امین الامت اور حضرات شیخین( دوسرا ،آخری حصّہ )۔۔احمد خلیق

فاروق اعظم رضی اللہ عنہ شام میں:

عہد فاروقی میں ملک شام کی مکمل فتح کے بعد ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ وہاں کے عامل(گورنر) مقرر ہوئے۔ عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت کی نمایاں خصوصیات میں سے ایک ان کا اپنے مقرر کردہ  اعمال کی سخت جانچ پڑتال کرتے رہنا تھا کہ کہیں وہ منصب کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے ارتکاز دولت میں تو نہیں پڑ گئے اور دنیا داری نے ان کے مزاج و طبیعت میں سنت مطہرہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بعد تو نہیں پیدا کر دیا۔ ایسے ہی ایک موقع پر آپ رضی اللہ عنہ شام کے دورہ پر تشریف لائے۔ امیر المؤمنین نے اپنے گورنر کا امتحان لینا چاہا اور ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ سے فرمائش کی کہ مجھے اپنے گھر لے چلیے۔ ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے پہلے تو تردد کا اظہار کیا لیکن پھر اصرار پر انہیں لیے شہر سے باہر ایک جانب چل دیے۔ چلتے چلتے جھونپڑی نما گھر میں داخل ہوئے تو عمر رضی اللہ عنہ کیا دیکھتے ہیں کہ ماسوائے ایک تلوار، ڈھال، زرہ اور اونٹ کے کجاوہ کے اور کچھ نہیں ہے۔ حیرانی کے عالم میں ان کی جانب دیکھا اور استفسار کیا ۔آپ کا سامان کدھر ہے؟

فرمایا ’’امیر المؤمنین!انسان کے لیے اتنا توشہ ہی کافی ہے جو اسے اس کی آخری آرام گاہ(قبر)تک پہنچا دے۔‘‘

پھر پوچھا ’’اور کھانے پینے کا کیا کرتے ہیں؟”

ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے طاق کی طرف ہاتھ بڑھایا اور روٹی کے چند ٹکڑے سامنے کر دیے ۔ بس انہیں پانی میں بھگو کے کھا لیتا ہوں۔ عمر رضی اللہ عنہ کا یہ سننا تھا کہ آنکھوں میں آنسو بھر آئے، کہا ۔ ابو عبیدہ!دنیا نے ہم سب کو کچھ نہ کچھ بدل دیا لیکن تمھیں نہ بدل سکی۔ (جہان دیدہ و دیگر)

طاعون عمواس:

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ سے ایک خاص قلبی لگاؤ تھا، وہ انہیں ’میرا بھائی‘کہہ کر بلاتے تھے۔ 18ھ میں جب’طاعون عمواس‘کی زد میں آ کر ہزاروں لوگ شام اور عراق میں لقمۂ اجل بن گئے تو خلیفۃ المسلمین کو فکر لاحق ہوئی، اور اسی پریشانی میں وہ صحابہ رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت کے ساتھ مقام سرغ تک آئے۔  مشورہ ہوا اور طے پایا کہ کل صبح سب امیر المؤمنین کے ساتھ واپس مدینہ منورہ چلیں۔ ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ جو قضا و قدر کے سختی سے قائل تھے کو یہ ناگوار گزرا اور انہوں نے چلنے سے انکار کر دیا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے ادب و احترام کا پاس رکھتے ہوئے زیادہ زور نہیں دیا اور مدینہ لوٹ آئے، لیکن واپس آ کر بھی آپ رضی اللہ عنہ کی فکر دامن گیر رہی۔ فوراً خط لکھا جس کا منشاء تھا کہ’میرا خط ملتے ہی فورا میری طرف چلے آؤ، مجھے تم سے ایک نہایت ضروری امر میں مشورہ کرنا ہے۔

جب خط ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچا اور پڑھا تو بول اٹھے۔ ’’امیر المؤمنین ایک ایسے شخص کو زندہ رکھنا چاہتے ہیں جو باقی رہنے والا نہیں۔‘‘

آپ رضی اللہ عنہ اطاعت امیر کی اہمیت سے واقف تھے اور ساری زندگی اس پہ عمل پیرا بھی رہے تھے لیکن یہ وقت ذاتیات سے اوپر اٹھنے کا تھا ،سو جوابی خط لکھ بھیجا کہ’’امیر المؤمنین!میں اپنے لشکر کو بے یار و مدد گار چھوڑ کر آپ کے پاس نہیں آ سکتا۔ میں اس وقت تک یہاں سے نہیں ٹلوں گا جب تک اللہ تعالی میرے اور ان کے درمیان تقدیر کا اٹل فیصلہ نہیں کر دیتا… لہٰذا آپ مجھے اپنے حکم کی بجا آوری سے معاف رکھیے اور یہیں رہنے دیجیے۔‘‘

خط عمر رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچا تو پڑھ کے آنکھیں ڈبڈبا گئیں۔ پاس بیٹھے اصحاب کو گمان ہوا کہ ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کے انتقال کی خبر آئی ہے، عمر رضی اللہ عنہ  نے  فرمایا کہ’’نہیں۔۔لیکن عنقریب ہوا چاہتی ہے۔‘‘

دوبارہ خط لکھا کہ ابو عبیدہ! اگر آپ خود نہیں آتے تو کم از کم اپنے لشکر کو موجودہ نشیبی مرطوب علاقے سے اٹھا کر کسی بلند پُر فضا مقام پہ لے جائیے جہاں وبا کا اثر نسبتاً کم ہو۔ ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے اس حکم کی انجام دہی کے لیے ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کو کسی مناسب جگہ کی تلاش کا کہا، اور پھر انہی کے مشورہ سے لشکر کو لیے جابیہ کے مقام کی طرف روانہ ہو لیے۔ (ایضاً)

شہادت:

تقدیر الٰہی کے سختی سے قائل ہونے کے ساتھ ساتھ حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کے پیش نظر حضور علیہ الصلاۃ والسلام کا یہ فرمان مبارک بھی تھا کہ جس کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وبا زدہ علاقے میں کسی کو جانے اور وہاں پہلے سے موجود لوگوں کو نکلنے سے منع فرمایا ہے (تاکہ اثرات سے دوسرے محفوظ مقامات کے لوگ متاثر نہ ہوں)۔ جابیہ کے مقام پر پڑاؤ ڈالا ہی تھا آپ رضی اللہ عنہ کو بھی وبا نے آ لیا۔ شدت مرض میں معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو اپنا جانشین مقرر کیا اور نماز پڑھانے کا حکم دیا۔ موت سے قبل مجمع میں ایک تقریر کی جس کے آخر میں فرمایا : ’’صاحبو! یہ مرض خدا کی رحمت اور تمھارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت ہے، پہلے بہت سے صلحائے روزگار اس میں جاں بحق ہو گئے ہیں، اور اب عبیدہ بھی اپنے خدا سے اس سعادت میں حصہ پانے کا متمنی ہے۔‘‘(سیر الصحابہ۔حصہ دوم)

ایک اشکال یہاں پیدا ہوتا ہے کہ ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ ایسی موت کو اپنے لیے ’سعادت‘کیوں سمجھا؟ چونکہ ہم جانتے ہیں کہ ؎ شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن کے مصداق ہر نیک دل مسلمان کی یہ دلی تمنا ہوتی ہے کہ وہ اللہ کی راہ میں لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کرے، اور ہمارے علم میں ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ ساری زندگی تیغ و سناں سے لیس دادِ  شجاعت دیتے رہے لیکن میدان کارزار میں شہادت کے مرتبہ پر فائز نہ ہو سکے تو اللہ تعالی نے اپنے بندے کی خواہش ایک اور ذریعے سے پوری فرمائی، فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ ’’طاعون میں مرنے والا شہید ہے، پیٹ کی بیماری میں مرنے والا شہید ہے…‘‘(عشرۂ مبشرہ بحوالہ طبقات ابن سعد)

۵۸برس کی عمر میں آپ رضی اللہ عنہ نے داعی  اجل کو لبیک کہا اور سفر آخرت پر روانہ ہو گئے اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے تجہیز و تکفین کا انتظام کیا اور نماز جنازہ پڑھائی (جنازہ سے قبل وہی تقریر فرمائی جسے اوپر نقل کیا گیا ہے )۔ چنانچہ حدیث نبویصلی اللہ علیہ وسلم کی رو سے جناب ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ بھی شہداء کی صف میں شامل ہو کر اپنے دونوں ساتھیوں ابوبکر(صدیق )اور عمر (شہید)رضی اللہ عنہما کے ساتھ درجۂ علیا میں پہنچ گئے۔ رضی اللہ عنہم وارضاہ!!

