• صفحہ اول
  • /
  • ادب نامہ
  • /
  • ڈاکٹر وزیر آغا (مرحوم)کے میرے نام منتخب خطوط(1)۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

ڈاکٹر وزیر آغا (مرحوم)کے میرے نام منتخب خطوط(1)۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

اپنے سینئر دوست مرحوم و مغفور وزیر آغا سے تیس برسوں میں موصول ہوئے ایک سو کے لگ بھگ ​خطوط کی لڑی۔ (ایک)

آپ نے تحریر کیا ہے کہ آپ الفاظ کو’’ سوچتے‘‘ نہیں ، ’’دیکھتے‘‘ ہیں۔’’دیکھنا‘‘، شاعر کے لیے شاید اس کی تیسری آنکھ کا عمل ہے جو ہر کسی کے پاس نہیں ہوتی۔ ہر کسی کے پاس ہی کیا، بڑے بڑے شاعروں کے پاس بھی نہیں ہوتی۔ ۔آپ نے غالب کے ایک شعر کی مثال دی ہے۔

میں چمن میں کیا گیا گویا دبستاں کھل گیا

بلبلیں سن کر مرے نالے غزلخواں ہو گئیں‘‘؎

آپ لکھتے ہیں کہ یہ بات یقینی ہے کہ غالب نے اس منظر نامےکو صرف ’’سوچا‘‘ ہے، ’’دیکھا ‘‘ نہیں ہے۔ چمن ، دبستاں، بلبلیں، تو اسمائے موسوم ہیں اور ہر کسی کو ذہن میں نظر آ سکتے ہیں، لیکن نالہ استعارہ ہے یا علامت ہے۔ غالب نے ان کو صرف ’’سوچا‘‘ ہے، ’’دیکھا‘‘ نہیں ہے، یعنی اس منظر نامہ کا تصور بھی نہیں کیا کہ
(۱) غالب اونچی آواز میں روتے روتے چمن میں جا رہے ہیں
(۲) وہاں ان کو اس حالت میں دیکھ کر گویا رونے اور گانے کا ایک دبستاں (اسکول، مدرسہ، مکتب) ہی کھل گیا ہو
(۳) کہ ان کی دیکھا دیکھی بلبلیں بھی ’’غزلخواں‘‘ ہو گئیں۔ یعنی گریہ زاری میں شامل ہو گئیں۔

آپ پوچھتے ہیں : کیا یہ منظر نامہ یہ ثابت نہیں کرتا کہ اس شعر میں اور اس جیسے دیگر اشعار میں شاعر کے ہاں ’’سوچ‘‘ ہی سوچ ہے ، یعنی خیال کو ایک تصویر کی صورت میں دیکھنے کا فن نہیں ہے۔ یہ شعر لکھتے ہوئے تصویر کی ان کے ذہن میں بجنسہ ایسے آئی جیسے میں نے تحریرکیا ہے ۔‘‘( یہ تین جزو اوریہ الفاظ آپ کے ہی ہیں)

اقتباس (تین)میں نے بہت پہلے آپ کے بارے میں لکھا تھا کہ آپ لا صورت الفاظ کے معانی کو تصویریت سے اجاگر کرتے ہیں۔ یہ وہ تصویریں ہیں جو آپ کے ذہن میں ہی کیا، آپ کے قارئین کے لاشعور میں نسلوں سے موجود ہیں ۔ اس طرح آپ کی نظموں میں تصویریت کے میڈیم سے ’لا شکل‘ کو ’شکل‘ میں بدلنے کا فن جاری و ساری رہتا ہے۔ یہاں تک کہ اظہاریہ کی شکل و صورت بھی آپ کے ہاں مصور کے موئے قلم سے بنائی ہوئی لگتی ہیں، قلم سے لکھی ہوئی نہیں۔

اگر آپ برا نہ مانیں، تو ایک بات لکھ ہی دوں۔

جو نظمیں آپ نے اپنے آبائی گاؤں سے ہجرت کے تناظر میں لکھی تھیں، وہ بیسویں صدی کی ساٹھ یا ستر کی دہائی میں تھیں۔ تب تک فلسفیانہ رنگ و روغن سے نظموں کی پچی کاری آپ کے ہاں نہ ہونے کے برابر تھی۔اس کے بعد، یکا یک تو نہیں ، کبھی تیزی سے، اورکبھی رک رک کر، آپ کی شاعری میں یہ تصویری پہلو کم ہوتا چلا گیا اور فلسفیانہ گیان دھیان بڑھتا چلا گیا۔یا یوں کہیں کہ لفظوں میں تصویر سازی کا عنصر کم تو ہوا، لیکن بالکل عنقا نہیں ہوا۔ مثال کے طور پر آپ کی بدھ مذہب کے بارے میں تحریر کردہ نظموں میں مہاتما بدھ جب بھی ویاکھیان دیتےہیں یا آپ کے ہمنام بھکشو آنندؔ کے سوالوں کا جواب دیتے ہیں، وہ تصویر سازی کرتے ہیں۔

آپ ہجرت پر لکھی ہوئی اپنی چھ  سات نظموں کو ایک بار پھر پڑھیں تو آپ پر یہ سچائی عیاں ہو گی کہ تیس چالیس برس کی عمر میں لا شکل کو شکل میں بدلنے کا فن آپ کی نظموں کی نہج بھی تھا اور طور و طریق بھی ۔اب یہ آہستہ آہستہ ڈھیلا ہوتا جا رہا ہے۔ اسے گم مت ہونے دیں، رن آن لائنز کے علاوہ یہی تو دین ہے آپکی اردو نظم کو اور اگر کسی کو اس سے انکار ہے تو وہ جھوٹا ہے۔

دراصل صنف نظم کے ساتھ بھی وہی حادثہ ہوا ہے جو غزل کے ساتھ ہوا تھا، یعنی لگے بندھے تیس چالیس استعارے، کچھ غزل کی فرسودہ روایت سے مستعار لیے ہوئے اور کچھ فیض اسکول (فیض اور فراز) سے نقل کیے ہوئے ہمارے ہاتھ لگے اور ہم انہی پر قادر و شاکر بن کر بیٹھ رہے۔ ’’لا شکل‘‘ کو ــ’’شکل‘‘ میں بدلنے کے لیے پہلے شکل کو اپنے ذہن میں واضح کرنا پڑتا ہے۔ اپنا “نک سک” وہیں درست کرنے کے بعد وہ پری کاغذ پر اترتی ہے۔ مجھے اجازت دیں کہ میں اپنی ایک پنجابی نظم یہاں لکھوں جو آپ کی نظر سے نہیں گذری ہو گی۔ اس میں ہوا کا ایک ’’ورُولا‘‘(گرد و غبار اُڑاتا ہوا ، گول گھومتا ہوا جھکّڑ)کی تصویر الفاظ میں اتاری گئی ہے۔اب آپ دیکھیں کہ ـتصور اور تصویر کے امتزاج کیا گل کھلاتا ہے۔ اس میں دونوں موجود ہیں۔

(ا) تصویر بجنسہ ہی آنکھوں سے دیکھ کر دماغ کی دیوار پر آویزاں کی جا سکتی ہے
(۲) تصور کو تصویر میں ڈھالنے کے لیے بھی کسی تردد کی ضرورت نہیں ہے۔ اپنے آپ ڈھل جائےگا

وا ورُولا
وا دا اک کھڈکار ورُولا
پانڑی اُتے ناچ وکھاوندا
امبے دے اک بگ طِچالے جا وڑیا

باگے دے وِچ
امباں ہیٹھیں
مخمل ورگی گھا وِچھّی سی
گھاہ نوں وچھائونا جان کے اوس نے
نیندر دی اک چّدر تانی
خواباں دی بیڑے وِچ بیٹھا
چھّلاں تے اسوار ہویا
فیر کِنے پتّن پار ہویا
فیر تکدیاں تکدیاں
چمکاں دی کھڑکار ہوئی
اوہ اکھّاں ملدا اُٹھ بیٹھا
فیر چانن دی لِشکار ہوئی
اوس اپنا آپ وِسار لیا

فیر کجھ نہ پُچھّو، کیہہ ہویا

اوہ گھُُمر پاؤندا
جنگل بیلے
بڈھاں نالے
راٹاں روڑے
رسماں ریتاں، تانے بانے
سب نوں گھُمّر گھیر بناؤندا

کن پڑواندا
خود نوں لیراں لیراں کردا
خورے کس ٹِبّے جا چڑھیا

ویکھو، لوکو
اج وی اس ٹِبّے دے اُتّے
دیوا گھُمر پاؤندا اے
کدے بلدا ایے، کدے بُجھدا اے
کدے بُلھاں جندرے لائوندا اے
کدے پھڑ پھڑ کردا جاندا اے
—————

وہ دیا جو آج بھی اس ٹیلے پر ہمیشہ جلتا رہتا ہے، اس ’وا ورُولے‘ کی یاد میں ہے، وہ آوارہ جھکڑ جو ایک عاشق ِ صادق تھا اور جس نے کان پھڑوا لیےتھے۔ (معاف کریں، آنند صاحب، آپ کے لیے یہ لکھنا ضروری نہیں تھا!)
—————————————————————————————————————————
غیر پنجابی احباب کے لیے صرف ایک اشارہ۔۔۔۔”وا ورولا” کا مطلب ہے، زفر، زناٹا، بگولا، باد کش

کتب کا مسودہ زیر ترتیب ہے، لیکن اس سے پیشتر میں ان خطوط کو احباب تک پہنچانا چاہتا ہوں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

نوٹ۔ اپنے عزیز دوست احمد رضواں صاحب کا شکریہ جنہوں نے عرق ریزی سے کام کر کے ان خطوط کو مرتب کیا۔

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply