ایدھی بعد از ایدھی۔۔شارون شہزاد

لاک ڈاون میں تقریباً اکثریت اپنے گھروں میں مقید رہی اور ہر چرند پرند کی طرح واپس اپنے سامان و مکان کی ہوکر رہ گئی۔ میں لاک ڈاون میں اپنے گھر جانے کی بجائے اپنی حریت واسطے سیالکوٹ کی تحصیل ڈسکہ میں اپنے دوست کی طرف چلاگیا کیونکہ میرے فہم کے مطابق یہ کچھ روز کا دورانیہ تھا مگر بعد میں اس کے حقائق اعلانیہ ہوئے۔ ہر عام شہری کی طرح میری اس بات سے آشنائی نہ تھی کہ یہ فیز کس قدر طول پکڑے گا اور میں چاہتے یا نہ چاہتے ہوئے بھی یہیں بوجہ لاک ڈاون قیام رکھونگا۔ جب سے ہوش سنبھالا ہے کبھی بھی ایسے حالات سے گُزر نہیں ہوا تھا۔ پہلی و دوسری جنگِ عظیم کے بعد اسی وبا نے عالمی سطح پر ہر خاص و عام کی زندگی پر گہرا اثر ڈالا تھا۔

ڈسکہ میں میرا غائبانہ تعارف بِلا نامی فرد سے ہوا جن کا پیدائشی نام محمد تنویر احمد ہے۔ ہر فلاحی کام میں اگر کسی شخص کی نام پر کوئی زبان آتا تو وہ بِلا تھا۔ منفرد لوگ ہر مقام پر سٹیج نام سے پُکارے جاتے ہیں۔ ان کے حقیقی نام سے آشنائی بہت کم لوگوں کو ہوتی ہے اس کی وجہ ان کا وہ کام ہوتا ہے جو وہ دوسروں سے مختلف کرتے ہیں اسی لئے وہ اس نام سے جانے اور پہچانے جاتے ہیں جو وہ اپنے نئے کردار کو نکھار کر خود دیتے ہیں۔ تنویر صاحب ڈسکہ میں Young Blood نامی ایک تنظیم کے موجد ہیں اور پچھلے پینتیس سالوں سے انسانی بقا و فلاح کے لئے خود کو خرچ کررہے ہیں۔ ایدھی بعد از ایدھی کے کلمے کا ورد کرتے ہوئے یہ کسی بھی انسان کے ہر صغیر و کبیر مسئلے اور ضرورت کو اپنی ذات سے منسلک کرکے پہل دیتے ہیں۔ ملکِ پاکستان میں اکثریت ماہانہ وار تنخواہ سے منسلک ہے اور یہ تنخواہ بمشکل ان کی محض بنیادی ضروریات ہی پوری کرپاتی ہے۔ لہذا زریعہ معاش جامد ہونے کی وجہ سے بیشتر سفید پوش حضرات حکومت کی طرف سے نظر ثانی کی طلبگار ہوگئی جبکہ حکومت خود ابھی عہد طوالت میں تھی اور اس عالمی مسئلے سے دوچار تھی۔ ایسے میں ڈسکہ جیسی چھوٹی تحصیل میں صرف ایک ہی بڑے ظرف کے فرد کا نام سننے میں آرہا تھا۔ کسی کو کھانے کا مسئلہ ہو تو تنویر صاحب خود ان کے گھر راشن پہنچاتے نظر آئے۔ کہیں کوئی مریض دوائی کا طلبگار ہوا تو تنویر بھائی اس مریض کی تیمارداری کے ساتھ دوائی کھلاتے نظر آئے۔ ان کی تنظیم بنام ینگ بلڈ پورے ملک میں وسیع پیمانے پر خون کا عطیہ دیتی ہے۔ آگاہی سے لے کر اب تک تنویر صاحب بذاتِ خود ڈیڑھ سو سے زائد خون کی بوتلیں اپنے جسم سے عطیہ کرچکے ہیں۔ میں نے سڑک پر برہنہ پیر چلتے فرد کو اپنا جوتا پہنانے سے لے کر کسی بھی حاجت مند کو معقول کاروبار چلوانے تک تنویر بھائی کو ہمہ وقت کوشاں دیکھا ہے۔

لاک ڈاون کے آٹھ ماہ میں ہر دل عزیر مخیر فرد بھی ایک وقت پر آکر بیزار ہوتے اور جواب دیتے دیکھا گیا ہے لیکن یہ جناب تحمل اور خدا کی ذات پر کامل یقین سے لبریز ہیں۔ میرے دوست بطور اسسٹنٹ کمشنر ڈسکہ کی عوام کے تابع فرمان ہیں اور تنویر بھائی نے ایک ریاستی نمائندے کو پہلے دن سے اس بات پر آمادہ کیا تھا کہ کوئی بھی فرد اگر کسی بھی مدد کا طلبگار ہے تو حکومت کو ثانوی قرار دیتے ہوئے آپ پہلے مجھے بتائیے گیا۔ بوجہ کرونا ہمارے کئی عزیز اس دنیا سے چل بسے جن کی باقیات کو احتیاطی تدابیر کے تحت دفنانا قانونی حکم تھا۔ حکومت نے باقاعدہ اس کے لئے حفاظتی لباس میہا کیا لیکن پھر بھی کئی دفعہ زمہ دار لوگ کرونا سے متاثر افراد کی لاشوں کو ہاتھ لگانے سے کتراتے رہے۔ میرے سامنے کئی ایسے واقعات ہوئے جس میں گھر والے خود اپنے عزیز کو بستر مرگ پر چھوڑ کر گھر کے بالائی حصہ میں چلے گئے خوف سے سرشار پائے گئے۔ ایسے میں تنویر بھائی کو ڈسکہ اور ڈسکہ کے چاروں اطراف میں کرونا کے مریضوں کو بلا حفاظتی لباس دفناتے پائے گئے۔ ایمبولنس کے ہمراہ خود جاتے، تابوت کو خود زمین بوس کرتے اور قبر پر مٹی بھر کر آخری مٹھی تک خود پھینکتے رہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

گذشتہ دنوں صفائی مہم کا آغاز کرتے ہوئے خود جھاڑو اٹھا کر جابجا گلیوں میں گشت کرتے رہے اور اپنی ٹیم کے ہمراہ بلامعاوضہ اپنا نصف ایمان پورا کرتے رہے۔ ڈسکہ کی حدود میں ہر طلبگار آسمان سے پہلے تنویر صاحب کی طرف رخ کرتے ہیں اور یوں تنویر بھائی اپنا جوتا تک دان کرکے خود برہنہ پیدل چلنا شروع کردیتے ہیں۔ کئی بچوں کے ذہن سے جسمانی مشقت کا بوجھ اتار کر ان کے کندھوں پر کتابوں کا بوجھ ڈالا۔ کہیں بھوک سے تنگ منہ میں نوالا ڈالا، تو کہیں کسی بے گھر کو چھت جیسی نعمت سے نوازا۔ ان کی تنظیم نشے کے خلاف ایک بہترین اور کامیاب مہم بھی کئی سالوں سے چلارہی ہے جس میں نشے کے عادی افراد کو باقاعدہ بحالی مرکز میں رکھا جاتا ہے اور اس کو ہر ممکن سہولت دے کر اس کو نئی زندگی سے آشنائی دی جاتی ہے۔ کئی افراد کو ازِسرنو حیات دے کر تنویر صاحب ان کی بقا واسطے مکمل زمہ داری نبھاتے ہیں۔
ان کی پسندیدہ شخصیت کوئی سیاستدان، سائینسدان، گلوکار، کوئی فلمی اداکار یا صاحب متنیت نہیں بلکہ فرشتہ صفت عبدالستار ایدھی ہیں جن کا مکمل عکس ان میں نظر آتا ہے۔ یہ سیاستی و ریاستی زمہ داری ہے کہ ایسے انسانوں کو عالمی سطح پر متعارف کرایا جائے، سراہا جائے اور اسی روایت کو اپنایا جائے۔ بحیثیت عام شہری میں ان کی زات کو کامل سمجھتا ہوں گویا کہ ہم میں سے بیشتر لاک ڈاون میں جب سکرین پر فلاحی کاموں کی بے بہا تراغیب دے رہے تھے اس وقت تنویر بھائی گھر گھر جاکر انسانی بقا و فلاح کی ہر ممکن مشق کررہے تھے اور اب تک کوشاں ہیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