وہ عہدہ رکھتے ہوئے تھے بلکہ ہم جیسے نظریاتی لوگوں کے پاس جو ترازو ہے اس میں توعہدوں کا کوئی وزن نہیں ہوتا، اس ترازو میں وزن انسان کی شخصیت کا ہوتا ہے، اقدار کا ہوتا ہے، صلاحیتوں کا ہوتا ہے۔

مجھے عطاء الحق قاسمی سے کہنا ہے کہ ان کے استعفے کے بعد ان کے بارے جو بدکلامی کی جارہی ہے وہ آپ کی نہیں بلکہ بدکلامی کرنے والوں کی اصلیت ظاہر کر رہی ہے، یہ وہ لوگ ہیں جن کے بارے کہا جاتا ہے کہ کچھ بولیے تاکہ آپ کی قابلیت  کے بارے پتا چلے،افسوس، وہ بولتے ہیں اور اخلاقیات کا جنازہ نکال دیتے ہیں۔ یہ امر حقیقت ہے کہ یہ ناکام رہے ہیں، نامراد رہے ہیں۔ مجھے وہ دن بھی یاد ہیں جب ایک شخص نے ان کے نام کے ساتھ ایک جعلی سرکاری خط اپنی ویب سائیٹ کے ذریعے میڈیا میں پھیلا دیا تھا کہ آپ نے بہت سارے معتبر ناموں میں لاکھوں روپے تقسیم کر دیے ہیں، بہت ساروں نے اس پر بہت ساری باتیں کی تھیں اور پھر ان کی زبانوں کو تالے لگ گئے جب ان کا پیچھا قانون کی عدالت میں ہوا اور وہ وہاں سے بھاگ نکلے، مجھے آج کا بے بنیاد پروپیگنڈہ بھی اسی کا تسلسل لگتا ہے۔

مجھے اس وقت افسوس ہوتا ہے جب قاسمی صاحب پر تنقید ان کی طرف سے ہوتی ہے جو سوشل میڈیا پر اپنی بیٹیوں کی عمر کی طالب علم بچیوں کے ساتھ اپنی تصاویرڈھٹائی اور بے حیائی کے ساتھ شئیر کرتے ہیں اور وہ بھی جن کی تصویروں میں بیرون ملک ساحل سمندر پر نیم عریاں عورتیں موجود ہوتی ہیں، ان میں ایک صاحب وہ بھی شامل ہیں جو ان پر الزام تراشی میں پارٹنر تھے اور جب ان کو   ایکسپوز کیا گیا تو انہوں نے ایکسپوز کرنے پرخواجہ سرا لکھا، نجانے انہیں کس نے اس امر کی شکایت کی تھی۔ یہ وہ قبیلہ ہے جس کے بارے میں خواجہ آصف نے کہا تھا کہ کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیا ہوتی ہے۔

میں نے حالیہ مہم کے بعد گل نوخیز اختر جیسے بڑے صاحب قلم کو آپ کے ساتھ ا ظہار یکجہتی کرتے اور آپ کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے دیکھا، اس نے کہا کہ آپ کی وجہ سے اسے نقصان ہوا کہ اسے پی ٹی وی کے لئے اپنا معاوضہ کم کرنا پڑا۔میں نے آپ کے استعفٰی  دیے جانے کے بعد آپ کے پروگرام پروڈیوسر عمر خان کو آپ کے اخلاق ، کردار اور مقام کی گواہی دیتے ہوئے دیکھا، میں آپ سے تعلق کا دعوے دار نہیں کہ آپ علم اور عمر دونوں میں ہی میرے لئے کوہ ہمالیہ کی طرح ہیں مگر مجھے یہاں اس آگ پر اپنی چونچ سے چند قطر ے پانی ضرور ڈالنا ہے جو بدخواہوں کی طرف سے بھڑکائی جار ہی ہے۔میرے خیال میں تو آپ کے سیاسی نظریات سے اختلاف رکھنے والوں کو بھی آپ کو سراہنا چاہیے  کہ آپ محبت، استقامت اور وفاداری کا استعارہ ہیں، آپ نے میاں نواز شریف کے ساتھ دوستی نبھا کے دکھائی ہے اور یہ وہ خوبی ہے جو آج کے کرداروں میں عنقا ہوتی چلی جا رہی ہے۔

یہ آپ کا پہلا استعفیٰ نہیں ہے، آپ اس سے پہلے سفارت سے بھی مستعفی ہو چکے ہیں حالانکہ آپ کو پیش کش کی گئی تھی کہ اگر آپ خاموش رہیں تو آپ اپنے عہدے پر برقرار رہ سکتے ہیں مگر آپ نے اپنے نظریات ، ضمیر اور اصولوں کی کوئی قیمت وصول نہیں کی۔ یہ بات درست ہے کہ اٹھائیس جولائی کو جب میاں محمد نواز شریف کو وزارت عظمیٰ سے ہٹایا گیا اور ان کی کابینہ تحلیل ہو گئی تو اس روز ریاستی ادارے پی ٹی وی کی پالیسی عجیب وغریب ہو گئی تھی جس کے بارے میں تحقیقات از حد ضروری ہیں۔یہ امر بھی درست ہے کہ آپ نے پی ٹی وی کے ویران اسٹوڈیوز کو آباد کیا، کسی زمانے میں پی ٹی وی کی پروڈکشنز کی دھوم ہوا کرتی تھی اور آپ اسی دور کو واپس لانا چاہتے تھے مگر یہ حکومتی اور سیاسی معاملات کچھ عجیب و غریب ہوتے ہیں، یہاں غلط فہمیاں بانس کے وہ پودے ہوتی ہیں جو دیکھتے ہی دیکھتے بندوں سے بھی بڑی ہوجاتی ہیں۔

کسی نے کہا تھا کہ غلط فہمیاں ناخنوں کی طرح ہوتی ہیں اور جب ناخن بڑھ جائیں تو انہیں کاٹا جاتا ہے، انگلیوں کو نہیں مگر آپ کے استعفے کی صورت میں انگلیاں کٹ رہی ہیں۔ بھلاوہ ہاتھ کب کام کے رہتے ہیں جن کی انگلیاں ہی کاٹ دی گئی ہوں۔ میں ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ جہاں بہت سارے بدخواہ ہیں وہاں ڈھیروں خٰیرخواہ بھی ہیں، وہ معاملات کو بہتر بنانے کے لئے اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ میں میا ں نواز شریف کو بھی جس حد تک جانتا ہوں وہ ساتھ نبھانے او رمحبتوں کا صلہ دینے والے مشہور ہیں۔ کچھ لوگ فکری مغالطے پیدا کرتے ہیں کہ جب آپ آئین، جمہوریت اور عوامی حاکمیت کی لڑائی میں صف اول میں کھڑے ہوں اور جب آئین کے تحت جمہوری، نظریاتی حکومت قائم ہوجائے تو آپ کو اسے مضبوط کرنے کی بجائے اپنی جدوجہد کی چادر جھاڑتے ہوئے اس قافلے سے الگ ہوجائیں حالانکہ اس کے مقابلے میں دنیا بھر میں باصلاحیت اوربااصول لوگ حکومتوں میں اپنے نظریات اور اصولوں کی بالادستی کے لئے کردارادا کرتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

تنقید دنیا کا آسان ترین کام ہے جبکہ معاملات کو حقیقی طو رپر درست کرنا اتنا ہی مشکل ہے۔ ہم نے صحافت کو محض تنقید کا ایک آلہ بنا رکھا ہے جبکہ صحافت اس سے بہت آگے اور بہت بہتر کردارادا کر سکتی ہے۔ آپ نے اپنا کردار ادا کیا اور بہت خوب ادا کیا، مجھے خاص طور پر آپ کے حوالے سے وہ بات کہنی ہے جو اس وقت تعصب سے پاک ہر شخص کہہ رہا ہے کہ آپ کو کسی بھی عہدے سے نہیں بلکہ پی ٹی وی کے چئیرمین کے عہدے کو آپ کی وجہ سے عزت اور مقام ملا۔ ہمارے معاشرے کے بعض غیر ذمہ دار عناصر کی وجہ سے الزامات اور بدگوئی روایت بن گئے ہیں،یہ معاشرے تو نبیوں اور اولیاء تک کو معاف نہیں کرتے رہے تو اس میں ایک شاعر اور ادیب کی اہمیت کو کون سمجھے گا۔عرفی نے کہا تھا، ’ عرفی تو میندیش زغوغائے رقیباں، آواز سگاں کم نہ کند رزق گدارا‘، میری نظر میں رزق محض مال و دولت کا نام نہیں، یہ لوگوں سے ملنے والی محبت اور عزت کا نام بھی ہے، یہ اولاد کی صورت میں بھی ہے،زندگی، صحت اور معاشرے میں ایک منفرد اور اہم مقام کی صورت میں بھی، عطاء الحق قاسمی کے پاس اس رزق کی کوئی کمی نہیں ہے بلکہ وہ تو ا س رزق کو محبت اور عزت کی صورت دوسروں میں بانٹتا پھرتا ہے۔ بھلا کتوں کے بھونکنے سے کبھی قافلے رکا کرتے ہیں،من و سلویٰ اترنے کے فیصلے تو آسمانوں پر ہوتے ہیں۔

Facebook Comments

نجم ولی خان
ڈائریکٹر جنرل پاکستان ریلوے،کالمسٹ،اینکر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply