”جہاد“کی عصر حاضر کے ساتھ تطبیق۔امینہ بٹ

مکالمہ پہ محترم حافظ صفوان صاحب کی تحریر ”جہاد اور ردالفساد “پڑھنے کا اتفاق ہوا۔جس میں حافظ صاحب نےبہت ہی خوبصورت انداز میں ”عصر حاضر کا دفاعی و جہادی بیانیہ“ بیان کیا ہے۔حافظ صاحب نے امام غزالی کا حوالہ ( احیاۓ علوم)اصطلاح ”جہاداصغر“ اور”جہاد اکبر“ کو بہت خوبصورتی سے ایک جملے میں بیان کیا ہے ـ
حافظ صاحب کے اس مضمون سے متاثر ہوکہ اقدامی و دفاعی جہاد کو واضح بیان کرتے ہوے عصر حاضر کے ساتھ تطبیق کی گئی ہے ۔

جہاد کا لغوی مفہوم ”کوشش کرنا“ہے اور اصطلاحی مفہوم کے مطابق”اللہ کی خاطر اپنی بھرپور صلاحیتوں کو بروۓکار لاتے ہوۓ انتہائی کوشش کرنا جہاد کہلاتا ہے۔
یوں تو عموماًجہاد کا لفظ سنتے ہی ماردھاڑ اسلحہ توپ و تفنگ خون خرابہ آنکھوں کے آگے آتا ہے لیکن یہ جہاد کی تصویر سراسر غلط ہے۔
علامہ قرطبی؛علامہ بغوی؛امام رازی؛ابوالاعلیٰ مودودی؛ابن عطیہ کےمطابق جہاد کو صرف قتالِ کفار نہیں سمجھا جاسکتا بلکہ اسکے اور بھی مفاہیم ہیں۔
دین اسلام نے جہاد کو مختلف اقسام میں تقسیم کیا ہے۔
جن میں جہاد باالنفس؛ جہاد بالقلم؛جہاد باللسان؛جہاد بالمال اورجہادباالسیف شامل ہے۔
قرآن پاک میں جہاد بالسیف کے لیے مخصوص اصطلاح”قتال“استعمال ہوئی ہے۔
اس قسم کاجہاد یعنی ”جہاد بالسیف “سے مراد میدانِ جنگ میں اسلحہ کے ساتھ لڑنا جہاد ہے۔
جہاد بالسیف کو دو اقسام میں تقسیم کیا گیا ہے۔
١) دفاعی جہاد

٢)اقدامی جہاد

یوں تو ایک تاثر یہ دیا جاتا ہے اسلام پرامن طریقے سے پھیلا اور اسلام امن کا دین ہے۔اسکا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ دشمنان اسلام دھڑادھڑ آتے تھےاور مسلمانوں کو آسانی سے کچل کر اور قتل و غارت کر کےچلے جاتے تھے اور مسلمان صرف جواب میں امن کا درس دے کر بیٹھے رہتے تھے۔
بلکہ دین اسلام” امن کا دین “ سے مراد یہ ہے کہ دین اسلام کی تعلیمات میں جنگ کے اصول اخذ کر رکھے ہیں۔
جس میں اندھا دھند قتل و غارت؛عورتوں؛ بچوں ؛بوڑھوں راہبوں؛جانوروں ؛درختوں؛ فصلوں اور عبادت عبادت گاہوں کےبارے میں باقاعدہ اصول اخذ کر رکھے ہیں۔
١)دفاعی جہاد:۔
دفاعی جہاد سے مراد ہے۔جب دشمنانِ اسلام(غیرمسلم) مسلمانوں پر چڑھ دوڑیں اور قتل و غارت کریں انکے مقابلے میں مسلمان جواباً اسلحہ کے ساتھ اپنا بچاو کریں۔دفاعی جہاد کہلاتا ہے۔
جہاد کی یہ قسم فرض عین ہے سواے مستثنیٰ افراد کے۔
ارشادباری تعالیﷻٰ:
اذن للذین یقتلون بانھم ظلموا وان اللہ علیٰ نصرھم لقدیر۔الذین اخرجوا من دیارھم بغیر حق الا ان یقولوا ربنا اللہ۔(٣٩۔٤٠)
ترجمہ:
”اجازت دی گئ ان لاگوں کوجنکے خلاف جنگ کی جارہی ہے؛کیونکہ وہ مظلوم ہیں اور اللہ یقیناً انکی مدد پرقادر ہے۔یہ وہ لوگ ہیں جواپنےگھروں سے ناحق نکال دیے گۓ؛صرف اس قصور پرکہ وہ کہتے تھے ہمارا رب اللہ ہے ۔“

٢) اقدامی جہاد
حملہ آور قوتوں پر حملہ کرکے مسلمانوں کو ان کےشر سے محفوظ کرنا اقدامی جہاد کہلاتاہے۔قتال کی یہ صورت فرض کفایہ ہے۔
اللہﷻ کا ارشاد ہے:۔
وقتلوھم حتیٰ لاتکون وفتنۃ ویکون الدین کلہ للہ فان انتھوا فان اللہ بما یعملون بصیرا۔(سورۃ الانفال:٣٩)
ترجمہ:
اور ان سےلڑو یہاں تک کہ کوئی فتنہ باقی نہ رہے اور دین اللہ کا ہوجاے اگر پھر وہ باز رہیں تواللہ انکےکام دیکھ رہا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

اگرکسی ملک کے مسلمان دشمن کےمقابلے میں کم قوت رکھتے ہوں تواس ملک کا دفاع یکے بعد دیگرے تمام دنیا کےمسلمانوں پر فرض عین ہوجاے گا۔
اسی تناظرمیں دیکھاجاۓتو وطن عزیز پاکستان میں جہاد اپنی پوری طاقت سے جاری وساری ہے۔ ماضی میں ” ضرب عضب“ انتہايی کامیابیوں سے مکمل ہوچکا ہے اور حال میں ”ردالفساد“ کی صورت میں جاری و ساری ہے۔جسکےنتیجے میں پاک فوج کو خاطر خواہ کامیابیاں مل چکی ہیں اور مل رہی ہیں ۔پاکستانی عوام بھرپور اعتمادکے ساتھ پاک فوج کے ساتھ ہے اور پیش آمدہ دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے تیار ہے۔

Facebook Comments

Amina Butt
ایم فل(اسلامیات) سٹوڈینٹ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply