شاہراہ دستور پہ دستور کی پامالی۔۔عامر عثمان عادل

نہیں میرے کپتان !
کہ  انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں
کل شہر اقتدار کی سڑکوں پہ ایک بار پھر سے ریاستی دہشت گردی کا مظاہرہ دیکھنے کو ملا ۔ اور اس بار نشانے پہ تھے سرکاری ملازمین جن میں بڑی تعداد معزز اساتذہ کی تھی۔
غیر جانبدار ذرائع کے مطابق نہتے مظاہرین پر بد ترین آنسو گیس کی شیلنگ اور لاٹھی چارج کیا گیا
دوسری جانب ایک بڑے سرکاری افسر کا کہنا تھا کہ اگر یہ مظاہرین پریس کلب اسلام آباد تک رہتے تو یہ نوبت نہ آتی ریڈ زون کی جانب پیش قدمی پر ان کو روکنا پولیس کی مجبوری تھی
میرا سوال تھا روکنا ہی تھا تو کوئی  حکمت عملی اختیار کر لی جاتی ،یوں سر پھٹول تک نوبت تو نہ جاتی۔۔
جواب تھا کہ پہل مظاہرین کی جانب سے ہوئی، جو کنٹینر توڑ کر آگے بڑھے اور تین پولیس اہلکاروں کے سر پھاڑ دئیے۔
ان مظاہرین کا بڑا مطالبہ تنخواہوں میں اضافہ ہے۔۔

آخری خبریں آنے تک حکومتی نمائندوں سے مذاکرات کامیاب ہو چکے ہیں بڑے مطالبات منظور کرنے کی یقین دہانی کروائی  جا چکی ہے جس کا نوٹیفیکشن جاری ہونے تک دھرنا جاری رہے گا۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بر وقت ان مطالبات پر غور کیوں نہ ہوا ۔۔جب پہلے سے احتجاج کی کال دی جا چکی تھی تو حکومتی نمائندوں نے کیوں رابطہ نہ کیا ان سے؟

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ تمام سرکاری ملازمین کی یونینز کے عہدیداران کو چائے کے کپ پہ بلا کر ان کے مطالبات کی فہرست لی جاتی اور ان کے حل کے لئے اعتماد میں لے لیا جاتا۔
نجانے حکومت کیوں انتظار کرتی ہے کہ اپنے اپنے مطالبات کے لئے لوگ سڑکوں پر نکلیں دھرنے دیں راستے روکیں پہیہ جام ہو نعرے لگیں جلتے ہوئے ٹائروں کا دھواں اٹھے تب بات سنی جائے گی۔

اب کل جو کچھ ہوا وہ سراسر ظلم اور بربریت کے سوا کچھ بھی نہیں،

میرے کپتان
کل اسلام آباد پولیس نے جو کارکردگی دکھائی  اس پر آپ آئی  جی کو بلا کر شاباش ضرور دیجیے، جس کی بہادر فورس نے ریڈ زون کا تقدس پامال ہونے سے بچا لیا اور کمال جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے قوم کے معماروں کو لہو لہان کیا۔

لیکن چند سادہ سے سوال ہیں
آپ کے وزراء کا کہنا ہے ان مظاہرین کے پیچھے PDM ہے
تو جناب آپ کے وزیر داخلہ نے اسی پی ڈی ایم پر ریڈ زون کے دروازے کھول دیئے جب وہ الیکشن کمیشن کے دفتر کا گھیراؤ  کرنے آئے
تو اب یہ دوہرا معیار کیوں ؟

کیا آپ کا کوئی  وزیر با تدبیر یہ بیان جاری نہیں کر سکتا تھا کہ اساتذہ اسلام آباد آئیں ہم ان کا استقبال کریں گے انہیں چائے پیش کریں گے ؟

میرے کپتان
جس پولیس نے کل نہتے ملازمین کے سر پھاڑے کیا ان میں ہمت ہے کہ یہ ان وکلاء پر ہاتھ ڈال سکیں جو ابھی دو روز قبل دن دیہاڑے اسلام آباد ہائیکورٹ پر چڑھ دوڑے اور اس کی اینٹ سے اینٹ بجا کر رکھ دی 48 گھنٹے گزر جانے کے باوجود کسی ایک بھی وکیل کو گرفتار کیا جا سکا ؟

تو پھر یہ دو عملی کیوں

کیا حکومتی رٹ صرف کمزور طبقے پر قائم ہوتی ہے
کیا قانون کی بالادستی صرف بے بسوں پر چلتی ہے
تگڑے اور آنکھیں دکھانے والے کیا استثنٰی رکھتے ہیں
نہیں میرے کپتان
یہ آپ کے منشور کے بھی خلاف ہے اور خود آپ کی 22 سالہ جدو جہد کی بھی نفی
یاد ہے ناں آپ نے بھی اس شاہراہ دستور پہ تاریخ کا طویل ترین دھرنا دیا
تو کیا ہوتا اگر یہ سرکاری ملازمین بھی اسی شاہراہ پر چند روز بیٹھ لیتے
تو پھر انصاف کا تقاضا تو یہی ہے کہ کل جو ہوا اس کی ذمہ داری کلی طور پر آپ پر آتی ہے
کیا آپ بلا کر پوچھیں گے نہیں اپنے لاڈلے وزیر داخلہ سے
کہ ان اساتذہ کے ساتھ بد سلوکی کیوں کی گئی ؟

کیا آپ آئی  جی اسلام آباد سے باز پرس کریں گے کہ کیوں نہتے مظاہرین سے حکمت عملی اختیار کر کے پر امن مذاکرات کا راستہ نہ نکالا جا سکا؟
جو مذاکرات رات گئے ہوئے وہ ان مظاہرین کے اسلام آباد پہنچتے ہی کیوں نہ  کر لئے گئے

Advertisements
julia rana solicitors london

میرے کپتان !
ریاست ماں کے جیسی ہوتی ہے
اور کون سی ماں ہو گی جو اپنے بچوں کو ضد کرنے یا شکوہ کرنے پر بات سنے بنا دھنائی  کر ڈالے
اور کم از کم آپ کے عہد میں تو ایسی پولیس گردی کی کوئی  گنجائش نہیں
یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر
کہ  انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں

Facebook Comments

عامر عثمان عادل
عامر عثمان عادل ،کھاریاں سے سابق ایم پی اے رہ چکے ہیں تین پشتوں سے درس و تدریس سے وابستہ ہیں لکھنے پڑھنے سے خاص شغف ہے استاد کالم نگار تجزیہ کار اینکر پرسن سوشل ایکٹوسٹ رائٹرز کلب کھاریاں کے صدر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply