استحصالی کے بےشمار باب

استحصالی کے بےشمار باب
جب سے ہوش سنبهالا ایک ہی صورتحال کو مسلسل دیکها بهگتا بهی اور بهگتایا بهی۔ہمیشہ سے عورتوں کو حقوق کیلئے لڑتے دیکها اور مردوں کو اس لڑائی سے بهی سڑتے دیکها۔ ترقی پذیر ممالک جہاں ہر قسم کی سماجی اور معاشرتی اقدار استحصال پذیر ہی نظر آئیں تو خواتین کی زبوں حالی صف_اول پر نظر آئی۔ گهریلو ناچاتیوں، زیادتیوں، مار کٹائی سے لیکر پیشہ ورانہ زندگی میں بهی انهیں مسائل کا سامنا رہا۔ جو گهروں سے مجبور ہوکر نکلیں تو باہر نکل کر اور مجبور اور بے بس نظر آئیں۔جو گهر سے تهپڑ کها کے نکلیں باہر بهی کسی نے ان پر ترس نہیں کهایا طیبہ کی مثال سب کے سامنے ہے کتنی چهوٹی سی عمر میں ماں باپ نے لاکر غیروں کے گهر پهینک دیا کیا بیٹیاں لوگوں کے گهر پهینکنے کیلئے پیدا کی جاتی ہیں نام نہاد غیرت سے ہی شروع کرلیتے ہیں تو کس باپ کی غیرت گوارا کرتی ہے کہ اپنی سات سالہ بچی کو لوگوں کے گهر کمائی پہ لگائے۔ کتنا بے حس باپ تها جس نے محض اپنی بهوک مٹانے کیلئے بیٹی کو غیروں کے گهر پهینک دیا مگر یہ بهی المیہ یه کہ ہمارے ہاں اکثر اولاد حصول اولاد کے نظریے سے پیدا نہی ہوتی۔ اتنی چهوٹی عمر سے عورت کی استحصالی کی شروعات ہوجاتی ہیں کہ اسے خود بهی نہیں پتہ چلتا کہ کچهه غلط ہورہاہے۔ جس بچی کو گرم راڈ سے جسم تک پر جلایا گیا ہو اس کے ساتهه اس گهر میں کیا نہی ہوتا ہوگا؟کیا اس نے کبهی اپنے گهر والوں سے تذکرہ نہیں کیا ہوگا یا پهر انهوں نے کبهی نوٹس ہی نہیں لیا ہوگا چار پیسے، بچی کچی روٹی اور پرانے کپڑوں کے عوض انهوں نے معصوم بچی کی زندگی عذاب کردی یہ تو پہلی بار ہوا کہ سب کچهه منظر_عام پر آگیا لیکن اس سے پہلے کیا کچهه نہیں ہوتا ہوگا جو کسی پہ عیاں نہیں ہوسکا۔ یہ تو خیر اک طیبہ تهی۔ہمارے ہاں تو آجکل ٹرینڈ ہی بن گیا ہے بچیوں کو چهوٹے موٹے کاموں میں ڈالنے کا۔جن کا صرف معاوضہ چهوٹا موٹا ہوتا ہے کام کے ساتهه جان اور عزت کے بڑے بڑے خراج دینے والی یہ بچیاں یہ خواتین، عورتیں جو زمانے میں رسوائی کے ڈر سے اپنے ساتهه ہونے والی زیادتیوں کے آگے گروی پڑی ہوتی ہیں غیرت کے نام پر قتل ہوتا بهی ہے تو کس کا عورت کا مرد کا تو کچهه بهی نہیں جاتا۔مگر مجهے ہمیشہ سے اپنی خواتین کے طبقے سے خصوصا، باشعور طبقے سے شکایت رہی ہے کہ عورت کی استحصالی میں سب سے بڑا ہاتهه محسوس یا غیر محسوس طریقے سے عورت کا ہی ہوتا ہے
یہ تو ہے ترقی پذیر ملکوں کا احوال جہاں عورت کو ہر لحاظ سے مرد کا محکوم سمجهاجاتا ہے مرد اگر نہ چاہے تو ایک اعلی تعلیم یافتہ عورت بهی اپنی صلاحیتیں منوانے سے قاصر رہ جاتی ہے اور اگر مردچاہے تو ایک سات سال کی بچی بهی گهر والوں کا پیٹ پالنے کیلئے آگ میں جهونکی جاسکتی ہے
یکم دسمبر کو ٹورنٹو میں شوہر کے ہاتهوں قتل ہونے والی ڈاکٹر ایلانہ شام جی کے بارے میں ٹورنٹو سٹار میں کالم شائع ہوا تها جس میں ممکنہ وجوہات پر روشنی ڈالی گئی جو قتل کا محرک بنیں قتل ہونے والی کو ئی مجبور اوربے بس عورت نہیں تهی جسے گهر کے اندر بند کر کے رکها جاتا ہوگا جو چپ چاپ ظلم سہتی ہوگی بلکہ ایک قابل پریکٹسنگ سرجن تهی اور سرجن کی بیوی تهی۔ محمد شام جی بهی نہ تو کوئی ان پڑهه گنوار تها مقتولہ نے طلاق کیلئے درخواست دے رکهی تهی ایسی کوئی انہونی نہیں تهی آجکل تو طلاق کا تناسب بہت بڑهه گیا ہے پهر آخر ایسا کیا ہوا کہ اس نے بیوی کو قتل ہی کر دیا ڈومیسٹک وائیلنس ڈیتهه ریوئیو کمیٹی کے مطابق صرف آنٹاریو میں اپنے شوہر یا بوائے فرینڈ کے ہاتهوں قتل ہونے والی خواتین اور لڑکیوں کی اوسطا تعداد اٹهائیس ہےبہت سے لوگوں کیلئے یہ تناسب حیران کن ہوگا اس تناسب میں 68 فیصد تعداد ان خواتین اور لڑکیوں کی ہے جو علیحدگی یا طلاق کا مطالبہ کرتی ہیں زندگی، تعلقات_عامہ سے متعلق جامع اور بے شمار ورکشاپس اور کینیڈا کے شہریوں کو حاصل ہر قسم کی سہولیات اور حقوق کے باوجود عورتوں کی استحصالی کی یہ اعدادوشمار کافی خطرناک ہیں دوست، خاندان اور ہمسایے سب اس صورتحال سے واقف ہونے کے باوجود بهی خواتین کے ساتهه ہونے والی زیادتیوں کی روک تهام میں ناکام نظر آتے ہیں گهریلوتنازعات پر مبنی یہ سلسلے عورت کی زندگی کے ساتهه ایسے چلتے ہیں کہ وہ ان سب کو نارمل روٹین کا ایک حصہ سمجهتے ہوئے اپنے روزمرہ کے کاموں میں مصروف رہتی ہے اولادکو زندگی کا مقصد گردانتے ہوئے وہ ان کی دیکهه بهال میں لگی رہتی ہے مگر خود کیلئے کیا کچهه بهی نہیں۔ پچهلے وقتوں میں عورت کو اپنے ساتهه ہونے والی زیادتیوں کا شعور نہیں تها اسے بس ماں باپ کی عزت اور شوہر اور اس کے گهروالوں کی خدمت کا بہترخن آلئہ کار سمجهتے ہوئے جوتی کی عین نوک پہ رکهه کے بهی سات پشتوں پر احسان کیا جاتا تها اور وہ بیچاری اسے اپنی قسمت کا لکها جان کر راضی بہ رضا سب سہتی رہتی تهی طلاق کا تناسب کم تها اب لگتا ہے کہ عورت میں آگہی آگئی ہے عورت ہر چیز کا مقابلہ ڈٹ کے کر سکتی ہے مگر مشرق سے لیکر مغرب تک ہر جگہ اس کمزور ذات کو بہت کچهه سہنا پڑتا ہے اور یہی دنیا کا قانون ہے کہ ہمیشہ کمزور ہی سہتے ہیں سامنے بہت کچهه ٹهیک ہوتا نظر آرہا ہے غیرت کے نام پہ قتل کے خلاف حکومت نے قانون نافذ کردیا ہے چائلڈ لیبر کے قوانین بڑے سخت ہیں۔مغرب میں عورت چاہے بوائے فرینڈ رکهے، شوہر یا پهر ہم جنس کے ساتهه تعلقات قائم کرے اس کی انفرادی حیثیت کے لئے سخت قوانین ہیں بهارت مسلمان عورتوں کی استحصالی پہ روتا ہے مگر اپنے دیش میں جو زیادتی کا تناسب ہے اس سے آنکهیں پهیر لیتا ہے گهروں میں کام کرنے والی بچیاں ماں باپ اس لئے صاحب لوگوں کے حوالے کر دیتے ہیں کہ وہ ان کے روٹی کپڑے کا پورا خیال رکهیں گے اور روح کو چهلنی کر بهی دیں تو کس کے پاس ٹائم ہے دیکهنے کا؟ہم اکیسویں صدی میں ٹیکنالوجی کی بہترین ترقی کے ساتهه داخل ہوچکے ہیں مگر جب ایک عورت گهر سے کمانے نکلتی ہے تو اس کو جو مشکلات دیکهنی پڑتی ہیں ان کا اس ترقی سے کوئی تعلق نہیں بلکہ اصل زندگی میں کمزور طبقے خصوصا عورتوں کا ترقی سے کوئی تعلق نہیں۔سامنے سب ٹهیک ہے مگر پس_پردہ بہت تلخ حقائق ہی جن کی تصحیح نہ تو ہو سکتی ہے اور نہ ہی ہم کرنا چاہتے ہیں یا شاید ہم کرنے نکلیں بهی تو ہمیں روکنے والے بهی خود ہم ہی ہوں ہوں

Facebook Comments

رابعہ احسن
لکھے بنارہا نہیں جاتا سو لکھتی ہوں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply