ناکامی کی داستان۔۔اصغر گلکالہ

دسویں جماعت میں فیل ہونے کے بعد اپنی خجالت ختم کرنے کیلئے میں ابا کی دیرینہ خواہش پوری کرنے کیلئے مدرسے پڑھنے کیلئے چلا گیا۔ چند مہینے وہاں رہنے کے باوجود اندرونی بے قراری ختم ہونے کی بجائے بڑھتی گئی۔ زندگی میں کیا کرنا ہے اور کیا کرنا چاہیے کچھ پتا نہیں تھا بس ایک بے قراری تھی جو یہاں رکنے نہیں دے رہی تھی۔ مدرسے کے مولوی صاحبان کو کچھ جھوٹی کہانیاں سنا کر گھر پہنچنے کا بہانہ  تلاش کر لیا تھا۔ گھر پہنچا تو وہی لعن طعن کہ ناکارہ لڑکا پھر ناکام لوٹ آیا۔ ان تمام تضحیک آمیز رویوں میں بس ایک اماں تھیں جو میرے بہانے پہ راضی ہو گئی تھیں۔ بلکہ وہ تو خوش تھیں کہ میں واپس آ گیا۔ میں باقی گھر والوں کی لعن اماں کی محبت کی وجہ سے بھول جایا کرتا تھا۔ ہمارے گھر کے اکثر افراد محلے اور رشتہ داروں میں ہماری غلطیوں اور ناکامیوں کو بڑے مزے سے سنایا کرتے تھے۔ بلکہ یہ ان کے اہم فرائض میں سے تھا۔ گھر کے بزرگ ابا، چچا، چچیاں اور دیگر قریب رہنے والوں کیلئے اس سے زیادہ مزیدار  کوئی اور موضوع ہی نہیں تھا۔

ان حالات میں ایک اماں ہی تھیں جو پتا نہیں کہاں سے ہمارے لیئے کوئی قابل تعریف خصلتیں بھی ڈھونڈ لایا کرتی تھیں۔ اور یہ جملے وہ موقع ملتے ہی بیان بھی کرتی رہتی تھیں۔ خیر میں اپنی ایک اور ناکامی کی خفت مٹانے کیلئے بڑی مشکل سے ابا سے اجازت لی اور اپنی زمینوں پر کاشتکاری شروع کر دی۔ انہیں دراصل خطرہ تھا کہ میری وجہ سے فصل بھی خراب ہو گی اور سال بھی ضائع ہو جائے گا۔ اور میں انکی اس امید پر بالکل پورا اُترا۔

میں نے سبزیاں کاشت کرنے کا فیصلہ کیا تھا جو کہ عام فصلوں سے ذرا مشکل کام ہوتا ہے۔ صحیح وقت پر کاشت نہ ہونے اور مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے سب ضائع ہو گیا۔ اب میں ایک بار پھر خود کو ذہنی طور پر تیار کر رہا تھا کہ ایک بار پھر وہی سلسلہ شروع ہو گا۔ ابھی کسی کی کوئی بات سننے سے پہلے ہی میں دوسرے شہر مزدوری کیلئے چلا گیا۔ یہ کھانے کا تیل اور گھی بنانے والی فیکٹری تھی۔ میں بطور ہیلپر بھرتی ہوا تھا۔ یہاں مل میں نیا یونٹ قائم کرنے کیلئے کام ہو رہا تھا۔ مجھے ایک کاریگر کے ساتھ رہنا تھا اسکی کام میں مدد کرنی تھی۔ کاریگر یہاں استاد کہلائے جاتے۔ میرے استاد بہت ہی بدتمیز اور بد مزاج آدمی تھے۔ انہیں ہر بات کے ساتھ گالی دینے کی عادت تھی۔ پہلے ہی دن سے میں اکتا گیا تھا۔ لیکن گھر سے آتے وقت صرف یہاں پہنچنے تک کرایہ ہی لایا تھا تو مجبوراً ایک مہینہ گزارنا تھا۔ دن بھر کام کی سختی اور استاد کی غلیظ زبان کے بعد جسم اور دماغ دونوں تھکن سے چور ہو جاتے لہذا نیند بہت سکون کی آیا کرتی تھی۔ کبھی کبھار سپر وائزر کے فون سے گھر بات کرنے کا موقع بھی مل جایا کرتا تھا۔ میں اماں سے کہا کرتا کہ بس چند مہینے بعد مستری بن جاؤں گا اور پھر سب سیٹ ہو جائے گا۔ اماں کو ہمیشہ یقین آ جاتا کہ میں جو کہہ رہا ہوں تو بس بن جاؤں گا۔ حالانکہ وہ بھولی خاتون میری اتنی ناکامیوں کو دیکھ چکی تھیں ۔

مہینہ گزرا  میں نے پیسے لیئے اور ایک اور فیکٹری میں کام کرنے کیلئے پہنچ گیا۔ یہ نئی فیکٹری بن رہی تھی تو کام بہت تھا۔ ادھر کا استاد تھوڑا تمیز دار تھا۔ بس یہاں ایک تھوڑا سا مسئلہ تھا کہ رہنے کیلئے کوئی جگہ نہیں تھی۔ ہمارے ٹھیکیدار نے فیکٹری کے بڑے افسر سے بات کر کہ ہمیں ایڈمن بلاک کی چھت پر سونے کی اجازت دلوا دی۔ گرمیوں کے دن تھے ایک چادر میں گھر سے لایا تھا۔ تو بس فیکٹری میں آنے والے نئے سامان کے موٹے موٹے گتوں سے نرم بستر بنایا، مچھروں سے بچنے کیلئے چادر اوڑھی اور سو گئے۔ صبح سورج میاں بروقت جگا دیا کرتے اور ہم بھی بروقت کام پہ پہنچ جاتے۔

دو مہینے بمشکل گزرے ہوں گے کہ ہماری بے قراری نے ہمیں یہاں بھی نہ رہنے دیا۔ دراصل مسئلہ یہ تھا کہ میرے جاگتی آنکھوں کے خواب مجھے کہیں ٹکنے نہ دیتے تھے۔ سوتے ہوئے دیکھے جانے والے خواب تو میں اکثر بھول جایا کرتا ہوں لیکن یہ جاگتی آنکھوں کے خوابوں سے بچنا محال تھا۔ سو ایک بار پھر میں ناکام شکل کے ساتھ گھر لوٹ آیا۔ گھر کے حالات ناکارہ بیٹے کو برداشت کرنے کے قابل نہیں تھے۔ ابا کے ایک رشتہ دار نے گھر کے قریب کی شوگر مل میں آفس بوائے لگوانے کی آفر کی تو ابا نے اگلے ہی دن شناختی کارڈ بنوانے بھیج دیا۔ شناختی کارڈ کیلئے میری عمر اٹھارہ سال سے کم تھی اور نوکری کیلئے شناختی کارڈ ضروری تھا۔ تو بڑے بزرگوں نے فیصلہ کیا کہ ویسے بھی میٹرک فیل ہی ہے تو دو سال عمر بڑھا کہ ان پڑھ لکھوا دو۔

چند دن میں شناختی کارڈ بن کر  آ گیا اور میں ابا کے کزن کی سفارش لئے مل میں پہنچ گیا۔ مل کے بڑے دروازے پر موجود چوکیداروں نے میری بات سنی، بڑے صاحب کو فون کیا ہمارے ان رشتہ دار کا حوالہ بھی دیا۔ انہوں نے پتا نہیں کیا کہا البتہ مجھے چوکیدار نے کہا کہ لڑکے بھاگ جاؤ یہاں کوئی نوکری نہیں ہے۔ ناکامی کا ایک اور داغ لیے میں گھر لوٹ آیا۔

ان دنوں ایک پیر صاحب ہمارے گھر آئے ہوئے تھے۔ وہ سفید ریش بزرگ ہمارے خاندانی پیر تھے۔ ابا کے ساتھ انکی دوستی تھی۔ میں انہیں بچپن سے دیکھتا آ رہا تھا۔ مجھے وہ بہت اچھے لگتے تھے۔ دراصل وہ ان کم لوگوں میں سے تھے جو اکثر میری تعریف کیا کرتے تھے۔ وہ جب آتے تو سب گھر کے بڑوں کو ہمارے ساتھ احترام کے ساتھ بات کرنی پڑتی۔ ہمارے سے مراد ہم جو گھر کے چھوٹے بچے تھے۔ پیر صاحب جب کھانا کھا کر  فارغ ہوئے تو بات چیت شروع ہوئی۔ ہماری اماں نے پیر سائیں سے کہا میرا یہ بیٹا ٹھیک سے کوئی کام نہیں کرتا میں چاہتی ہوں یہ پڑھ لکھ جائے لیکن یہ فیل ہو کر ناکارہ پھر رہا ہے۔

پیر سائیں نے کیا کہا وہ تو مجھے یاد نہیں لیکن میں  نے ان دنوں پھر سے کتابیں اٹھا کر پڑھائی کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ ابا بہت ناراض ہوئے کہ یہ نالائق پھر بھی فیل ہی ہو گا لیکن اماں کی امید مرنے کا نام ہی نہیں لیتی تھی۔ شام کو وہ مجھے باقیوں سے دودھ کا ایک گلاس بھی زیادہ دیا کرتی تھیں کہ پڑھائی میں دماغ بہت خرچ ہوتا ہے۔ بادام بھی لے آئی تھیں اور پیر سائیں سے تعویذ بھی لکھوا لیا تھا۔ جو مجھے دودھ میں گھول کر  پلایا کرتیں۔

پھر میں نے میٹرک پاس کر لیا۔ اماں کتنی خوش ہوئی تھیں۔ خوش تو ابا بھی ہوئے تھے لیکن انہوں نے زیادہ اظہار نہیں کیا تھا۔ میٹرک پاس کرنے کے بعد اب آگے کی پڑھائی کیا کرنی ہے اس پر میں پھر کنفیوژ۔ خیر میں نے میڈیکل ٹیکنیشن کا ایک ڈپلومہ شروع کیا ساتھ ہی پرائیویٹ ایف اے کی بھی تیاری شروع کر دی۔ انہی دنوں اماں بیمار ہو گئیں۔ انہیں ہیپاٹائٹس سی تھا۔ قریبی شہر کے سرکاری اسپتال میں انکا علاج شروع ہوا۔ میں بھی وہیں پڑھ رہا تھا۔ میں صبح کالج جاتا اور واپسی پہ ہسپتال، رات کو ہسپتال کے باہر لان میں ہی سوتا۔ صبح ہاسٹل جا کر  تیار ہوتا اور پھر کالج۔

چند دن بعد ایک ڈاکٹر نے مجھے بلایا اور کہا کہ دیکھو آپ کی والدہ کو جو بیماری ہے اس کا ہمارے ملک میں علاج نہیں ہوتا۔ اور ہمارے جیسے مڈل کلاس لوگ دوسرے ملک جا کر علاج بھی نہیں کروا سکتے۔ ہم کل آپ کی والدہ کو دوائیں دے کر گھر بھیج دیں گے۔ لیکن ان کے پاس زندگی کے زیادہ دن نہیں بچے۔

میں خاموشی سے سنتا رہا۔ بالکل ویسے ہی جیسے ایک لاچار اور بے بس انسان سن سکتا ہے۔ میں نہ تو کسی جائیداد کا مالک تھا اور نہ ہی اتنا طاقتور تھا کہ کچھ کر سکتا۔ انیس سال عمر تھی اور اڑتالیس کلو وزن تھا۔ میری امید اور حوصلہ اپنے اختتام کو پہنچنے والا تھا۔

اماں کے بعد گھر کی صورتحال بدل گئی تھی۔ سب بہن بھائی اپنی اپنی زندگی میں مصروف ہو گئے۔ ابا کو شاید بچوں کو سمیٹ کر رکھنا نہیں آیا۔ میں ایف اے کر کے  لاہور آ گیا۔ پڑھائی اور نوکری ساتھ ساتھ چلتے رہے۔ یونیورسٹی سے فارغ ہوتے ہی شادی کر لی۔ شادی کرتے وقت کریئر کے بارے میں زیادہ نہ سوچا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

دراصل میں جن سخت حالات سے گزر کر آیا میرا ناکامی کا ڈر اور خوف ختم ہو چکا تھا۔ البتہ شادی  کے بعد جب بیوی اور ایک بچے کے ہمراہ زندگی کا سامنا کرنا پڑا تو ایک بار پھر ناکامی کا خوف دل میں امڈ آیا ہے۔ آج حوصلہ اور امید دلانے والے کم رہ گئے ہیں لیکن میں یہ ذمہ داری خود لے رہا ہوں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply