یعقوب اس کے گھٹنے پر ہاتھ مار کر قہقہے میں لوٹنے لگا۔ ’’تم اب بچّے نہیں رہے۔ ماشا اللہ سمجھ دار ہو۔‘‘
باتوں کے دوران چائے والا آ گیا۔ نذیر نے پیالیوں میں چائے ڈالی۔
کاریگرچائے پی کر اُٹھا اور انگڑائی لیتے ہوے اس نے اپنی کمر کا پٹاخہ نکالا۔
نذیر نے اسے انگڑائی لیتے ہوے دیکھا تو آج کی رات جو واقعہ پیش آنے والا تھا اس کے تصوّر سے اس کے خون میں سنسنی پھیل گئی۔ اس کا ذہن یعقوب کے فحش مذاق سے نکل کر یکایک کہیں اور پہنچ گیا۔ اسے چاچی خیرالنسا کا خیال تک نہ آیا کیونکہ اس کا ذہن خیالات کے ایک اور بگولے کی زد میں آ کر اِدھراُدھر بھٹکنے لگا تھا۔ وہ واقعہ جو پینتالیس روز قبل پیش آیا تھا، آج اپنے انجام کو پہنچنے والا تھا۔ وہ بالکل نہیں جانتا تھا کہ آج کی شب اس کی امیدوں کو بر آنا تھا یا انھیں ہمیشہ کے لیے ملیامیٹ ہونا تھا۔ اس کے علاوہ آج شب جو واقعہ رونما ہونے والا تھا اس سے اس کی زندگی کو بھی خطرہ لاحق تھا۔ اگر وہ اس سے کامیاب گزر گیا تو ٹھیک ، ناکامی کی صورت میں اس کی موت بھی واقع ہو سکتی تھی۔
یہ بھی پڑھیں :میر واہ کی راتیں (قسط1)۔۔۔ رفاقت حیات
ڈیڑھ مہینہ پہلے چاچا غفور نے اسے پڈعیدن شہر ایک ضروری کام سے بھیجا تھا۔ وہ فجر کے وقت میرواہ سے نکلنے والی پہلی بس پر سوار ہو کر پہلے سیٹھارجہ پہنچا اور وہاں سے ٹرین پکڑ کر تقریباً دس گیارہ بجے پڈعیدن پہنچ گیا۔ اسے کام نمٹاتے نمٹاتے دوپہر ہو گئی۔ پھر ہوٹل میں کھانا کھانے کے بعد وہ سہ پہر کے وقت ریلوے اسٹیشن پہنچا اور ٹرین کا انتظار کرنے لگا جو پون گھنٹے بعد آنے والی تھی۔ بےچینی سے انتظار کرتے ہوے وہ پلیٹ فارم پر ٹہلنے لگا۔
پڈعیدن ریلوے اسٹیشن ایک جنکشن تھا، جہاں سے برسوں پہلے نوشہروفیروز، ٹھاروشاہ، کنڈیارو اور دیگر چھوٹے قصبوں کی طرف ریل جایا کرتی تھی، مگر اب بہت عرصے سے محکمۂ ریلوے نے اس راستے کو منسوخ کر دیا تھا؛ اب یہاں سے صرف مین لائن ٹرینیں ہی گزرتی تھیں۔ لیکن پڈعیدن ریلوے اسٹیشن کا پھیلاؤ اب بھی پہلے جیسا ہی تھا اور اب بھی اس کے نام کے ساتھ بہت سے اسٹیشنوں کی طرح جنکشن کا دم چھلا لگا ہوا تھا۔ اضافی لائنوں پر اکثر ایک یا دو انجن کھڑے شور مچاتے اور دھواں اگلتے رہتے تھے۔ پڈعیدن شہر ریلوے اسٹیشن کی عمارت کے عین مخالف سمت میں واقع تھا۔ وہ بھی اسی راستے سے پیدل چلتا ہوا یہاں پہنچا تھا۔
نذیر کی عادت تھی کہ وہ سفر کرتے ہوئے کسی خوبصورت نسوانی چہرے کی تلاش میں رہتا تھا تاکہ اس کی آنکھوں میں جھانک جھانک کر اور اپنی آنکھوں سے اس کے چہرے کو ٹٹول ٹٹول کر بیزارکن اور اکتاہٹ سے بھرے سفر کو اہم ترین یاد میں تبدیل کیا جا سکے۔ یہ معاملہ ایک ریلوے اسٹیشن سے شروع ہو کر دوسرے پر ختم ہو جاتا تھا مگر اس کی یاد ہمیشہ ذہن میں محفوظ رہتی تھی۔ تین مرتبہ وہ اس معاملے کو طول دینے کی کوشش میں اذیت اور خواری کا تجربہ کر چکا تھا۔
اس کا مشاہدہ تھا کہ عورتیں بھی اس تفریح سے لطف اندوز ہوتی تھیں۔ انھیں اپنے دیکھنے والوں پر اپنی مسکراہٹ، ہنسی اور ادائیں نچھاور کر کے کوئی روحانی مسرت حاصل ہوتی تھی۔ بعض عورتیں اپنے سینے کی نمائش کرنے سے بھی نہیں چوکتی تھیں، اسی لیے وہ باربار اپنے ڈوپٹے یا چادر کو درست طریقے سے اوڑھنے کا جتن کرتی رہتی تھیں اور اس طریقے سے مردوں کو لبھانے کی کوشش کرتی تھیں۔ ان خواتین پر اسے حیرانی ہوتی تھی جو مردوں کی گھورتی نظروں سے لاتعلق ہو کر شیرخوار بچوں کو دودھ پلانا شروع کر دیتی تھیں۔ وہ ہمیشہ ریل کے دوسرے درجے کی بوگیوں میں سفر کرتا تھا کیونکہ وہ ہجوم سے بھری ہوتی تھیں؛ اس طرح کبھی کبھار اسے کسی نسوانی جسم کو چھونے کا موقع بھی مل جاتا تھا۔ ان بوگیوں میں ہمیشہ نچلے اور نیم متوسط طبقے کی عورتوں کی بھرمار ہوتی تھی۔ نچلے طبقے والی خواتین لباس اور جسم کی صفائی سے بےنیاز ہوتی تھیں اور انھیں دیکھ کر گھن سی آتی تھی، جبکہ نیم متوسط طبقے کی عورتیں رنگین ملبوسات، اپنی پردہ پوشی، زیورات اور خوشبوؤں کے استعمال کی وجہ سے حقیقی نسوانی پیکر دکھائی دیتی تھیں۔ ان کی آنکھیں غمزوں کے ان دیکھے جہان آباد کرتیں۔ ان کے ہاتھوں اور بازوؤں کی سپیدی مردوں کی آنکھوں کو پوشیدہ نظاروں کے لیے تڑپاتی، جن کے دیدار کے نہ کوئی آثار ہوتے اور نہ امکان۔
پلیٹ فارم پر چہل قدمی کرتے ہوے اس نے ساری خواتین کو دیکھ لیا۔ اسے مایوسی ہوئی کیونکہ ان میں سے کوئی بھی اس کے معیار پر پوری نہیں اتری۔ اپنی جستجو کو مہمیز دیتے ہوے وہ پرلی طرف والے پلیٹ فارم کی جانب چلا گیا۔ وہاں پر اسے ایک حسین عورت نظر آئی۔ وہ کچھ دیر اسے تکتا رہا، مگر خاتون نے اس میں کوئی دلچسپی ظاہر نہیں کی۔ نذیر نے محسوس کیا کہ اس کے التفات کی ندی کا رخ کسی اور جانب تھا۔ وہ شخص پتلون اور شرٹ میں ملبوس تھا اور اس نے چشمہ بھی لگا رکھا تھا۔ نذیر اسے دیکھ کر احساسِ کمتری میں مبتلا ہو گیا کیونکہ اس نے کبھی پتلون شرٹ زیب تن نہیں کی تھی۔ وہ وہاں سے آگے بڑھ گیا۔ وہ ایسی پرکشش، حسین اور مقامی نوجوان خاتون کی تلاش میں تھا جو انگریزی لباس پسند نہ کرتی ہو۔
پلیٹ فارم کے دونوں سروں کے درمیان چکر لگاتے ہوئے اس نے ایک برقع پوش نوجوان خاتون کو منتخب کیا جوایک ادھیڑعمر عورت کے ساتھ پتھر کی نشست پر بیٹھی تھی۔ نذیر نے چائے کے سٹال کے پاس کھڑے ہو کر انھیں کچھ دیر تاکنے کے بعد اندازہ لگا لیا کہ ان کے ساتھ کوئی مرد نہیں تھا۔ اس نے محسوس کیا کہ وہ نوجوان پردہ نشین اس کی مسلسل تاکاجھانکی کا برا نہیں مان رہی تھی بلکہ وہ بھی باربار اپنی نظروں کے تیر اس کی طرف پھینک رہی تھی۔ نذیر نے اس کا انتخاب اس لیے نہیں کیا تھا کہ وہ بھی مسلسل اس کی نظروں کا جواب دے رہی تھی بلکہ اسے اس کی گہری سیاہ آنکھیں اور اس کی کمان جیسی بھنویں بےحد پرکشش لگ رہی تھیں۔ نجانے کیوں وہ ان میں اپنے لیے لیے پسندیدگی اور دلچسپی محسوس کر رہا تھا — ہو سکتا ہے یہ اس کی خوش فہمی ہو، مگر وہ جس طرح اسے دیکھ رہی تھی، اسے اس کے دیکھنے کا انداز بھا گیا۔ اس کا جوان حُسن اس کی آنکھوں سے آشکار تھا۔ وہ ٹکٹکی لگائے اس کے نازک سفید ہاتھوں، گلکاری والی چپلی میں محفوظ پیروں اور برقعے میں چھپے ہوے اس کے جسم کو دیکھتا رہا اور اس کے پوشیدہ حسن کی کشش کا اندازہ لگانے کی کوشش کرتا رہا۔ پھر وہ اس کے بازوؤں کا جائزہ لینے لگا۔ اس کی کلائی بہت نازک اندام اور اس کے ہاتھوں کی انگلیاں بہت گداز تھیں۔
نذیر چائے کے سٹال پر کہنی ٹکا کر، اس کے حسن سے مبہوت، اسے تکتا ہی رہا۔ چائے کے اسٹال کا مالک من موجی مگر زیرک شخص تھا۔ وہ اس کی نیت فوراً بھانپ گیا۔ نذیر کے پاس آ کر اس نے اس کے کان میں سرگوشی سے کہا، ’’استاد!موقع اچھا ہے۔ اسے گرماگرم چائے پلا کر اس کے دل میں گرمجوشی پیدا کرو۔ دودھ پتّی چائے فس کلاس ہو گی اور اسے پلانا میرا کام ہے۔‘‘ اس کے منھ سے نسوار کی بُو آ رہی تھی اور وہ ہنستے ہوے اپنے بدنما دانتوں کی نمائش کر رہا تھا۔
اس کی پیشکش سن کر نذیر چونکا۔ اس نے شک بھری نظر سے اس کی طرف دیکھا اور نفی میں سر ہلا دیا۔ اس نے اسے صرف اپنے لیے چائے لانے کے لیے کہا۔
پردہ نشین حسینہ کچھ دیر پہلے تک سکون سے بیٹھی اپنے فطری انداز میں آس پاس کی چیزوں کو دیکھ رہی تھی مگر اب اچانک اس کے وجود میں عجیب سی ہلچل نظر آنے لگی تھی۔ وہ بےچینی سے پہلو بدلنے لگی تھی اور باربار اپنے نقاب کو ہلا ہلا کر اس کی شکنیں درست کر رہی تھی۔ وہ بےاختیار ہو کر ذرا ذرا دیر بعد نذیر کو دیکھتی۔ اس کی ساتھی عورت سوگوار سے لہجے میں مسلسل کچھ بول رہی تھی۔ برقع پوش کی توجہ اس کی باتوں پر نہیں تھی، وہ ہوں ہاں کر کے اسے ٹال رہی تھی۔ دھیرے دھیرے اس کی آنکھوں میں فطری نرمی کی جگہ ایک بےقراری لیتی جا رہی تھی۔
نذیر اپنے ہونٹوں پر زبان پھیر کر چائے کے میٹھےپن کو محسوس کر رہا تھا۔ وہ ابھی تک چائے کے سٹال والے کی پیشکش میں الجھا ہواتھا۔ اسے برقع پوش کی توجہ حاصل ہو چکی تھی۔ اب وہ باربار اپنی گردن موڑ کر اسے دیکھ رہی تھی۔ اس کی اپنی طرف متوجہ بڑی بڑی آنکھوں کو دیکھتے ہوے نذیر کے خون میں پراسرار سی سرسراہٹ ہونے لگی تھی، جس کے باعث اس کی کنپٹیوں اور سر کے پچھلے حصے پر پسینہ آنے لگا تھا۔
بہت دیر سوچنے کے بعد نذیر نے سٹال والے کو بلایا اور اسے چائے بنانے کے لیے کہا۔ اس نے طے کر لیا تھا، اب بات کو آگے بڑھانا چاہیے۔
برقع پوش کی ساتھی ادھیڑعمر عورت جو بظاہر اب تک ان دونوں کے معاملے سے لاعلم تھی، لگتا تھا شاید اب اسے اس معاملے کی بھنک پڑ گئی تھی۔ وہ وقفے وقفے سے اپنی مسکراتی ہوئی شریر نظروں سے نذیر کی طرف دیکھنے لگی تھی۔
مٹی کے تیل سے جلتے چولھے پر چائے ابلنے لگی تو سٹال والے نے دھلی ہوئی صاف پیالیوں میں دودھ پتّی انڈیل دی۔ مسکراتے ہوئے اس نے نذیر کو آنکھ ماری مگر وہ اس وقت شدید بےچینی محسوس کر رہا تھا۔ اسے خدشہ تھا کہ کہیں پردہ نشین ناراض ہو کر انکار نہ کر دے یا غصے میں آ کر اسے گالیاں نہ دینے لگے۔ وہ ایسے اندیشوں میں گھرا چائے کے سٹال سے پرے ہٹ گیا اور ان کی نشست کے بہت پیچھے جا کر ٹہلنے لگا۔ اس نے اپنی کلائی اٹھا کر گھڑی دیکھی تو ریل کے آنے میں اب بھی پندرہ منٹ باقی تھے۔
چائے سٹال والا جھوم کر اپنی چال چلتا ان کے پاس پہنچا اور جھک کر سلام کرتے ہوے اس نے انھیں چائے پیش کی۔
برقع پوش نے ہچکچا کر نفی میں سر ہلایا اور بےاختیاری سے اس طرف دیکھنے لگی جہاں کچھ دیر پہلے وہ کھڑا تھا۔ اسے وہاں نہ پا کر وہ پریشان سی ہوئی۔ اس نے دائیں بائیں دیکھا مگر وہ اس کی نظروں سے اوجھل ہی رہا۔ اس کی اس کیفیت سے ادھیڑعمر خاتون لطف اندوز ہوتی رہی۔ اس نے معمولی سے ردوکد کے بعد چائے کے سٹال والے سے پیالیاں لے لیں۔
چند منٹوں کے بعد نذیر زیرِلب مسکراتا ہوا دوبارہ اپنی جگہ پر آ کھڑا ہوا۔ اسے دیکھ کر برقع پوش کی آنکھوں میں خفگی کی شدید لہر دکھائی دی، جبکہ اس کی ساتھی عورت پہلے والی جگہ پر اس کی دوبارہ موجودگی سے محظوظ ہوتی، چائے کی سُڑکیاں لیتی رہی۔
نذیر نے سوچا کہ جو عورتیں ناراض ہو جائیں انھیں منانے کا جتن بہرحال کرنا ہی پڑتا ہے۔ اس نے ارادہ باندھا کہ اگر وہ سیٹھارجہ کے اسٹیشن پر اُتری تو وہ اسے منانے کی خاطراس کے گوٹھ، یا اگر ممکن ہوا تو اس کے گھر تک اسے چھوڑنے ضرور جائے گا۔
نذیر نے ممنون نگاہوں سے چائے اسٹال والے کی طرف دیکھتے ہوے اپنی جیب سے پیسے نکال کر اس کی طرف بڑھائے۔ پیسے لیتے ہوئے سٹال والے نے اس کے قریب آ کر آہستگی سے کہا، ’’مرد کی شان ہوتی ہے کہ پسند آنے والی چیز کو اپنی مٹھی میں اچھی طرح کس لے۔ معشوق کے سامنے ڈٹ جائے اور کسی طرح پیچھے نہ ہٹے۔‘‘ اس کی بات سن کر نذیر نے مسکراتے ہوے اثبات میں سر ہلایا۔
بہت دور سے ریل کی سیٹی سنائی دی تو پلیٹ فارم پر انتظار سے اونگھتے ہوئے لوگ یک بہ یک ہوشیار ہو کر اس سمت دیکھنے لگے جدھر سے ریل آنے والی تھی۔ خوابیدہ اور خاموش پلیٹ فارم پوری طرح بیدار ہو گیا۔ سامنے کی پٹریوں سے سنائی دینے والی گڑگڑاہٹ کی آواز ٹرین کی آمد پر طوفانی گھن گرج میں تبدیل ہو گئی۔ پلیٹ فارم پر ٹرین کے رکتے ہی لوگوں نے اس پر سوار ہونے کے لیے کوششیں شروع کر دیں کیونکہ ٹرین مسافروں سے بھری ہوئی تھی۔ ہر بوگی کے دروازے پر لوگ آلتی پالتی مارے ہوئے بیٹھے تھے۔
نذیر کی کوشش تھی کہ جس بوگی پر بھی وہ دونوں عورتیں سوار ہوں، وہ بھی ان کے آس پاس ہی اپنے لیے جگہ تلاش کرے۔ وہ دونوں ٹرین پر سوار ہونے کی تگ و دو میں آخری بوگیوں تک چلی گئیں۔ دروازوں پر قبضہ جمائے ہٹ دھرم لوگ انھیں سوار ہونے کے لیے راستہ دینے پر تیار نہیں تھے۔ نذیر کو ان لوگوں پر غصہ آیا۔ کچھ دیر بعد اس کی برداشت جواب دے گئی تو ایک بوگی کے دروازے پر کھڑے ہو کر اس نے چیخناچلانا شروع کر دیا، تب کہیں جا کر انھیں اور اُسے بہ مشکل سوار ہونے کی جگہ مل سکی۔ نذیر چاہتا تو ہجوم کا فائدہ اُٹھا کر پردہ نشین خاتون کے جسم کو چھو کر ذرا سا محسوس کر سکتا تھا مگر اس نے اپنے آپ کو روکے رکھا اور ایسا کچھ نہیں کیا۔ پلیٹ فارم پر شتابی سے چلتے ہوے اس بےنام حسینہ کا جسم اسے بہت پرُکشش لگ رہا تھا۔ اس کی کمر نشیب میں واقع کسی سرسبز و شاداب وادی کی طرح طویل مشاہدے کی متقاضی تھی۔ وہ پرامید تھا کہ آنے والا وقت اس پر ایسے مشاہدات کے بہت سے در وا کرنے والا تھا۔
انجن کا ہارن بجتے ہی ریل چل پڑی۔ ان کی بوگی لوگوں سے کھچاکھچ بھری تھی۔ گھسٹ گھسٹ کر آگے بڑھتے ہوئے انھیں اور اسے آرام سے کھڑے ہونے کو تھوڑی سی جگہ مل گئی۔ وہ ان کے قریب کھڑا ہو گیا۔ ادھیڑعمر عورت اپنی پردہ نشین رفیق کی حفاظت کی خاطر ان دونوں کے درمیان کھڑی ہوئی تھی۔
کچھ فاصلے پر نذیر کو کنڈکٹرگارڈ دکھائی دیا۔ وہ فوراً اس کے پاس جا کراس سے نشست کے لیے درخواست کرنے لگا مگر وہ اسے روکھا سا جواب دے کر چلتا بنا۔ اس کے بعد اس نے گزرنے والے ایک پولیس کے سپاہی سے مدد چاہی تو اس نے تیس روپے کے عوض عورتوں کے لیے نشست کا بندوبست کر دیا۔ جب اس نے ادھیڑعمر عورت کو بتایا تو وہ حیرت سے اس کا منہ تکنے لگی۔ اس نے اپنی ساتھی خاتون کو اس کی پیشکش سے آگاہ کیا۔ اس نے اپنی مشکور نظروں سے نذیر کی طرف دیکھتے ہوے سر کے خفیف اشارے سے اس کا شکریہ ادا کیا، اور کسی ہچکچاہٹ کے بغیر وہ کچھ دور تک اس کے ساتھ جا کر اس نشست پر بیٹھ گئیں۔ وہ اس حسینہ کو اپنا قبلہ بنا کر ذرا فاصلے پر کھڑا ہو گیا، جبکہ وہ عورت احسان مندی سے اس کی جانب دیکھ رہی تھی۔
مختصر سے وقت میں یہ اس کی دوسری کامیابی تھی۔ وہ اس پر مسرور تھا مگر ساتھ ہی وہ یہ بات سوچ کر خوفزدہ بھی تھا کہ معلوم نہیں یہ دونوں کب اور کون سے اسٹیشن پر اتر جائیں۔ پڈعیدن سے سیٹھارجہ زیادہ دور نہیں تھا۔ درمیان میں صرف چار اسٹیشن پڑتے تھے۔ ہر اسٹیشن پر ریل کی رفتار کم ہونے پر اس کا دل ڈوبنے لگتا تھا اور جب گاڑی وہاں سے نکلنے لگتی تو وہ کچھ مطمئن ہو جاتا تھا۔ یہ عارضی ناامیدی اور عارضی اطمینان اس کے لیے بہت اذیت ناک تھا۔
جب ٹرین محراب پور جنکشن سے نکلی تو وہ ایک مرتبہ پھر پرامید نظروں سے ان کی طرف دیکھنے لگا۔ اسے ان کے چہروں پر بےچینی کے آثار نظر آنے لگے۔ ان کے باربار کھڑکی سے جھانکنے کے عمل سے اس کی ڈھارس بندھ رہی تھی۔ ڈیپارجہ کا گمنام اسٹیشن بھی چپکے سے گزر گیا اور اس کے بعد چھوٹی نہر بھی سرعت سے پیچھے چلی گئی۔ سیٹھارجہ آنے کو ہی تھا۔ ریل کی رفتار ایک بار پھر دھیمی ہونے لگی۔
اسے اپنی نظروں پر یقین نہیں آیا جب اس نے دیکھا کہ ان دونوں نے اپنا سامان اٹھا لیا تھا اور برقع پوش اپنے برقعے کو ٹھیک کرنے لگی تھی۔
ٹرین کے بریک چرچرائے اور اگلے ہی لمحے وہ تھم گئی۔
نذیر دقت سے ہجوم کے درمیان راستہ بناتا ہوا بوگی کے دروازے تک پہنچا اور لکڑی کی سیڑھیوں سے نیچے اُترا۔ وہ نیم پختہ پلیٹ فارم پر سفیدے کے قدآور درخت کے قریب کھڑا ہو گیا۔ اگلے ہی ثانیے اس نے ان دونوں کو بوگی سے اترتے ہوے دیکھا۔ نیچے اُترتے ہی برقع پوش جوان عورت نے بھرپور نظر وں سے اسے دیکھا، آنکھیں گھما کر اسے ایک اشارہ کیا اور سیڑھیوں والے پل کی طرف چل دی۔ پل کے قریب پہنچ کر ان کی نگاہیں کسی کو ڈھونڈنے لگیں۔ ایک دُبلا شخص ہانپتا کانپتا ان کے قریب آ کھڑا ہوا اور کِھیسیں نکال نکال کر ان سے باتیں کرنے لگا۔ نذیر اس آدمی کو دیکھ کر اندازہ لگانے کی کوشش کرتا رہا کہ اس کا ان سے کیا تعلق ہے؟ اس کا لباس میلاکچیلا تھا، سر کے بال بکھرے ہوے تھے اور چہرے پر شیو ابھری ہوئی تھی۔ اس نے پکوڑوں کا تھال اٹھایا ہوا تھا۔ وہ اپنی وضع قطع سے ادھیڑعمر خاتون کا شوہر معلوم ہوتا تھا کیونکہ وہ اس سے لہک لہک کر باتیں کر رہی تھی۔ وہ دونوں آپس میں بہت بےتکلف دکھائی دے رہے تھے۔ نذیر کو محسوس ہوا کہ وہ اسے کہیں دیکھ چکا تھا۔ اس نے اپنے ذہن پر بہت زور دیا مگراسے یاد نہیں آ سکا۔
سیٹھارجہ کی آبادی بھی اسٹیشن کی عمارت کے مخالف سمت تھی۔ پل کے ذریعے سے انھوں نے پٹریاں عبور کیں اور آبادی کی طرف جانے والے راستے پر چلنے لگے۔ قصبے کی آبادی کچھ زیادہ نہ تھی۔ دائیں طرف محلے اور گلیاں واقع تھیں جبکہ بائیں طرف کچھ دور جا کر سیٹھارجہ کا بازار شروع ہوتا تھا۔ بازار کی دکانیں کولتار سے بنی نئی سڑک کے دونوں طرف واقع تھیں۔ گارے اور سرخ اینٹوں سے بنی دکانیں بہت پرانی اور خستہ حال تھیں۔ نئی سڑک کی وجہ سے ان کی سطح بہت نیچی ہو گئی تھی۔ شام ڈھلنے والی تھی اس لیے خریداروں کی تعداد برائےنام تھی۔ قصبے کے لوگ یوں ہی اِدھراُدھر گھوم رہے تھے۔ کہیں کہیں بعض دکاندار کرسیاں بچھائے خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ وقفے وقفے سے کوئی سائیکل، گدھاگاڑی یا موٹرسائیکل سڑک سے گزر جاتی تھی۔
وہ پردہ نشین اب چونکہ ایک مرد کی معیت میں تھی اس لیے اس سے نگاہیں ملانا بہت مشکل تھا۔ نذیر سوچ رہا تھا کہ ہو سکتا ہے وہ یہیں رہتی ہو اور شاید اچانک کسی گلی میں مڑ جائے۔ اگر ایسا ہوا تو اسے کم از کم برقع پوش کا پتا معلوم ہو جائے گا۔ وہ ان سے کچھ فاصلہ رکھ کر ان کا تعاقب کر رہا تھا۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ کسی کو اس پر کسی قسم کا شک گزرے۔ چلتے چلتے اچانک برقع پوش عورت نے اسے مڑ کر دیکھا۔ اس کے مڑ کر دیکھنے کو نذیر نے تعاقب جاری رکھنے کا اشارہ سمجھا۔ اسے اندازہ ہونے لگا تھا کہ وہ یقینی طور پر اس قصبے کی رہنے والی نہیں ہے۔
قصبے سے باہر نکلنے والی سڑک پر ٹھری میرواہ جانے والی پرانی دُھرانی ایک بس کھڑی تھی۔ وہ تینوں اس پر سوار ہو گئے۔ بس چلنے میں ابھی دیر تھی۔ ذرا فاصلے پر نذیر کو ایک چھوٹی سی مانڈلی دکھائی دی۔ اس نے وہاں سے سگریٹ خرید کر سلگایا اور جلدی جلدی کش لے کر دھواں اُڑانے لگا۔
ابھی سگریٹ ختم بھی نہ ہوا تھا کہ ڈرائیور ہارن بجانے لگا۔ اس نے جلدی سے جوتے کے نیچے سگریٹ مسلا اور بس پر سوار ہو گیا۔ چند لمحوں میں بس چل پڑی۔ نذیر کو ان کے قریب کوئی خالی نشست نہ مل سکی۔
سڑک دو تین بل کھا کر قصبے سے باہر نکل جاتی تھی۔ قصبے کی آخری تعمیرات یعنی اسکول، ہاسپٹل، واٹر سپلائی، اور ٹاؤن کمیٹی وغیرہ پیچھے رہ گئے۔ پرانی گول باڈی بس کی کھڑکیوں کے شیشے اور چھت پر لٹکی آرائشی جھالریں ہل ہل کر مسلسل شور مچانے لگیں۔ بس کا انجن بھی شور مچانے لگا جبکہ بیٹھے ہوے اکثر مسافر اس ہنگامے سے بےنیاز اپنی باتوں میں مگن تھے۔
نذیر پیچھے بیٹھا ہوا باربار ان کی طرف دیکھے جا رہا تھا۔ برقع پوش وقفے وقفے سے گردن موڑ کر اس کی طرف دیکھ لیتی تھی، دو لمحوں کے لیے ہی سہی، وہ اس سے آنکھیں چار کر لیتا تھا، مگر آنکھیں چار کرنے سے اس کی تشفی نہیں ہو رہی تھی۔ وہ ان کے پاس تھال سنبھال کر بیٹھے ہوے پکوڑافروش کی جگہ لینا چاہتا تھا، اس اجنبی عورت سے اس کا نام پوچھنا چاہتا تھا، اس کے ساتھ ہنسنا اور قہقہے لگانا چاہتا تھا۔ ایسی اور نجانے کتنی خواہشوں کی منھ زور لہریں تھیں جو اس کے دل کے ساحل پر باربار زور سے اپنا سر پٹخ کر لوٹ جاتی تھیں۔ وہ آہیں اور ٹھنڈی سانسیں بھرنے کے سوا کچھ نہیں کر سکتا تھا۔
پکوڑافروش اور ادھیڑعمر عورت آپس میں جس طرح باتوں میں محو تھے، انھیں دیکھ کر اسے یقین ہوتا جا رہا تھا کہ یہ لوگ بھی اس کے ہمراہ بس کے آخری اسٹاپ پر ہی اُتریں گے۔
کھڑکھڑاتی ہوئی بس ہر چھوٹے بڑے بس اسٹاپ پر رکتی آگے بڑھ رہی تھی۔ مغربی افق پر سورج ڈوبنے سے پہلے آخری دم لے رہا تھا۔ اس کی رنگت گہری سرخ تھی لیکن اس کی روشنی ماند پڑتی جا رہی تھی۔ آسمان پر دور تک شفق پھیلی تھی، اس کی زردی اور سرخی نے زمین کو گلنار بنا رکھا تھا۔ کچھ دیر قبل اپنی جزئیات کے ساتھ دکھائی دینے والے کھجور، کیکر، شیشم اور سفیدے کے پیڑوں کے رنگ ماند پڑنے لگے تھے اور ان کی جزئیات غائب ہونے لگی تھیں۔ گندم کے نوخیز پودوں کی شوخ رنگت بھی شام کے ملگجےپن میں گم ہونے لگی تھی۔ راستے میں پڑنے والے مختلف گوٹھوں کے مکانوں سے اٹھنے والے دھویں کی بو، دھواں چھوڑتی بس کے ڈیزل کی بو سے گھل مل رہی تھی۔
نذیر پر بیزاری اور اکتاہٹ طاری ہونے لگی۔ اس نے برقع پوش کو ملامت کرتے ہوے اپنا سر اگلی نشست کی پشت پر ٹکا دیا۔ اس کے ذہن میں پڈعیدن اسٹیشن سے شروع ہونے والے واقعے کی جزئیات گھومنے لگیں۔ اس نے خود کو احمق خیال کیا جو ایک حماقت پوری سنجیدگی اور تندہی سے انجام دیتا آ رہا تھا۔ وہ یہ بات بخوبی جانتا تھا کہ اسے آگے بیٹھی عورت سے محبت نہیں تھی، پھر کیوں پچھلے بہت سے وقت سے وہ اس کے خیالات و احساسات پر چھائی ہوئی تھی؟ اس نے خود کو سمجھایا کہ یہ معاملہ کھیل جیسا تھا، اس میں زیادہ سنجیدگی برتنا اصول کے خلاف تھا۔
بہت دیر بعد ایک بار پھر بالآخر پردہ نشین نے اسے مڑ کر دیکھا۔ نذیر کئی لمحوں سے اس کی آنکھیں دیکھنے کا منتظر بیٹھا تھا۔
سورج غروب ہونے کے بعد دھیرے دھیرے آسمان سے شفق بھی معدوم ہو گئی۔ اطراف میں اندھیرا پھیلنے پر بس کے اندر روشنیاں جلا دی گئیں۔ بس میں داخل ہونے والی ٹھنڈی ہوا کے جھونکوں سے بچنے کے لیے لوگوں نے کھڑکیاں بند کر لیں۔
بس ایک تاریک کھوہ میں سفر کر رہی تھی۔ گردوپیش کے تمام مناظر اندھیرے کی چادر میں چھپنے کی وجہ سے بس کا ماحول بےکیف اور یکساں ہو گیا، جس کی وجہ سے نہ چاہتے ہوے بھی نذیر کو اونگھ سی آ گئی۔ بہت دیر بعد جب بس ایک جھٹکے سے اپنے آخری سٹاپ پر کھڑی ہوئی تو نذیر فوراً ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا۔
اس نے ان تینوں کو بس سے اترتے دیکھا تو اس کی خوشی کا کوئی حساب نہ رہا۔ وہ اپنی توقع پوری ہونے پر مسرور تھا کہ وہ لوگ یہیں رہتے تھے۔ اب اسے پورا یقین ہو گیا کہ اس نے پکوڑافروش کو ضرور کہیں دیکھا ہو گا۔
دیگر قصبوں کی طرح ٹھری میرواہ کا بازار بھی ایک طویل سڑک پر واقع تھا۔ یہ طویل سڑک ایک جانب سے قصبے میں داخل ہو کر دوسری جانب سے میرواہ نہر تک چلی جاتی تھی۔ اس کے اطراف چھوٹی چھوٹی گلیوں کا جال بچھا تھا۔ رات ابھی شروع ہی ہوئی تھی مگر قصبے کی بیشتر دکانیں بند ہو چکی تھیں۔ چائے خانے تقریباً سبھی کھلے ہوئے تھے اور وہاں سے ٹی وی پر چلنے والے پروگراموں کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔
بس سے اترنے کے بعد وہ تینوں اسی مرکزی سڑک پر چلنے لگے۔ نذیر ایک بار پھر ان کا تعاقب کرنے لگا۔
پہلے چاچا غفور کے مکان والی گلی اور اس کے بعد اس کی دکان والی گلی پیچھے رہ گئی، مگر اس نے پروا نہیں کی اور دھیرے دھیرے آگے بڑھتا رہا۔ اسے تجسس تھا کہ وہ تینوں کون سی گلی میں داخل ہوتے ہیں، مگر وہ لوگ کسی گلی میں داخل ہونے کے بجائے سیدھے چلتے چلے گئے۔ آگے جہاں سے سڑک بل کھا کر نہر کی طرف جاتی تھی، وہ تینوں اسی راستے کی طرف مڑ گئے۔ نذیر ان کے پیچھے، مگر ان سے خاصی دور، سڑک پر کھڑا انھیں دیکھتا رہا۔
نہر کے پُل سے پہلے قصبے کی آبادی ختم ہو جاتی تھی۔ نذیر تیزرفتاری سے دوڑتا ہوا پل تک پہنچا تو وہ لوگ پل سے اتر کر آگے بڑھ گئے تھے۔ نذیر ہانپتا کانپتا پل پر کھڑا انھیں تاریکی میں تحلیل ہوتے ہوے دیکھتا رہا۔ اسے معلوم تھا کہ پل سے اترنے والی کچی سڑک گوٹھ ہاشم جوگی کی طرف جاتی تھی۔ وہ تیرگی میں چھوٹے سے پل مبہوت کھڑا رہا۔ اسے پردہ نشین کی آنکھیں یاد آ رہی تھیں، وہ ایک بار پھر ان میں جھانکنا چاہتا تھا، انھیں جی بھر کر دیکھنا چاہتا تھا۔ وہ ٹھنڈی سانس بھرتا پل کی دیوار پر بیٹھ گیا۔ اس کے لیے اس وقت آگے جانا ممکن نہیں تھا۔ پل کے نیچے سے گزرتے پانی کی وجہ سے وہاں بےحد خنکی محسوس ہو رہی تھی۔ وہ دیوار سے اٹھ کر چند قدم اس طرف بڑھا جس طرف وہ لوگ گئے تھے۔ مزید آگے بڑھنے کی وہ ہمت نہ کر سکا۔ اس نے دور واقع گوٹھ کی طرف دیکھا جہاں دوچار ٹمٹماتی ہوئی روشنیاں دکھائی دے رہی تھیں۔
اس شب وہ سونے کے لیے محراب دار برآمدے میں چارپائی پر بچھے اپنے بستر پر لیٹا تو اسے محرابوں کی جگہ دو بڑی بڑی آنکھیں دکھائی دینے لگیں۔ کبھی وہ آنکھیں بازو بن کر اس کے وجود کے گرد پھیل جاتیں اور کبھی ہونٹ بن کر اس کی سماعت میں مبہم لیکن مسحور کر دینے والی سرگوشیاں کرنے لگتیں۔ نیند کے دوران خواب میں اس نے ان آنکھوں کو زیرِزمین غلام گردش میں تبدیل ہوتے دیکھا، وہ جس میں داخل ہوا تو پھر اسے وہاں سے نکلنے کا راستہ نہیں مل سکا۔ غلام گردش میں وہ ان آنکھوں کی مالکن کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے تھک گیا مگر وہ اسے کہیں دکھائی نہیں دی۔ صبح کو چاچی خیرالنسا نے جب اسے نیند سے جگایا تو وہ ہانپ رہا تھا اور اس کا چہرہ پسینے میں بھیگا ہوا تھا۔
وہ آنکھیں اس کے اعصاب پر اتنی بری طرح سوار ہوئیں کہ اگلے کئی روز تک وہ گوٹھ ہاشم جوگی کے پھیرے ہی لگاتا رہا، لیکن اسے معلوم ہی نہیں ہوسکا کہ وہ پردہ نشین کون تھی اور کس کے گھر میں رہتی تھی۔ نذیر کبھی پیدل اور کبھی سائیکل پر گوٹھ کے آس پاس منڈلاتا رہا۔ وہ وقفے وقفے سے بہانہ بنا کر دکان سے چھٹی لیتا اور آدھے پون گھنٹے میں چکر لگا کر لوٹ آتا۔ ایک مرتبہ اس نے گوٹھ سے آنے والے راستے پر نگاہ رکھنے کے لیے گنے کے کھیت کو منتخب کیا۔ وہ بہت دیر تک وہاں دبک کر بیٹھا رہا اور گاؤں آنے جانے والوں پر نظر رکھتا رہا، مگر اسے خاطرخواہ کامیابی نہیں مل سکی۔ اس نے گوٹھ ہاشم جوگی آنے جانے والے تمام راستوں کا پتا چلایا اور وہ وہاں بھی پہرہ دیتا رہا، مگر کوئی نتیجہ برآمد نہ ہو سکا۔
تین مرتبہ اسے برقع پوش عورتوں کو دیکھ کر اس پردہ نشین کا گمان گزرا۔ اس نے تندہی سے ان کا تعاقب کیا۔ ان کے پیچھے پیچھے چلتا ہوا وہ نہر عبور کر کے قصبے کی طرف نکل آیا اور بازار کے اطراف کی گلیوں میں گھومتا پھرا۔ نذیر کے لیے عورتوں کو ان کی چال کے ذریعے پہچاننا مشکل تھا مگر جب اس نے ایک نظر ان کی آنکھوں میں جھانکا تو اسے فوراً پتا چل گیا کہ وہ برقعے کی وجہ سے دھوکا کھا گیا تھا۔
اسے اپنی کوششوں کے رائیگاں چلے جانے پر بےحد قلق تھا۔ وہ اپنے آپ سے خفا بھی تھا کہ اس معاملے میں وہ کس قدر انہماک سے مبتلا ہو گیا تھا۔ ا یک ایسی عورت کے لیے اس کی جستجو اور خواری کے کیا معنی؟ اس کے لیے جس سے ملاقات کرنا ناممکن، جسے دیکھنا شدید دشوار اور جس سے گفتگو کرنا بالکل محال تھا۔ اس نے خود کو ذلیل ترین آدمی تصور کیا۔ اس نے اپنے آپ سے پیمان باندھا کہ وہ آئندہ اس کے بارے میں بالکل نہیں سوچے گا۔ اس نے غصے میں آ کر اپنے آپ سے پیمان تو باندھ لیا مگر وہ اچھی طرح جانتا تھا، اس کی ذات کے پاتال میں پیوست دو آنکھیں اسے بےقراری سے اپنی جانب بلاتی رہیں گی اور ان کے بلاوے پر وہ اپنا پیمان، اپنا غصہ وغیرہ سب فراموش کر دے گا، اور ایک نئے عزم کے ساتھ پردہ نشین کی جستجو میں نکل پڑے گا۔
ایک دوپہر کو نذیر وڈیرے کریم بخش جلبانی کی حویلی میں سلائی شدہ کپڑے پہنچا کر لوٹ رہا تھا کہ اسے ایک گلی میں وہی پکوڑافروش اپنے پکوڑوں سے بھرے تھال سمیت نظر آیا۔ اسے دیکھتے ہی اس کے پاؤں ساکت ہو گئے۔
پکوڑافروش ایک دیوار کے سائے میں تھال زمین پر رکھ کر بیٹھا تھا۔ اس کے آس پاس بچوں نے حلقہ بنا رکھا تھا اور شور مچا مچا کر وہ سب اس سے پکوڑے مانگ رہے تھے۔ وہ ان کی مانگ پر ہنستا ہوا اخباری کاغذ کے کٹے ہوے ٹکڑوں پر پکوڑے رکھ کر، ان پر مسالہ چھڑک کر بچوں کو تھما دیتا۔ جس بچے کو پکوڑے مل جاتے وہ اسے پیسے تھما کر بھاگ جاتا۔ اس کی چابکدستی کی وجہ سے تھوڑی ہی دیر میں بچوں کی بھیڑچھٹ گئی۔ پکوڑوں سے بھرا تھال تقریباً آدھا فروخت ہو چکا تھا۔ پکوڑافروش اپنی آمدنی کا حساب لگا کر پیسے اپنی جیب میں رکھنے لگا۔ اس دوران اس کی نظر اس سے کچھ فاصلے پر کھڑے نذیر پر جا ٹھہری، جو اس سے بظاہر لاتعلقی ظاہر کرتا، یوں ہی اِدھراُدھر دیکھ رہا تھا۔
پکوڑافروش ٹھنڈی سانس بھرتے ہوے اسے شک بھری نظر سے دیکھتا اٹھ کھڑا ہوا۔ اپنے کاندھے سے انگوچھا اُتار کر اپنے چہرے کی گرد صاف کرتے ہوے وہ منہ ہی منہ میں بڑبڑایا۔ اس نے کھڑے کھڑے جیب سے پولو فلٹر کا سگریٹ نکال کر سلگایا اور دو تین لمبے کش کھینچے۔ اس کے بعد وہ اپنے تھال کو سر پر رکھ کر وہاں سے چل پڑا۔
جانے سے پہلے اس نے ایک بار پھر نذیر کو مشکوک نظروں سے دیکھا مگر وہ دوسری جانب دیکھتا رہا اور اپنی جگہ سے ہلا تک نہیں۔ پکوڑافروش کے جانے کے بعد وہ مخمصے میں تھا کہ اس کا پیچھا کرے یا نہ کرے۔ اس دوران معاً اس کا ہاتھ اپنی جیب تک گیا تو وہاں چند نوٹوں کی موجودگی نے اسے مخمصے کے عالم سے نکالا۔ وہ تیزرفتاری سے اس سمت بھاگنے لگا جس طرف وہ گیا تھا۔
اگلی گلی کے موڑ پر اسے دور سے پکوڑافروش جاتا ہوا دکھائی دیا۔ تیز دوڑنے کی وجہ سے، بےحدّت دھوپ کے باوجود، نذیر کی بغلیں سلگنے لگیں اور وہاں سے بہتا پسینہ قمیض سے ہوتا اس کی شلوار میں داخل ہونے لگا۔ اسے لگ رہا تھا کہ جب وہ پکوڑافروش کے پاس پہنچے گا تو وہ قہقہے لگائے گا اور پوشیدہ بات آشکار ہو جائے گی۔ اپنا پسینہ خشک کرنے کی خاطر وہ دھیرے سے چلتا اس کا تعاقب کرنے لگا۔ آگے چل کرایک سایہ دار گلی میں اس نے پکوڑافروش کو آواز دی: ’’پکوڑے والے، رکنا!‘‘
وہ اپنے سر سے تھال اُتارے بغیر رک گیا اور پلٹ کر اسے سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگا۔
نذیر آہستگی سے چلتا اس کے قریب آیا اور اس سے کھردرے لہجے میں پوچھنے لگا، ’’تھال میں جو پکوڑے بچ گئے ہیں، وہ کتنے کے بیچو گے؟‘‘
پکوڑافروش اس کے لہجے کے تحکم سے متاثر ہوا۔ اس کی آنکھوں سے شک کے سبب پیدا ہونے والی درشتی غائب ہو گئی۔ وہ اپنی نظروں سے تھال میں پڑے پکوڑوں کو تولنے لگا۔ ’’سائیں وڈا! یہ سارے آپ اکیلے کھا نہیں سکیں گے۔‘‘
نذیر گھورتے ہوے بولا، ’’تمھیں اس سے مطلب؟‘‘
’’غلطی معاف! پورا تھال چھتیس روپے کا دے دوں گا۔‘‘
’’مطلب، پکوڑوں کے ساتھ تھال بھی؟‘‘ اس نے مسکراتے ہوے پوچھا۔
پکوڑافروش عاجزی سے مسکرانے لگا۔ ’’یہ تو میری روزی کا وسیلہ ہے، سائیں!‘‘
’’تم کوئی گاڈا یا ٹھیلا کیوں نہیں خرید لیتے؟‘‘ وہ اس کے مرعوب ہونے سے لطف اندوز ہو رہا تھا۔
’’بوہتار! میں غریب آدمی ہوں، گاڈا خریدنا میرے بس سے باہر ہے،‘‘ یہ بات کہتے ہوے اس نے تھال پر اپنی گرفت مضبوط کر لی۔
نذیر نے اس کا نام پوچھا تو اس نے بتایا: ’’نُورل جوگی۔‘‘
سارے پکوڑے اخبار میں لپیٹنے کے بعد اس نے اپنے تھال کو فوراً اپنی بغل میں دبا لیا۔ اس نے یہ دیکھ کر خود کو مسکرانے سے بمشکل روکا۔ جب نورل نے اخبار میں لپٹے ہوے پکوڑے اس کی طرف بڑھائے تو نذیر نے پکوڑے لینے سے انکار کر دیا۔
اس کا انکار نورل جوگی کے لیے غیرمتوقع تھا۔ وہ باربار پلکیں جھپک کر اسے دیکھنے لگا۔ نذیر نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور پچاس کا نوٹ اس کی جیب میں رکھتے ہوے بولا، ’’نورل، تم بہت اچھے آدمی ہو اور یہ تمھاری خرچی ہے۔‘‘
اس کی بات سن کر وہ ہکابکا رہ گیا، پھر اس نے اپنے آپ کو سنبھالا اور ہاتھ جوڑ کر اس کا شکریہ ادا کیا۔
نذیر نے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا اور خوش دلی سے اسے ساتھ چلنے کی پیشکش کرنے لگا۔ ’’آؤ! چل کر ہوٹل پر بیٹھتے ہیں۔‘‘
یہ سن کر نورل کی باچھیں کھل اٹھیں۔ وہ نذیر کو صاحبِ ثروت خیال کرنے لگا۔ وہ تابعداری اور جی حضوری کے جذبات سے سرشار ہو کر اس کے ساتھ چلنے لگا۔ اس نے اپنی حیرت اور پریشانی نذیر پر ظاہر نہیں ہونے دی۔ وہ اندر سے سہما ہوا تھا کیونکہ اس وقت اس کی جیب میں تھوڑی سی چرس پڑی تھی۔ اسے خدشہ تھا کہ یہ نوجوان سخی بابو کسی ایجنسی کا اہلکار نہ ہو اور پچاس روپے اور چائے کی پیشکش کے عوض نورل کو کہیں تین مہینے حوالات میں نہ کاٹنے پڑ جائیں۔ چائے خانے تک پیدل جاتے ہوے وہ اسے کریدنے کی کوشش میں اس سے الٹے سیدھے سوال پوچھتا رہا۔ نذیر بھی اس کی ذہنی کیفیت کو بھانپ چکا تھا۔ وہ اس کے بےتکے سوالوں کے بےتکے جواب دیتا رہا۔ وہ اس بات سے بھی بےنیاز ہو گیا کہ چھوٹے سے قصبے میں حقیقت کو چھپانا مشکل ہوتا ہے۔ اس نے اپنے آپ کو یہ سوچ کر مطمئن کر لیا تھا کہ اس کا تعلق اس قصبے سے نہیں تھا۔ یہی سوچ کر اس نے دروغ گوئی سے کام لیتے ہوے نورل کے سامنے خود کو وڈیرے کریم بخش جلبانی کے دوست کا بیٹا ظاہر کر دیا۔ نورل نے اس کے جھوٹ پر یقین کر لیا اوراسے اطمینان ہو گیا کہ یہ چھوکرا اسے حوالات میں بند نہیں کروائے گا۔
چند چھوٹی بڑی گلیوں سے گزرتے وہ بازار تک پہنچے اور بازار سے گزر کر نہر کے وسیع و عریض بند پر واقع ایک چائے خانے تک۔ یہ میرواہ نہر کا دایاں کنارہ تھا اور آگے اس کنارے پر واقع کئی گوٹھوں کے لیے یہ بند کچی سڑک کا کام بھی دیتا تھا۔ اس سڑک پر گاڑیوں کی آمدورفت براےنام ہوتی تھی۔ اسی کا فائدہ اٹھا کر چائے خانے کے مالک نے سڑک پر کرسیاں بچھا دی تھیں۔ اس چائے خانے کے آس پاس چند خستہ سی دکانیں تھیں۔ کسی دکان میں حجام کام کر رہا تھا تو کسی میں بڑھئی۔ ان دکانوں کے عقب میں مکانوں کی طویل قطار ان سے متصل تھی۔ مکانوں کی یہ قطار تھوڑی دور جا کر ختم ہو جاتی تھی۔ سب سے آخر میں محکمۂ آبپاشی کا ڈاک بنگلہ واقع تھا جبکہ سامنے، بائیں کنارے پر، کھیتوں کا طویل سلسلہ تھا جس کے درمیان کہیں کہیں چھوٹے بڑے گوٹھ نظر آتے تھے۔
نذیر بند پر درختوں کے نیچے بچھی کرسیوں میں سے ایک پر بیٹھ گیا۔ اس کے چہرے کا رخ گوٹھ ہاشم جوگی کی طرف تھا جہاں اسے متحیر کرنے والی، بےباک اور چمکدار دو آنکھوں کی جوڑی کی مالکن رہتی تھی۔ اس کے دل میں بسی برقع پوش کی یاد کی آگ دھیرے دھیرے آنچ دینے لگی۔ نورل بلاسبب اپنے پیلے دانتوں کی نمائش کرتا، اپنا تھال اس کے سامنے رکھ کر چائے خانے کے اندر چلا گیا۔
نذیر کو اس سے بےحد اہم باتیں پوچھنی تھیں۔ وہ منھ بسورتے ہوے نہر کی طرف دیکھنے لگا۔ نہر میں پانی بہت کم تھا۔ کناروں کے اندر پانی سے زیادہ مٹی نظر آ رہی تھی۔ شیشم کے ٹنڈمنڈ درخت بند پر دور تک قطاروار کھڑے تھے۔
نورل جوگی نے واپس آنے میں کچھ زیادہ ہی دیر لگا دی مگر جب وہ آیا تو چائے کی پیالیاں ہاتھوں میں اٹھائے ہوے آیا۔ اس کی آنکھیں گہری سرخ ہو رہی تھیں اور اس کا چہرہ سوجا ہوا تھا۔
نذیر فوراً بھانپ گیا کہ پکوڑافروش نے اندر ضرور چرس یا بھنگ کا نشہ کیا ہے اسی لیے اس کی یہ درگت بنی ہوئی ہے۔ نذیر نے مسکرا کر اسے دیکھا اور چائے کا گھونٹ لیتے ہوے اس سے چرس کا سگریٹ پلانے کی فرمائش کی۔ اس کی فرمائش سن کر پکوڑافروش نے قہقہہ لگایا اور کسی توقف کے بغیر جیب سے سگریٹ نکال کر اسے خالی کرنے لگا۔ اس کے ہاتھ سرعت سے کام کر رہے تھے۔ اس دوران وہ چند لمحوں کے لیے دنیا و مافیہا سے بےخبر ہوگیا۔ چرس کا سگریٹ بنانے کے بعد اس نے اپنے ایک ہاتھ پر دیاسلائی اور دوسرے پر چرس کا سگریٹ رکھ کر اسے پیش کر دیا۔ نذیرکو چرس پیتے دیکھ کر اس کے ذہن میں بسے دیگر شکوک و شبہات بھی ختم ہو گئے۔
نذیر پہلی بار چرس کے سگریٹ کو اپنے ہونٹوں سے لگا رہا تھا۔ اس نے جیسے ہی پہلا کش لگایا تو اسے محسوس ہوا جیسے اس کی چھاتی پر کسی نے زوردار مُکّا مار دیا ہو۔ وہ فوراً کھانسنے لگا اور اس کا سر اتنی تیزی سے چکرانے لگا کہ اس کی آنکھوں سے پانی رواں ہو گیا اور حلق میں کڑوا ذائقہ پھیل گیا۔ اس نے اپنے سر کو دو تین بار زور سے جھٹکا اور ایک لمحے کے لیے اپنی آنکھیں بند کر لیں۔ کچھ دیر بعد اس کے سر نے چکرانا بند کر دیا اور گردوپیش کی چیزوں کا گھومنا بھی تھم گیا۔
نورل بھاگتا ہوا گیا اور پانی سے بھرا گلاس لے آیا۔ اس نے پانی سے بھرا گلاس نذیر کو تھمایا۔ پانی کے چند گھونٹ پی کر اس کے حلق میں پھیلی تلخی ختم ہو گئی۔ اس کے بعد اس نے بےحد اصرار کر کے نورل سے ایک مرتبہ پھر چرس کا سگریٹ لیا اور دو تین کش لگائے۔ اس بار بھی وہ کش کے ذریعے زیادہ دھواں نہیں کھینچ سکا۔
نورل اس کی سرخ آنکھیں دیکھ کر مسکراتے ہوئے کہنے لگا، ’’میرے سائیں، یہ فقیر فقرا کا پسندیدہ نشہ ہے۔ اس کے کش لگا کر آدمی کا ذہن عرش پر پہنچ جاتا ہے۔‘‘
نذیر نے اس کی بات سمجھے بغیر اثبات میں سر ہلایا، مگر درحقیقت اس کا دماغ ماؤف ہو چکا تھا۔ اسے نورل جوگی سے بہت کچھ پوچھنا تھا مگر چرس کے چند کش لگا کر وہ اپنی جرأتِ اظہار کھو چکا تھا۔ اس کے لیے سوال پوچھنا تو درکنار، بات کرنا بھی سخت دشوار ہو رہا تھا۔ وہ اپنے آپ کو ملامت کرتا ہوا پکوڑافروش سے بس اتنا ہی کہہ سکا: ’’نورل، آج سے اپنی دوستی پکی۔ ٹھیک ہے؟‘‘
’’ہاں، بالکل ٹھیک ہے بوہتار!‘‘ اس نے تابعداری سے جواب دیا۔
کچھ دیر بعد نذیر نے رخصت لیتے ہوئے اسے خداحافظ کہا اور ڈگمگاتے قدموں سے ڈاک بنگلے کی طرف چل پڑا۔ وہ ایسی حالت میں دکان پر نہیں جانا چاہتا تھا۔ اسے خوف تھا کہ اس کی سرخ آنکھیں دیکھ کرسب لوگوں کو پتا چل جائے گا کہ اس نے نشہ کیا ہوا ہے۔ وہ ڈاک بنگلے کے عقب میں واقع سرسبز قطعۂ زمین پر نیم کے گھنے پیڑوں کی چھاؤں میں کچھ دیر سستانے کی غرض سے دراز ہو گیا۔ خنک ہوا اور نشے کی وجہ سے اس کی آنکھیں مندنے لگیں اور اس کے اعصاب پر نیند کا خمار چھانے لگا۔
نذیر کو میرپور ماتھیلو سے ٹھری میرواہ آئے ہوئے چھ مہینے سے زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا۔ اسی لیے یہاں زیادہ لوگوں سے اس کی جان پہچان نہیں تھی۔ وہ اپنے والدین کی آٹھ اولادوں میں چوتھے نمبر پر تھا، اس لیے اس کے حصے میں ماں باپ کا اتنا پیار نہیں آ سکا جتنا اس کے سب سے بڑے بھائی اور سب سے چھوٹے بھائی کے حصے میں آیا تھا۔ اس کا بچپن اور لڑکپن ماں باپ اور بڑے بھائیوں کی گھرکیاں کھاتے ہوئے گزرا۔ پانچ برس کی عمر میں جب اسے سکول میں داخل کروایا گیا تو پہلے ہی دن ایک لنگڑے استاد نے کسی وجہ کے بغیر اسے تین زوردار تھپڑ رسید کیے۔ اب معلوم نہیں یہ استاد کے تھپڑوں کا اثر تھا یا اس کی طبیعت کا من موجی پن، کہ وہ آٹھویں جماعت سے آگے نہیں پڑھ سکا۔ اسکول کو خداحافظ کہنے کے بعد اس نے آوارہ گردی کا شغل اپنایا۔ وہ صبح سے شام تک میرپور ماتھیلو کے گلی محلوں کی خاک چھانتا پھرتا۔ اپنی والدہ کی ڈانٹ ڈپٹ کو وہ خاطر میں نہیں لاتا تھا، مگر اپنی آوارہ گردیوں کی وجہ سے وہ اکثر اپنے بڑے بھائیوں کے ہاتھوں مار کھاتا۔ اس کے والد میرپور ماتھیلو کے مشہور حلوائی تھے اور وہاں ان کی مٹھائی کی بہت بڑی دکان تھی۔ اس کے تین بڑے بھائی دکان پر والد کا ہاتھ بٹاتے تھے۔ نذیر کی آوارہ گردیوں سے تنگ آ کر اس کے والد نے اسے بھی دکان پر رکھ لیا۔ اس کی عمر کا یہ وہی دورتھا جب اپنی ہم عمر لڑکیاں بلا کسی سبب کے اچھی لگنے لگتی ہیں۔ راہ چلتے ہوئے کسی حسین دوشیزہ کی ایک جھلک ہی اسے راستے سے بھٹکانے کے لیے کافی ہوتی تھی۔ وہ اپنے والد اور بھائیوں کے بتائے ہوے کام فراموش کر کے اس حسین دوشیزہ کو اس کے گھر تک پہنچانے کا فریضہ انجام دینے لگتا تھا۔ بعد میں جب اس کے بھائی اور والد کام میں ہونے والی تاخیر کے متعلق دریافت کرتے تو وہ بغلیں جھانکنے لگتا۔ ایسے میں اس کے بھائیوں اور والد کے طمانچے اس کے چودہ طبق روشن کر دیتے۔ گھر پہنچ کر وہ اپنی ماں کو بھائیوں اور والد کی اس کارگزاری کے بارے میں بتاتا تو وہ دکھ اور افسوس سے اس کے سرخ گالوں پر اپنے ہاتھ پھیرتی۔
نذیر کے بھائی اور والد اسے کبھی شہربدر نہ کرتے اگر وہ میرپور ماتھیلو کے چکلے کی بدنامِ زمانہ رنڈی زوری کی زلفوں کا اسیر نہ ہو جاتا۔ وہاں کا راستہ اسے ایک دوست نے دکھایا، اس کے بعد وہ خود ہی آنے جانے لگا۔ مگر زوری بہت منھ زور تھی۔ اس جیسے کم عمر بالک پر اپنی نظرِِ الفت ڈالنا اسے اپنے شایانِ شان نہیں لگتا تھا۔ ہر مرتبہ وہ تھوڑی دیر تک زوری کا دیدار کر کے لوٹ آیا۔ ایک روز اس کے والد نے اسے پچاس ہزار روپے بینک میں جمع کروانے کے لیے دیے، مگر اس کے دل میں نہ جانے کیا سمائی کہ وہ رقم جیب میں لیے چکلے پہنچ گیا۔ وہاں پہنچنے کے بعد جب اس نے زوری کے سامنے نوٹوں کی گڈی نکالی تو وہ اس پر توجہ کرنے پر مجبور ہو گئی۔ مگر وہ بھی ایک گھاگ عورت تھی، نذیر جیسے نوخیز لڑکے کو بہلانا اس کے لیے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔ وہ شام تک اسے اپنی لچھےدار باتوں سے بہلاتی رہی۔ دوسری طرف دکان پر اس کے واپس نہ آنے پر ڈھنڈیا مچ گئی۔ اس کے بھائیوں نے اس کے دوستوں سے مل کر اور انھیں کرید کر پتا چلا لیا کہ اس وقت وہ کہاں چھپا بیٹھا ہے۔ انھوں نے اپنے والد کی معیت میں چکلے پر چھاپہ مارا تو وہ زوری کے کمرے سے برآمد ہوا۔ اس کے بھائیوں اور والد نے زوری کو دھمکیاں دے کر اس سے سارے پیسے نکلوا لیے اور نذیر کو پیٹتے ہوے وہاں سے لے گئے۔ اس واقعے کے اگلے دن اس کے والد نے اس کی حرکتوں سے نالاں ہو کر اسے اپنے چھوٹے بھائی کے پاس ٹھری میرواہ بھجوا دیا۔
نورل پکوڑافروش سے اگلی دو ملاقاتوں میں بھی نذیر اپنے دل و دماغ میں پیوست آنکھوں کی مالکن کے متعلق کوئی بات نہیں پوچھ سکا۔ مگر نورل سے اس کی دوستی مضبوط ہو گئی تھی۔ وہ مطمئن تھا کہ مسحورکن آنکھوں والی کا شجرۂ نسب معلوم کرنا اب اس کی دسترس میں تھا۔ مگر اسے یہ احساس بھی شدت سے تھا کہ اس معاملے میں اسے مزید تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔ یہی سوچ کر ایک روز نذیر نے شام ڈھلے نورل کو نہر کے کنارے اسی ہوٹل پر بلایا۔ یہ ان کی چوتھی ملاقات تھی۔ نذیر چاہتا تھا کہ اس عورت کے بارے میں آج ساری تفصیلات معلوم کر کے کوئی نہ کوئی حتمی فیصلہ کر لے، کہ اسے اس عورت تک رسائی کے لیے کوشش کرنی چاہیے یا اس کی یاد کو ہمیشہ کے لیے طاقِ نسیاں پر رکھ دینا چاہیے۔ اپنی پہلی غلطی کے خمیازے کے طور پر نذیر کو ہر ملاقات پر اس کے ساتھ چرس کا سگریٹ پینا پڑ رہا تھا۔ اس نے نورل کو خوش کرنے کے لیے اسے بتایا کہ وہ اسے دیکھتے ہی پہچان گیا تھا کہ یہ آدمی ایک موالی ہے — اسی وجہ سے تو اس نے اس کے ساتھ دوستی کی تھی۔ نورل اس کی یہ بات سن کر اپنے آپ پر فخر محسوس کرنے لگا۔ نذیر گزشتہ ملاقاتوں کی طرح اس بار بھی اس سے تفصیلات معلوم کرنے میں ناکام رہا۔ اسے اپنی کم ہمتی پر غصہ آ رہا تھا کہ وہ ایک معمولی سے آدمی کے سامنے کھل کر بات کرنے سے گھبرا رہا ہے۔ اسے دل ہی دل میں یقین تھا کہ وہ جب بھی پکوڑافروش سے اس بابت دریافت کرے گا، وہ اسے کسی ردوکد کے بغیر سب کچھ بتا دے گا۔ مگر چرس کے سگریٹ پینے کے بعد وہ نجانے کیوں گھگھیانے لگتا تھا۔ عام سی باتیں کرتے ہوے بھی اس کی زبان میں گرہ لگ جاتی تھی۔ اس نے چرس پر تمام الزام رکھ کر اپنے آپ کو بری الذمہ قرار دینے کی کوشش کی۔ مگر وہ بھول رہا تھا کہ ایک مرتبہ بھی نورل نے اسے چرس پینے کی پیشکش نہیں کی تھی بلکہ ہر بار اسی نے اصرار کر کے اس سے چرس پینے کی خواہش کی تھی۔
نذیر دھیرے دھیرے چرس کا عادی ہونے لگا تھا۔ اسے اس نشے میں لطف آنے لگا تھا۔ اس کے چند کش لگانے کے بعد وہ خود کو پردہ نشین کے قرب میں محسوس کرنے لگتا تھا۔ وہ اس کے ذہن و دل میں ایستادہ دھیرے دھیرے اپنا نقاب اتارتی تو وہ مبہوت ہو کر اس کے جمال کا مشاہدہ کرنے لگتا تھا۔ اس کا مکمل چہرہ اسے اس کی آنکھوں سے زیادہ تابناک محسوس ہوتا۔ ایسے لمحوں میں اسے یقین ہونے لگتا کہ یہ حسینہ غیرزمینی جمال لے کر اس کرۂ ارض پر اتری ہے۔ نذیر ہولے ہولے برقع پوش کی حقیقت سے زیادہ اس کے خیال کی لو سے متاثر ہو رہا تھا۔
اسی لیے نذیر پکوڑافروش کے ساتھ ایسی تمام جگہوں پر جانے لگا جہاں موالی اکٹھے ہوتے تھے۔ نورل کے ساتھ اسے ہر جگہ خوش دلی سے قبول کیا جاتا اور ان دونوں کی چرس اور چائے سے خوب آؤبھگت کی جاتی۔
چرس کے زیادہ استعمال کی وجہ سے نذیر احساسِ جرم محسوس کرنے لگا۔ اس عرصے میں چاچا اور چاچی نے کئی مرتبہ اس سے اس کی صحت کے بارے میں پوچھا مگر اسے ہر بار جھوٹ بول کر انھیں جھانسا دینا پڑا۔
نذیر کے دوست حیدری کو بھی اس گڑبڑ کا احساس ہو گیا تھا۔ نذیر نے ایک دن اس کے پاس جا کر پڈعیدن اسٹیشن سے شروع ہونے والے اس قصے کی مکمل تفصیلات بتا دی تھیں اور اس کے بعد کے معاملات سے بھی اسے باخبر رکھتا رہا تھا۔ حیدری نے ہر مرتبہ اس کی سادہ لوحی کا مذاق اڑایا کیونکہ وہ پکوڑافروش کو اچھی طرح جانتا تھا۔ نذیر نے حیدری کی منت سماجت اور خوشامد کر کے اسے اپنی مدد کرنے پر آمادہ کر لیا۔ حیدری نے اسے مشورہ دیا کہ وہ اسے اپنے ساتھ دکان پر لے آئے۔
نذیر شام کی نیم تاریکی میں ہوٹل پہنچا تو اس نے دیکھا کہ نورل شیشم کے درخت کی آڑ میں بیٹھا ہوا چرس کا سگریٹ بنا رہا تھا۔ اس کے سر پر مچھروں کا غول منڈلا رہا تھا مگر وہ اس سے بےپرواہ ، سگریٹ بھرنے میں مگن تھا۔ نذیر نے اسے دیکھتے ہی کہا، ’’تم یہاں چھپ کر بیٹھے ہو؟‘‘
نورل گردن موڑ کر اسے دیکھتا مسکراتا ہوا اٹھ کھڑا ہوا۔ اس نے چرس کے تازہ تازہ سگریٹ کو اپنے انگوٹھے کے ناخن پر آخری مرتبہ ٹھوکا اوراگلے ہی لمحے وہ سگریٹ سلگاتے ہوے بولا، ’’میں چھپ کر نہیں، سرِعام بیٹھا ہوں اور مجھے یہاں بیٹھے ہوئے بہت دیر ہو چکی ہے۔‘‘
نذیر نے اس کے شانے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا، ’’میں بندوبست کرنے میں مصروف تھا۔‘‘
اس کی بات سن کر نورل چونکا۔ ’’کس چیز کا بندوبست؟‘‘
’’ایک بہت ہی خاص چیز کا۔ تم اٹھ کر میرے ساتھ چلو۔‘‘
اس نے سگریٹ کے کش کھینچ کر اسے نذیر کی طرف بڑھا دیا۔ ’’پہلے اسے پی لیں، اس کے بعد چلتے ہیں۔‘‘
سرد ہواؤ ں کی وجہ سے بڑھنے والی خنکی کے سبب چائے خانے کا عملہ اندر تھا۔ ویران اور کچی راہگزر پر چند کرسیاں پڑی تھیں۔ نہر سے اتر کر گوٹھ ہاشم جوگی جانے والا راستہ دھول سے اٹا تھا۔ دھند اور دھویں کی دبیز تہہ گوٹھ کے مکانوں کے گرد حصار بناتی ٹھہر سی گئی تھی۔ آسمان پر شفق کی سرخی، سرمئی رنگ میں تبدیل ہو کر، آہستہ آہستہ مغرب سے امڈتی ہوئی تاریکی میں جذب ہوتی جا رہی تھی۔ سگریٹ کا آخری کش لگا کر نورل نے سگریٹ کا ٹکڑا نہر کی طرف اچھال دیا، پھر اپنے دونوں ہاتھ اپنے سر کے اوپر لے جا کر تالیاں بجا کر مچھروں کو مارنے لگا۔ اس کی یہ حرکت دیکھ کر نذیر نے ہنستے ہوے اسے دھکا دیا۔ نورل نے خود کو گرنے سے بمشکل بچایا۔ اس کے بعد وہ دونوں بازار کی طرف چل پڑے۔
نہر کے پُل کے قریب گھورے پر کتّے اور بلیاں اپنے پنجوں کی مدد سے اپنے لیے خوراک ڈھونڈ رہے تھے۔ دن کے وقت پل کے اطراف پھلوں اور کھانے پینے کی اور چیزوں کے ٹھیلے لگے ہوتے تھے اور یہاں کھانے کے شوقین لوگوں کا ہجوم رہتا تھا، مگر شام ڈھلنے سے پہلے پہلے یہاں کی رونق ختم ہو جاتی تھی۔ اس وقت پُل کی دیوار پر بیٹھ کر دو لڑکے آپس میں خوش گپیوں میں مصروف تھے۔
ایک کتے اور کتیا کو جفتی کرتے ہوے دیکھ کر نورل نے قہقہہ لگایا، پھر ایک پتھر اٹھا کر ان کی طرف پھینکتے ہوئے پل سے اترنے والی ڈھلان پر دوڑتا چلا گیا۔ نذیر نے مذاقاً اسے ایک گالی سے نوازا۔ شام کے وقت بازار کی دکانیں بند ہونے کی وجہ سے سڑک بہت کشادہ معلوم ہو رہی تھی۔ سڑک پر کچھ دور جا کر وہ دونوں داہنی طرف واقع ایک گلی کی طرف مڑ گئے۔ اس گلی میں حیدری کی تمباکو کی دکان تھی۔
حیدری اپنی دکان کھولے بیٹھا ان کا انتظار کر رہا تھا۔ اس نے اپنے والد کو بہت دیر پہلے گھر بھیج دیا تھا۔ وہ ان کے انتظار میں باربار اٹھ کر سڑک پر نگاہ ڈالتا اور بیٹھ جاتا۔ مختصر سی دکان بہت خستہ حال تھی۔ گلی میں اس کے دروازے کے نیچے سے ایک بدرو گزرتی تھی۔ حیدری کا باپ اس بدرو کی وجہ سے ٹاؤن کمیٹی والوں کو کوستا رہتا تھا کیونکہ اس کے سبب دکان کی بنیادوں اور دیواروں میں سیلن آ گئی تھی۔ دکان کے فرش پر تمباکو کی کھلی ہوئی بوریاں پڑی رہتی تھیں جس کی وجہ سے تمباکو کی گہری خوشبو اس کے درودیوار میں رچی بسی ہوئی تھی۔
حیدری ایک بار پھر اٹھا، اس نے الماری کے پاس جا کر اس کا ایک پٹ کھولا اور وہاں رکھے ہوئے لفافے کو ٹٹولنے لگا۔ لفافے میں موجود شے کو محسوس کر کے اسے اطمینان سا ہوا۔
نذیر نالی پھلانگ کر دکان میں داخل ہوا، جبکہ نورل نے چھلانگ لگا کر بدرو پار کی اور اندر داخل ہوا۔ تمباکو کی گہری بو کے زیرِاثر نورل لگاتار چھینکیں مارنے لگا۔ مسلسل چھینکنے سے اس کی جو حالت ہو رہی تھی اس سے محظوظ ہوتے ہوے وہ دونوں ہنسی میں لوٹنے لگے۔ نورل نے سو کینڈل پاور کے بلب کی زرد روشنی میں دکان کا جائزہ لیا تو وہ اسے قبر جیسی معلوم ہوئی۔ قبر کا خیال آتے ہی اس نے اپنے کانوں کو ہاتھ لگایا اورزیرِلب توبہ توبہ کرنے لگا۔ نذیر نے اسے تمباکو سے بھری بوری پر بٹھاتے ہوئے بتایا کہ انھوں نے اس کی دعوت کے طور پر اس کی خاطر شراب کا بندوبست کیا ہے۔ شراب کا ذکر سنتے ہی نورل نے اٹھ کر فوراً جیے شاہ نورانی اورجیے لاہوتی کا نعرہ بلند کیا۔ حیدری نے اسے جھڑکا کہ گلی سے گزرنے والے لوگ بلاسبب ان کی طرف متوجہ ہو جائیں گے اور یہ دعوتِ بادہ و ساغر برباد کر دیں گے۔ جھڑکی سننے کے بعد نورل نے اپنے ہونٹوں پر انگلی رکھ لی۔ اس کی آنکھوں میں حریصانہ چمک واضح طور پر دکھائی دے رہی تھی۔ حیدری ایک بار پھر اٹھ کر الماری تک گیا اور اس کا ایک پٹ کھول کر لفافہ باہر نکالا اور اس کے ساتھ ہی پانی سے بھرا جگ اور تین خالی گلاس بھی نکال لیے۔ نذیر نے حیدری کے ہاتھ سے لفافہ لے لیا اور اس میں سے بوتل نکال کر نورل کو دکھانے لگا۔ وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے کانچ کی بوتل اور اس میں بھرے آتشیں محلول کو دیکھنے لگا۔
نذیر اس کا تجسس مزید بڑھانے کے لیے اسے بتانے لگا:’’اس شراب کا انگریزی نام لائن ہے۔ لائن کو سندھی زبان میں شینہ کہتے ہیں۔ مطلب، اسے پینے کے بعد آج کی رات تم شیر بن جاؤ گے۔ بس ہم دونوں کا خیال رکھنا، باقی سب خیر ہو گی۔‘‘
اس بات پر وہ تینوں بےساختہ ہنسنے لگے۔ نورل جوگی نے اچھی طرح بھانپ لیا کہ یہاں کا ماحول دوستانہ ہے۔ اس کا فائدہ اٹھا کر وہ انھیں اپنی شراب نوشی کی تاریخ سنانے لگا۔ وہ پلاسٹک کی بوتلوں میں ملنے والی دیسی شراب اب تک سات مرتبہ پی چکا تھا۔ وہ اپنی زندگی میں پہلی بار شیشے کی بوتل والی شراب پی رہا تھا۔ وہ اس قدرافزائی کے لیے نذیر کا بےحد ممنون تھا۔
حیدری نے ناپ تول کر شراب کے تین پیگ بنائے اور اس کے بعد ان میں پانی ملانے لگا۔ جب وہ نورل کے پیگ میں پانی ڈالنے لگا تو اس نے اس کا ہاتھ روک لیا اور اسے اپنی شراب میں پانی نہیں ملانے دیا۔ تینوں نے اپنے اپنے گلاس تھام لیے اور چسکیاں لے لے کر پینے لگے۔
حیدری نے اس کے گھٹنے پر ہاتھ مارتے ہوے اس سے پوچھا، ’’نورل ! ہمیں بتاؤ۔ کبھی تم نے کسی سے محبت کی؟‘‘
پکوڑافروش تو پہلے سے ہی موج میں تھا۔ شراب کی وجہ سے اس کا نشہ دوآتشہ ہو گیا تھا۔ وہ انھیں قصبے میں بھیک مانگنے والی باگڑی عورتوں کے متعلق بتانے لگا، چند روپوں کے عوض وہ جن سے مباشرت کر چکا تھا۔ ان عورتوں میں سے ایک لچھمی اسے آج بھی بہت یاد آتی تھی۔ وہ جب اس سے ملا تھا تب وہ سولہ سال کی تھی اور اس کے تن پر جوانی کی باڑھ آئی ہوئی تھی۔ اس سے ملنے والی لذت کو وہ آج بھی اپنے رگ و ریشے میں محسوس کرتا تھا۔
نورل کے بعد حیدری اپنا فرضی معاشقہ سنانے لگا۔ اس دوران نذیر گم سم بیٹھا رہا۔ اسے اس حال میں دیکھ کر نورل نے ہنستے ہوے کہا، ’’مجھے لگتا ہے، یہ محبت میں ناکام ہو گیا ہے۔ یا پھر کسی نے اس کے ساتھ محبت ہی نہیں کی۔‘‘ وہ اپنے سوال پر خود ہی کھیسیں نکالنے لگا۔
نذیر گلاس سے گھونٹ بھر کر سنجیدگی سے بولا، ’’میرا دل ایک پردہ نشین کی آنکھوں میں غرق ہو چکا ہے۔ وہ پڈعیدن سے ٹرین میں آتے ہوے مجھے راستے میں ملی تھی۔‘‘ اس نے جان بوجھ کر پڈعیدن کا ذکر کیا تھا تاکہ نورل کوئی ردِعمل ظاہر کرے، مگر وہ اس شراب سے طاری ہونے والی کیفیت سے لطف اندوز ہو رہا تھا۔
یہ بات سن کر حیدری چونکا جیسے اسے بہت اہم کام یاد آ گیا ہو۔ وہ جلدی سے پکوڑافروش سے مخاطب ہوا۔ ’’نورل! ہمارا یار بہت دکھی ہے۔ ہم پر خدا کی لعنت ہو اگر ہم اپنے دوست کی مدد نہ کریں۔ کیوں بھئی؟‘‘
نورل نے فوراً اثبات میں سر ہلاتے ہوے کہا، ’’ہاں ہاں! جو یار کی مدد نہ کرے اس پرلعنت ہو بےشمار۔‘‘
حیدری نے بات آگے بڑھائی۔ ’’مگر نورل، ایک مسئلہ ہے۔ ہمارے یار کی معشوق ذات کی جوگی ہے اور رہتی بھی تمھارے گوٹھ میں ہے۔‘‘
’’اچھا؟ وہ میرے گوٹھ میں رہتی ہے؟ پھر نذیر یار، تجھے پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔ مجھے بس اس کا نام بتاؤ۔‘‘
’’ یہی تو مسئلہ ہے۔ میں اس کا نام نہیں جانتا۔‘‘ نذیر اسے پڈعیدن سے ٹھری میرواہ تک کے اپنے سفر کی روداد سنانے لگا۔ روداد مکمل ہونے پراس نے نورل سے پوچھا، ’’اب تم ہی بتا سکتے ہو، اس پردہ نشین کا نام کیا ہے؟‘‘
اس کی بات ختم ہوتے ہی نورل نشے کی جھونجھ میں سر ہلاتے ہوے بولا، ’’ہاں۔ میں سب سمجھ گیا۔ وہ…وہ میرے گوٹھ کے معمولی وڈیرے اور ٹیلی فون آپریٹر موسیٰ جوگی کی زال ہے اور اس کا نام شمیم ہے۔ اسے وہ پیار سے چھمی کہہ کر بلاتا ہے۔‘‘
’’تم کس طرح اس سے نذیر کے بارے میں بات کرو گے؟‘‘ حیدری نے اسے کریدا۔ نورل نے فوراً اس کے جواب میں کہا، ’’وہ میری ماموں زاد بہن ہے اور میرا اس کے گھر آناجانا ہے۔ ویسے آپس کی بات ہے، وہ اپنے شوہر سے خوش نہیں ہے۔‘‘
’’وہ کیوں؟‘‘ نذیر نے بےچینی سے دریافت کیا۔
نورل اس تفصیل بتانے لگا۔ ’’موسیٰ جوگی اسے گھر کا خرچہ نہیں دیتا کیونکہ وہ چوٹی کا رنڈی باز اور جواری ہے۔ وہ آئے دن اس کی پٹائی کرتا رہتا ہے۔‘‘
’’کیا تم اپنی بیوی کے ذریعے اس سے میرے بارے میں بات نہیں کر سکتے؟‘‘ نذیر نے جھجکتے ہوے اس سے اپنے دل کی بات کہہ دی۔
نورل نے یہ سن کر کچھ دیر کے لیے چپ سادھ لی۔ چند لمحوں بعد وہ کہنے لگا، ’’کچھ دن پہلے میری بیوی نے مجھے بتایا تھا کہ موسیٰ جوگی کی بیوی پڈعیدن سے آتے ہوے راستے میں کسی کو دیکھ دیکھ کر ہنستی رہی تھی۔ ‘‘
’’تم اس کے ذریعے میرے یار کی بات چلاؤ،‘‘ حیدری نے کرسی کے نیچے سے بوتل نکالتے ہوے کہا۔
نورل بوتل کے سحر میں مبتلا، سر ہلاتے ہوے بولا، ’’جو سنگت کی صلاح۔‘‘
انھیں شراب پینے کی عادت نہیں تھی، اس لیے انھیں اس کے نشے کا اندازہ نہیں تھا۔ وہ آپس میں ایک دوسرے کو یقین دلانے کی کوشش کر رہے تھے کہ انھیں نشہ نہیں چڑھا ہے، جبکہ باتیں کرتے ہوے ان کے لہجے بگڑ گئے تھے اور لفظوں کے تلفظ تک بالکل غلط ہو گئے تھے۔ وہ گفتگو میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے لیے ہڑبونگ مچا رہے تھے۔
ان کے بلندآہنگ لہجے سن کر گلی سے گزرتے ہوے راہگیر ٹھٹک کر دکان کے سامنے رک گئے اور شور مچانے کا سبب پوچھنے لگے۔ انھیں یہ ہوش نہیں رہا تھا کہ وہ مرکزی سڑک سے متصل گلی میں حیدری کی دکان پر بیٹھے تھے۔ کسی واقف کار یا رشتے دار کی آمد اِن کی شراب نوشی کو تمام قصبے کے باسیوں کے لیے گفتگو کا دلچسپ موضوع بنا سکتی تھی… اور پھر بات صرف گفتگو تک ہی محدود نہ رہتی۔
نذیر اور حیدری کو خدشہ تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو پکوڑافروش موالی اپنے گھر پہنچ کر اپنی بیوی سے اس ضمن میں بات کرنا بھول جائے۔ وہ اسے یہ بات یاد رکھنے لیے اپنی دوستی کے ساتھ ساتھ مولا مشکل کشا اور شاہ نورانی کے واسطے دیتے رہے جبکہ پکوڑافروش باربار سر ہلا کر انھیں یقین دلاتا رہا کہ وہ نشے میں نہیں ہے اور وہ گھر پہنچ کر اپنی گھروالی سے ضرور بات کرے گا۔ وہ انھیں یہ یقین بھی دلاتا رہا کہ اب اس کی ان دونوں سے پکی دوستی ہے اور وہ ان کے لیے اپنی جان بھی قربان کر سکتا ہے۔ اس بات پر نذیر نے اٹھ کر اس کا ماتھا چوم لیا اور ساتھ ہی اس سے یہ وعدہ بھی کر لیا کہ ٹیلی فون آپریٹر کی بیوی سے اس کا تعلق قائم ہو جانے پر وہ اسے گھوڑا مارکہ بوسکی کا کپڑا خرید کر اور اس کا جوڑا اپنے ہاتھوں سے سی کر اسے دے گا۔ اس پیشکش پر نورل نے اسے ایک فوجی کی طرح کھڑے ہو کر سلیوٹ کیا اور اپنا قدم آگے بڑھایا۔ وہاں پڑی ہوئی تمباکو کی بوری اسے دکھائی نہیں دی اور وہ اس پر سے ڈگمگا کر نیچے گر گیا۔ کھلی ہوئی بوری سے نکل کر تمباکو فرش پر پھیل گیا۔ حیدری یک دم اٹھا اور فرش پر گرا ہوا تمباکو بوری میں بھرنے لگا۔
پکوڑافروش موقع تاک کر حیدری کی کرسی پر براجمان ہو گیا۔ اپنی اس کارگزاری پر وہ کھیسیں نکالنے لگا۔ حیدری اسے کرسی پر بیٹھا دیکھ کر بہت جزبز ہوا۔ اس نے اسے الف ننگی گالیاں دیں جنھیں سنتے ہوے پکوڑافروش ہنس ہنس کر محظوظ ہوتا رہا۔ حیدری نے کلائی پر بندھی گھڑی کو آنکھوں کے نزدیک لے جا کر اس پر وقت دیکھا تو دس بجنے والے تھے۔ وہ سٹپٹایا، کیونکہ اسے گھر پہنچ کر والد کے طمانچوں کا خیال آنے لگا تھا۔ وہ سہم گیا کہ اگر والد کو اس کی شراب نوشی کا پتا چل گیا تو وہ اسے کھڑے کھڑے گھر سے نکال دے گا۔ اسے معلوم تھا کہ اگلے دن تک اس کے منھ سے شراب کی بو نہیں جائے گی۔
جاری ہے
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں