امریکہ کی عدالتی شکست۔۔ڈاکٹر ندیم عباس

امریکہ میں انتقال اقتدار کا عمل مکمل ہوچکا ہے، بائیڈن نے امریکی صدر کی حیثیت سے ذمہ داریاں سنبھال لی ہیں۔ دنیا بھر میں اس امید کا اظہار کیا جا رہا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے دنیا میں جن ظالمانہ اور غیر انسانی پالیسیوں کو اختیار کیا تھا، نئے امریکی صدر انہیں فوراً واپس لے لیں گے۔ اگرچہ ماہرین کہہ رہے تھے کہ یہ امریکی اسٹیبلشمنٹ کے فیصلے ہیں اور نئی انتظامیہ بھی اس میں زیادہ تبدیلی نہیں کرسکے گی۔ ایران کے حوالے سے امریکی پالیسی کے خدوخال کچھ واضح ہونا شروع ہوئے ہیں۔ سیکرٹری خارجہ ٹونی بلنکن نے روب مالے کو ایران کے لیے نمائندہ مقرر کیا ہے۔ روب مالے وہی امریکی سفارت کار ہیں، جنہوں نے 2015ء میں ایران امریکہ معاہدہ کرانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ اسرائیلی اور سعودی حلقے انہیں نمائندہ بنانے پر تنقید کر رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ وہ ایران کے لیے بڑا نرم رویہ رکھتے ہیں۔ انہوں نے ابھی سے لابنگ شروع کر دی ہے اور میڈیا پر بار بار ایسی خبریں چلوائی جا رہی ہیں کہ روب مالے مخالف آوازوں کو کوئی اہمیت نہیں دیں گے اور یکطرفہ طور پر معاہدے کی طرف جائیں گے۔

ایران اور دنیا کی طاقتور اقوام کے درمیان اس معاہدے کو دنیا بھر میں ڈسکس کیا جا رہا ہے اور مختلف تجاویز سامنے آرہی ہیں۔ فرانس کے صدر نے سعودی عرب کو اس معاہدے میں شامل کرنے کی بات کی تھی۔ اسے ایران نے سختی سے مسترد کر دیا اور یہ واضح کیا کہ معاہدہ ہوچکا ہے، اس کے فریق واضح ہیں، اب فقط ایک صورت ہے کہ امریکہ اس معاہدے میں واپس آجائے اور ان غیر قانونی، غیر اخلاقی اور غیر انسانی پابندیوں کو ہٹا دے۔ امریکہ کے موجودہ صدر جو بائیڈن نے الیکشن مہم میں اعلان کیا تھا کہ وہ ایران کے ساتھ معاہدے میں واپس آجائیں گے۔ کچھ ماہرین کو امید تھی کہ وہ چند ابتدائی دنوں میں ہی اس معاہدے میں واپس آکر امن عمل کو آگے بڑھائیں گے، مگر انہیں ان کے اقدامات سے مایوسی ہوئی۔ جس طرح بائیڈن نے مسلمان ممالک پر سے ویزا پابندیاں اٹھائیں اور دیگر آرڈیننس جاری کر دیئے، اسی طرح ان پابندوں کو بھی اٹھانے کا اعلان کر دیتے تو ہم ان سے اچھے کی امید رکھ سکتے تھے۔ مگر انہوں نے حیلے بہانے سے اس معاہدے میں دوبارہ شمولیت کو تاخیر کا شکار کیا ہے۔

معاہدے کے مخالفین اور جنگ کے حامی بڑی بھدی دلیل دیتے ہیں کہ امریکہ کو یکطرفہ طو رپر معاہدے میں واپس نہیں جانا چاہیئے۔ عجیب منطق ہے؟ جب امریکہ یکطرفہ طور پر اقوام متحدہ سے منظور شدہ ایک معاہدے سے بغیر کسی وجہ کے نکلا ہے تو اسے یکطرفہ ہی واپس آنا ہوگا۔ یہ سوال تو امریکی انتظامیہ سے بنتا ہے کہ وہ معاہدے کی یکطرفہ خلاف ورزی پر ہرجانہ ادا کرے، کیونکہ پچھلے تین سالوں میں یکطرفہ ظالمانہ پابندیوں سے اسلامی جمہوری ایران کا بڑا اقتصادی نقصان ہوا ہے اور معاہدے کرنے والی اقوام معاہدے پر عمل نہیں کرا سکیں۔ اب اس بات کو مسئلہ بنائے ہوئے ہیں کہ پہلے ایران ان تمام اقدامات کو واپس لے اور یورینیم کی افزودگی روکے، پھر ہم معاہدے میں واپس آئیں گے۔ حالانکہ یہ کوئی مسئلہ نہیں ہے، امریکہ معاہدے سے نکلا تھا، وہ واپس آجائے، پھر ایران کو یہ کہنے کی پوزیشن میں آئے گا کہ اسلامی جمہوریہ ایران بھی ان اقدامات کو واپس لائے، ورنہ امریکہ کے پاس یہ کہنے کا کوئی اخلاقی و قانونی جواز نہیں ہے۔

ایران نے ان ظالمانہ پابندیوں کو 2015ء میں ہوئے معاہدے کی خلاف ورزی قرار دیا اور امریکہ کے خلاف اقوام متحدہ کی بین الاقوامی عدالت انصاف میں شکایت دائر کر دی، امریکہ نے یہ کہا کہ یہ مقدمہ بین الاقوامی عدالت انصاف کے دائرہ اختیار میں نہیں ہے، جسے عدالت نے رد کرتے ہوئے فیصلہ ایران کے حق میں کر دیا۔ اس فیصلے کو ایران کی بڑی قانونی کامیابی قرار دیا جا رہا ہے، امریکی دلائل ریت کی دیوار ثابت ہوئے اور عدالت نے ایران کے حق میں اصولی فیصلہ دے دیا۔ امریکی وزارت خارجہ نے اس پر مایوسی کا اظہار کیا ہے۔ عدالت کے سربراہ عبدالقوی احمد یوسف نے امریکہ کی اس دلیل کو رد کر دیا۔ جب طاقت کی جگہ دلیل کی بات سنی جائے تو وہی لوگ جیت جاتے ہیں، جو دلیل و برہان کی بات کرتے ہیں۔ امریکہ ہر جگہ اپنی دھونس چلانا چاہتا ہے اور صرف اسی فیصلے کو بین الاقوامی قانون و اخلاقیات پر مبنی قرار دیتا ہے، جو اس کے حق میں آئے اور جو فیصلہ اس کے خلاف آئے، اس پر نپے تلے الفاظ میں تنقید کرکے اس پر عمل کی زحمت نہیں کی جاتی۔

Advertisements
julia rana solicitors

اس فیصلے کے بعد ہونا تو یہ چاہیئے کہ امریکہ اپنے رویئے پر غور کرے اور ان اقدامات کو واپس لے، جن کی وجہ سے اسے بین الاقوامی سطح پر ہزیمت اٹھانی پڑی ہے۔ ویسے تو اسرائیل بھی غزہ کے گرد دیوار بنانے کے معاملے پر اسی عدالت سے مقدمہ ہار چکا ہے، مگر طاقت کی زبان کو ہی قانون کا درجہ حاصل ہے، اس لیے عملی طور پر اس نے کچھ نہیں کیا۔ اس طرح کی عدالتوں کے فیصلے صرف مسلمان ممالک کے دھمکانے کے لیے ہوتے ہیں۔ ادھر سے پاکستان کے خلاف فیصلہ آتا ہے اور ادھر پاکستان کے اکاونٹ سے کئی ملین ڈالرز کی رقم جبری طور پر برطانوی کمپنی کے اکاونٹ میں منتقل کر دی جاتی ہے۔ امریکہ نے ایران کے خلاف، اسرائیل نے اہل فلسطین کے خلاف اور انڈیا نے کشمیر کے خلاف ہر طرح کے بین الاقوامی قانون اور معاہدات کو ردی کا کاغذ سمجھا ہے۔

Facebook Comments

ڈاکٹر ندیم عباس
ریسرچ سکالر,اور اسلام آباد میں مقیم ہیں,بین المذاہب ہم آہنگی کیلئے ان کے کام کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply