تامل ٹائیگرز کے دیس میں (چوتھا حصّہ)۔۔خالد ولید سیفی

ہم لابی میں داخل ہوئے۔ بالکل سامنے کاؤنٹر تھا، جس پر 4 یا پانچ مرد و خواتین منیجرز بیٹھے ہوئے تھے۔ کاؤنٹر پر کمپیوٹرز کی قطار تھی، لابی کے بالکل وسط میں ایک بڑا پیانو رکھا تھا۔

“سنگِ مرمر پر چلوگے تو پھسل جاؤگے”، جیسا فرش تھا۔

ہر طرف ایک گہری خاموشی، کوئی ہلچل نہ تھی، کوئی چہل پہل نہ تھی، بس ہمارے علاوہ ایک اور کسٹمر کاؤنٹر پر کمرہ بک کرانے موجود تھا۔

120 ڈالر پر ہمیں چھٹے فلور پر کمرہ دے دیا گیا۔
ویٹر نے سامان اٹھاکر روم تک پہنچایا۔

رکشہ سے اترتے وقت ہم عرفان کو تاکید کر چکے تھے کہ، “یہیں کھڑے رہنا، کمرہ کنفرم کر کے کھانا کھانے چلتے ہیں۔”

کمرے میں پہنچ کر بکھری ہوئی سانسوں کو سنبھالا، کچھ سستائے، پاؤں پھیلائے، دو چار انگڑائیاں لیں، ہاتھ منہ دھویا، فریج کھول کر دیکھا، بہت کچھ تھا۔ بالکونی میں جھانکا، ایک طرف سڑک پر چلتی گاڑیاں نظر آئیں، رات کی وجہ سے سمندر نظر نہیں آ رہا تھا اور سامنے ویو کی دلکشی بھی نظروں سے اوجھل تھی۔

چند لمحے کمرے میں گزار کر نیچے اترے۔ بھوک زیادہ لگ رہی تھی، دوپہر کا کھانا بھی ٹھیک طرح سے نہیں کھایا تھا۔ بس ائیر لائن میں چاول کا ایک پیک ملا تھا۔ رات کے ساڑھے دس سے اوپر کا وقت ہو چکا تھا۔ ہم عرفان کے رکشے میں بیٹھے اور اسے کسی اچھے سے ہوٹل میں  جانے کا کہا۔ تو وہ فرمانے لگے، “بہت مشکل ہونے کا بھائی، کولمبو میں اس وقت ہوٹل بند ہونے کا ہے۔”

عرفان کے انکشاف سے ہمیں حیرانی ہوئی کہ پونے گیارہ بجے اتنے بڑے شہر میں ہوٹل کیسے بند ہونے کا ہے۔

“بس ایک جگہ کھلنے کا ہوتا ہے، اس جگہ تم کو کچھ ملنے کا ہے، گال فیس میں۔” عرفان بولا
” ٹھیک بھائی! جہاں کھلنے کا ہوتا ہے، وہاں لے جانے کا ہے۔” ہم بولے۔

رات کے باوجود موسم خوشگوار نہ تھا۔

عرفان گال فیس کی طرف چل پڑا۔ ہم اس کی باتوں سے محظوظ ہوتے رہے۔ گال فیس زیادہ دور نہ تھا۔ جس سڑک پر ہم تھے، یہ سیدھی گال فیس کو جاتی ہے۔ یہ جگہ کولمبو کا سی ویو ہے، مگر کولمبو کے وقت کے مطابق ہم تاخیر سے پہنچے تھے، اس لیے اس تفریحی مقام پر لوگوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر تھی، البتہ ایک دو جگہ کچھ بوس و کنار تھا۔

کھانے کو کوئی مرغوب غذا تو نہ تھی تاہم مچھلیوں کے چند ایک سٹال کھلے ہوئے تھے جہاں عرفان نے اپنی بولی میں ہمارے لیے آرڈر کیا۔

میں تھکا ہوا تھا یا حقیقت میں ایسا تھا کہ مجھے ماحول پراگندہ لگا۔ کولمبو سے میری پہلی ملاقات کچھ خوشگوار نہ تھی۔ رہی سہی کسر مرطوب موسم نے پوری کر دی تھی۔ اسی اثنا میں سامنے جب ایک پولیس موبائل گزری تو ایسے لگا جیسے کراچی کی پولیس ہو، اس سے مایوسی اور بڑھی۔

جب بے ذائقہ کھانا ٹیبل پر رکھ دیا گیا تو میں نے ہاشم کو بتایا کہ، “لگتا ہے اس بار ہم نے سیاحت کے لیے کسی غلط ملک کا انتخاب کیا ہے۔”
موسم، کھانا اور پولیس موبائل، سب مایوس کن تھے۔

خوراک سے متعلق حساس طبعیت کے مالک منیر احمد نے کھانے کو مشکوک نظروں سے دیکھا اور غیر معیاری قرار دے کر کھانے سے انکار کیا۔

ہم تو “لکڑ ہضم پتھر ہضم” قسم کے لوگ ہیں، ذائقے سے بے نیاز، آخری لقمے تک کھاتے رہے۔ مگر آخر تک پتہ نہ چلا کہ کیا کھاتے رہے۔
بل کی ادائیگی کی اور شکستہ ارمانوں کو سمیٹے بوجھل قدموں کے ساتھ ہوٹل پہنچے۔ پریشانی اس بات پر تھی کہ ہم نے غلط ملک کا انتخاب کر کے پیسہ اور وقت ضائع کیا ہے۔ پہلی رات کا تاثر یہ تھا کہ ہم کولمبو کے نام پر کراچی آئے ہیں۔

ہوٹل کے سامنے رکشہ چھوڑتے وقت عرفان کو بتایا کہ کل صبح دس بجے آ جائیں، کولمبو گھومتے ہیں۔ عرفان باتونی تھا مگر عیار، مکار، اور شاطر نہ تھا۔ اس کی سادہ مزاجی ہمیں اچھی لگی تھی۔ زیادہ ہوشیار بننے کی کوشش نہیں کرتا تھا۔ وہ ڈرائیور نما مخلوق میں پائی جانے والی اکثر بیماریوں سے پاک تھا۔ بس اس میں ایک مشکل تھی جو بھی ہم اس سے کہتے، پہلی بار وہ یہ جملہ ضرور دہراتا۔۔۔ “وہ بہت مشکل ہونے کا۔”

سفر کی تھکاوٹ سے بدن چور تھا۔ نیند کا موسم آنکھوں میں اتر آیا تھا۔ پلکیں بوجھل ہونے لگیں تھیں۔ ایسے موقعوں پر خالی بستر بھی شبِ زفاف کا بستر محسوس ہوتا ہے۔ جس کے بعد ہم بستر کے ہوگئے اور بستر ہمارا ہوگیا۔ نیند آئی، بھرپور آئی۔

صبح سب سے پہلے میری آنکھ کھلی۔ طلوعِ آفتاب نے ابھی تک نیلگوں آسمان کا بوسہ نہیں لیا تھا۔ نماز کے بعد میں نے دونوں دوستوں کو اٹھایا، اور خود بالکونی میں جا کر بیٹھ گیا۔ طلوعِ آفتاب سے قبل صبح کا حسن بے داغ ہوتا ہے، جو من کو بھاتا ہے۔

میں نے صاف آسمان دیکھا، نیچے بچھی ہوئی خالی سڑک دیکھی، جس پر اِکا دُکا گاڑیاں چلنا شروع ہوئی تھیں۔ سامنے تاحدِ نگاہ پھیلا ہوا سمندر دیکھا۔ صبح کا کولمبو رات کے کولمبو سے مختلف نظر آیا۔ میری کچھ ڈھارس بندھی کہ سری لنکا مایوس نہیں کرے گا۔ ہم اپنے سفر سے پشیمان نہیں ہوں گے۔

ہاشم نے اپنے ہاتھ کی بنائی ہوئی سلیمانی(قہوہ) چائے بالکونی میں مجھے تھما دی۔ سلیمانی چائے سے میرے تعلقات کبھی بھی اچھے نہیں رہے ہیں، مگر وقت کے خمار میں ڈوب کر ہر شے لطف دیتی ہے۔ میں دھیرے دھیرے چائے کے گھونٹ لیتا رہا، اس دوران سورج بھی آہستہ آہستہ آسمان کی دہلیز پر پاؤں رکھ کر اس کے لبوں کو چھوتے طلوع ہونے لگا تھا۔

9 بجتے ہی عرفان نے ہاشم کے موبائل پر فون کیا، اور بتایا کہ وہ ہوٹل کے باہر کھڑا ہمارا انتظار کر رہا ہے۔
ہم سے زیادہ عرفان کو جلدی تھی، بلکہ خدشہ تھا کہ یہ تگڑے کسٹمر کسی اور ڈرائیور کے ہاتھ نہ لگ جائیں، کیونکہ ہم اسے بتا چکے تھے کہ پورے چھ دن آپ ہمیں گھمائیں، اس لیے ہمارے بتائے ہوئے 10 بجے کے وقت سے ایک گھنٹہ قبل وہ پہنچ چکا تھا۔

ناشتے سے فارغ ہو کر نیچے آئے اور عرفان کے “ٹُک ٹُک” میں بیٹھ گئے۔

آج کولمبو شہر کی سیر تھی۔

کولمبو ایک قدیم شہر اور تجارتی بندرگاہ ہے، مؤرخین اس کی تاریخ دو ہزار سال قبل بتاتے ہیں۔ کولمبو آج بھی جدید و قدیم کا امتزاج لیے ہوئے ہے۔ سن 1505 میں پرتگالی یہاں وارد ہوئے اور سب سے پہلے انھوں نے ہی اس کو کولمبو کا نام دیا۔ برصغیر اور اس کے قرب و جوار میں برطانیہ سے قبل پرتگالیوں کا راج تھا جو واسکوڈے گاما کی سربراہی میں پرتگال سے پندرہویں صدی کے اواخر میں ہندوستان کی طرف آئے۔ پھر یہ سلسلہ چل نکلا، اور انھوں نے ان علاقوں کو اپنی نو آبادیات بنا دیا۔ بلوچ سردار حمل جیئند نے بھی بلوچ ساحل کی حفاظت کے لیے پرتگالیوں کے ساتھ کئی دلیرانہ معرکہ آرائیاں کیں۔ جو ایک درخشاں تاریخ ہے۔ پرتگالیوں کے بعد سری لنکا 1802 سے 1948 تک برطانوی نو آبادی بنا۔

کولمبو میں جدید طرزِ تعمیر کے ساتھ قدیم طرزِ تعمیر کی خوبصورت عمارتیں بھی ایستادہ ہیں، جن میں پرانا پارلیمنٹ ہاؤس، صدارتی محل، کولمبو میوزیم، میونسپل آفس، اور دیگر قابلِ ذکر ہیں۔

عرفان ہمیں صدارتی محل لے گیا، سخت سیکورٹی کے باعث وہاں زیادہ ٹھہرنا ممکن نہ ہوا۔ باہر باہر سے اس پر نظر ڈالی۔ صدارتی محل کولمبو کے شہری علاقے Mawtha میں واقع ہے۔ قدیم طرز کی ایک خوبصورت عمارت ہے، جو 1804 کو تعمیر کی گئی۔ ایک اندازے کے مطابق اس میں انتیس گورنر اور چھ صدر رہائش پذیر رہے ہیں۔

پرانی پارلیمنٹ کی عمارت دیکھی، یہ قدیم طرز کی عمارت ہے جو برطانیہ دور میں بنائی گئی ہے۔ یہاں اتر کر کچھ تصویریں لیں، موجودہ پارلیمنٹ کی جدید عمارت کولمبو سے کچھ فاصلے پر سری جے وردھنے پورا کوٹے کے علاقے میں تعمیر کی گئی ہے۔ جس کا ذکر آگے آئے گا۔

جب ہم کولمبو میں تھے، اس وقت وہاں سیاسی کشیدگی پائی جاتی تھی جو بعد میں صدر متھری پالا سری سینا کی جانب سے وزیراعظم رانیل وکرما سنگھے کی معزولی پر منتج ہوئی۔ تاہم سری لنکن سپریم کورٹ نے صدر کے اس فیصلے کو تسلیم نہیں کیا اور پارلیمنٹ بحال کر دی۔ صدر نے وکرماسنگھے کو معزول کرکے مہندا راجا پاکشے کو وزیراعظم نامزد کر دیا تھا۔ پاکشے سری لنکا کا سابق صدر بھی رہا ہے اور اسی کی صدارت میں تامل ٹائیگرز کو شکست ہوئی تھی اور تامل مزاحمتی لیڈر پربھاکرن مارے گئے تھے۔ پاکشے دو ماہ بعد تحریک عدم اعتماد میں ناکام ہو کر مستعفی ہوگئے، اور وکرما سنگھے ایک بار پھر وزیراعظم کے عہدے پر براجمان ہوئے۔

کولمبو کی سڑکیں اتنی زیادہ کشادہ نہ تھیں لیکن معیار اور صفائی میں بے مثال تھیں۔ بلکہ پورا شہر صاف ستھرا تھا۔ کولمبو میں صفائی نصف ایمان تھی، اور اپنے ہاں گندگی اٹوٹ انگ ہے۔

شہر کے ہر چوراہے یا خاص مقام پر بدھا کا مجسمہ نصب دکھائی دیتا ہے۔ جو کہیں آلتی پالتی مارے بیٹھے ہوئے اور کہیں کروٹ کے بل لیٹے ہوئے ہوتے ہیں۔

شہر کے وسط میں دورِ غلامی کی بھی کچھ یادگاریں بنائی گئی ہیں۔ ایک یادگار پر کھڑے ہو کر ہم نے تصویر بنائی جس میں ایک غریب سری لنکن کسی سگار پیتے لاٹ صاحب کی بگھی کھینچ رہے تھے۔ سری لنکا نے برطانیہ سے 1948 کو آزادی حاصل کی ہے۔

” کولمبو کیسا ہونے کا؟” عرفان نے ہماری طرف گردن موڑ کر پوچھا۔
“بہت اچھا ہونے کا” ہم نے جواب دیا۔
“ابھی بہت جگہ تم کو گھمانے کا، پٹہ بھی لے جانے کا، بڑا مسجد دکھانے کا۔”

Advertisements
julia rana solicitors london

گرمی بہت تھی، مگر ابھی آدھا دن باقی تھا، ہم بھی یہی چاہتے تھے کہ زیادہ سے زیادہ کولمبو شہر گھومیں کیوں کہ کل ہمیں کولمبو کی حدود سے باہر جانا تھا۔

Facebook Comments

حال حوال
یہ تحریر بشکریہ حال حوال شائع کی جا رہی ہے۔ "مکالمہ" اور "حال حوال" ایک دوسرے پر شائع ہونے والی اچھی تحاریر اپنے قارئین کیلیے مشترکہ شائع کریں گے تاکہ بلوچستان کے دوستوں کے مسائل، خیالات اور فکر سے باقی قوموں کو بھی آگاہی ہو۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply