عرب و عجم کی زبان۔۔حسان عالمگیر عباسی

جب کھل کے مقدسات کی مخالفت ممکن نہ رہے تو عربی سے نفرت بے بسی اور انتقامی کارروائی سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ اگر یہ عرب کا کلچر ہے تو قرآن غلاف سے نکال کر عرب بھیج دینا چاہیے کیونکہ یہ طاقوں میں سجانے، آنکھوں سے لگانے، تعویز پلانے، خوشبو میں بسانے، اور قول و قسم کے لیے نہیں بلکہ پڑھنے، سمجھنے، سمجھانے، عمل کرنے اور نافذ کرنے کے لیے ہے۔

اگر یہ واقعی عرب کی زبان ہے تو نماز سندھی زبان میں ہی پڑھ لی جائے اور اذان پشتو میں دے دی جائے یا اسلام کی جگہ بت پرستی شروع کر لی جائے کیونکہ شرک تو ویسے بھی یہاں کا محبوب ثقافتی عمل ہے۔ ایوانوں میں بیٹھے حضرات نمائندگی کرنے کے لیے بھیجے جاتے ہیں لیکن رائے دہی کی آڑ میں نمائندگی نظر ہی نہیں آتی۔

قومی ثقافتی تصور اسی دن نابود ہو گیا تھا جب حضور ص نے کہہ دیا تھا کہ عربی عجمی کالا گورا سب ایک برابر ہیں یا دوسرے الفاظ میں ‘ہم مصطفوی، مصطفوی، مصطفوی ہیں۔’ قومی ثقافت سے نفرت غلط ہے لیکن دراصل ہم ملت ہیں اور ثقافت وہ ہے جو حضور اقدس پہ نازل ہوئی ہے۔ مکہ مکرّمہ میں حج کرنے جاتے ہیں تو ثقافت خطرے میں نہیں پڑی، مدینہ کی گلیوں میں حضور کے نغمے گاتے ہیں تو ثقافت محفوظ رہی، تو عربی زبان تو ان مقدسات کی طرح ہی ملی ورثہ ہے, اس سے دوری اختیار کی ہوئی ہے اور نتیجتاً سب انفرادیت پسند بنے ایک دوسرے سے دور بلکہ بہت دور ہیں۔

اخوت تو کہتے ہی اسے ہیں کہ مدینہ میں اگر کسی کو کانٹا چبھے تو محسوس وہ کرے جو بر صغیر میں بیٹھا ہے لیکن اس نعمت کو چھوڑ کے مقامی ثقافت پہ ہی شادیانے بجانے والے کم عقل تو ہو سکتے ہیں, مقدس ایوان میں دینی جمہور کے نمائندے نہیں ہو سکتے۔ محترم کی سوچ یا رائے محترم ہے لیکن رائے دہی جمہوری معاشرے میں عوامی نمائندگی کے خول میں بند رہے تو معزز ممبرانِ سینیٹ پہ جچتی ہے۔ جمہوریت کے چمچے عوامی رائے لے لیں, سب یک دل یک جان ہیں اور یک زبان ہیں کہ عربی سب زبانوں کی ماں ہے۔ اس سے بھی بڑھ کے یہ مختلف مسلمانوں اور ان کی زبانوں کو لڑی میں پرونے والی شکتی ہے۔

اللہ تعالیٰ نے مسجد جوڑنے کے لیے بنائی ہے۔ قرآن فرقہ واریت سے پاکی کے لیے نازل کیا ہے۔ مکہ مدینہ ملٹی کلچرل کمیونٹیز کا وہ مرکز ہے جو جوڑتا ہے اور جسے شوق ہے کہ کلچر کے نام پہ امت تقسیم کی جائے وہ پوری تاب سے شوق پورا کرے اور کرتارپور سکھوں کے مکے مدینے ہی ہو آیا کرے یا بھارت میں قائم کسی مندر کی طرف منہ پھیر لے اور شوق پورے کرے لیکن ایوان میں جمہور کی حقیقی نمائندگی کا حق ادا نہیں کرنا تو استعفی دے کر گھر چلتا بنے۔ فلسفہ ہوتا ہی جھاڑنے کے لیے ہے لیکن اس کا کانٹیکسٹ، موقع و محل ایوان سے ہٹ کر بھی مل جائے گا اور سامعین جن سے آپ مخاطب ہیں کو بھی دیکھنا ہوتا ہے کیونکہ ان کی ووٹ اور امانت بنیادی طور پہ ان کی سوچ کی عکاسی کا عہد و پیمان ہوتا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے مسجد بنائی اور بتایا کہ ایک رخ ہے اور اگر اس رخ سے بے رخی برتی تو فساد ہے کیونکہ ‘مسجد فلسفہ’ ہی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جائے گا, کوئی دائیں اور کوئی بائیں منہ پھیر لے گا اور نظم و ضبط کا بیڑا غرق ہونے سے کوئی نہ روک پائے گا۔ اسی طرح زبان بھی ہے جو زبان سے کہیں بڑھ کے تبرکات و مقدسات میں سے ہے۔ دین میں سے عربی کی علیحدگی دین کی موت ہے۔ ‘سب سے پہلے پاکستان’ جیسی فضولیات بولنے والوں کو پاکستان کی عوام سے پوچھنا چاہیے کہ اگر وہ مدینے و اسلام آباد میں سے کسی کو اختیار کرنے کا موقع پائیں تو وہ کیا لیں گے, جواب طمانچہ ہوگا جو یاد دلائے گا کہ:

بھلا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی
ثریا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا

ہمارا کلمہ ایک ہے۔ پاکستانیوں، فلسطینیوں، عربیوں، بنگالیوں، اور دیگر اقوام کا صرف ایک کلمہ ہے جو عربی میں ہے۔ راستے صرف دو ہی ہیں؛ کلمہ نکال کے باہر پھینک دیں یا کلچر کلچر کی رٹ لگائے بے وقوف بنانے سے دور رہیں۔ اس قوم کو اس کے معمار نے بتایا تھا کہ:

ان کی جمعیت کا ہے ملک و نسب پہ انحصار
قوت مذہب سے مستحکم ہے جمعیت تری

کلچر بنیادی طور پہ جوڑنے کا کام کرتا ہے اور کف افسوس ملنے کا مقام ہے کہ یہ منافقین انگریزی کو تو کلچر کے لیے تھریٹ نہیں تصور کرتے لیکن اسلام سے نفرت ظاہر کرنے کے لیے عربی کو ضرور گالیاں بکتے ہیں۔ ہم امت ہیں اور ہمارا کلچر نازل کیا گیا ہے اور جو اسے نہیں مانتا وہ قبلہ درست کرے یا قبلہ ہی بدل لے کیونکہ:

منفعت ایک ہے اس قوم کی نقصان بھی ایک
ایک ہی سب کا نبی دین بھی ایمان بھی ایک
حرم پاک بھی اللہ بھی قرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک

رہی بات زبان کی تو یاد رہے عربی ہمارے لیے زبان سے کہیں بڑھ کے ہے کیونکہ یہ ہمارے اور خدا کے رابطے کا ذریعہ ہے۔ اگر دنیا گلوبل ویلیج ہے، کوک پوری دنیا کی مشروب ہے، رابطوں کے ذرائع ایک سے ہی معروف ہیں، اور سماجی رابطوں کی ویب سائٹس بھی سرمایہ داروں کی جیبیں بھر رہی ہیں تو دنیائے اسلام امت کے تصور کو چھوڑ کے ‘نیشن اسٹیٹ تھیوری’ کیوں لے؟ اگر بین الممالک رابطے کی زبان انگریزی بقول آپ کے ثقافت کا کچھ نہیں بگاڑ سکی تو عربی ویسے ہی جوڑنے کا کام کر رہی ہے کیونکہ اسلام جوڑنے، امن اور سلامتی کا دین ہے۔

فرمان رسول ص ہے:
الدین نصیحة۔
دین خیر خواہی کا نام ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

حسان عالمگیر عباسی

Facebook Comments