توصیفی روایات:

حضرت حسن بصریؒ سے (مرسلا ًروایت)ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’تم میں سے ہر شخص ایسا ہے کہ میں چاہوں تو اس کے اخلاق میں کسی نہ کسی بات کو قابل اعتراض قرار دے سکتا ہوں، سوائے ابو عبیدہ کے۔‘‘(جہان دیدہ)

ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا گیا کہ’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے صحابہ رضوان اللہ تعالی اجمعین میں سے سب سے زیادہ محبوب کون تھے؟ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ ’ابو بکر‘

پھر پوچھا گیا ان کے بعد کون؟ فرمایا ’عمر…‘  تیسری بار پوچھا گیا کہ ان کے بعد کون؟ عائشہ رضی اللہ عنہا نے جواباً فرمایا: ’’ابو عبیدہ ابن جراح‘‘ (رضی اللہ عنہم)

ایسے ہی ایک دوسری روایت میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے خلافت کے متعلق استفسار کیا گیا کہ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی زندگی میں کسی کو خلیفہ نامزد کرتے تو کس کو کرتے؟ آپ رضی اللہ عنہا نے اسی ترتیب سے یکے بعد دیگرے تینوں حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے نام لیے۔ (جہان دیدہ و عشرۂ مبشرہ کے دلچسپ واقعات از ابن سرور محمد اویس)

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے سامنے ایک مرتبہ اپنے بعد خلیفہ کے تقرر کا سوال آیا تو آپ نے فرمایا کہ’’اگر ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کی زندگی میں میرا وقت آ گیا تو مجھے کسی سے مشورے کی بھی ضرورت نہیں، میں ان کو اپنے بعد خلیفہ بنانے  کے لیے  نامزد کر جاؤں گا۔ اگر اللہ تعالی نے اس نامزدگی کے بارے مجھ سے پوچھا تو میں عرض کر سکوں گا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا کہ ہر امت کا ایک امین ہوتا ہے، اور اس امت کے امین ابو عبیدہ ابن الجراح رضی اللہ عنہ ہیں۔‘‘(جہان دیدہ)

اسی طرح شہادت سے قبل بھی جب خلیفہ کی نامزدگی کا مسئلہ کھڑا ہوا تو فرمایا۔ ’’اگر ابو عبیدہ زندہ ہوتے تو میں انہیں نامزد کرنے میں کوئی جھجھک محسوس نہ کرتا ،کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ اس امت کے امین ہیں۔ میں یہ بار امانت ان کے سپرد کر دیتا۔‘‘ (ایک اور روایت میں اسی قسم کا اظہار سالم مولی ابی حذیفہ رضی اللہ عنہما کے متعلق بھی فرمایا کہ بقول حضور علیہ الصلاۃ والسلام ’ سالم رضی اللہ عنہ  اللہ تعالیٰ سے بہت محبت کرتے تھے۔عشرۂ مبشرہ) اگرتھوڑی دقت نظر سے دیکھا جائے تو مذکورہ دونوں روایات اور سقیفہ بنی ساعدہ کے ذیل میں بیان کیے گئے حضرات شیخین کے ساتھ ہونے والے مکالمہ جات میں کتنی مماثلت ہے۔ قیاس کیا جا سکتا ہے امین الامت حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ خلافت راشدہ کے منصب جلیلہ پر متمکن ہونے کے مکمل اہل تھے، لیکن قضا و قدرت میں ایسا نہ لکھا تھا سو وہ اپنے وقت پر اٹھا لیے گئے… واللہ اعلم

Advertisements
julia rana solicitors

اللھم اجعلنا منہم… آمین

Facebook Comments