کرونا کی تلخ یادیں۔ پہلی قسط/عامر کاکازئی

ویکسین اور اپنی احتیاط۔

حکومت ِ پاکستان نے چین کی ویکسین “سینوفارم ” منگوانے کی اجازت دے دی ہے۔

پہلا فیز : کن کو لگے گی؟ تقریباً  پانچ لاکھ ویکسین پیرا میڈیکل سٹاف کے لیے جو کرونا کے مریضوں کو ڈیل کر رہے ہیں۔
کب لگے گی؟ اس مہینے کے آخر تک لگ جاۓ گی۔
دوسرا فیز: کن کو لگے گی؟ تمام ہیلتھ ورکرز اور تمام وہ لوگ جن کی عمر ساٹھ سال سے زیادہ ہے۔
کب لگے گی؟ مارچ اور اپریل تک لگ جاۓ گی۔
تیسرا فیز: مئی سے شروع ہو گا اور ہر پاکستانی کو لگے گی۔

یہ ویکسین مکمل طور پر فری میں لگے گی۔

اپنی احتیاط۔

جب تک ہم سب پاکستانیوں کو ویکسین نہیں لگتی تو خدا کا واسطہ ہے کہ اپنی احتیاط خود کیجیے۔کرونا ایک حقیقت ہے، کوئی سازش نہیں۔ اگر  آپ کو سازش لگتی ہے تو اپنے تک محدود رکھیں، اوروں کو گمراہ نہ کریں۔

1۔سب سے زیادہ ضروری چیز پبلک میں ماسک پہننا ہے۔
2۔ دوسری چیز فاصلہ رکھنا ہے۔
3۔ تیسری چیز ہاتھ دھونا۔
4۔چوتھی چیز اپنے بزرگوں کو سختی سے گھر سے باہر نکلنے نہیں دینا، چاہیے ان کے ساتھ زبردستی کیوں نہ کرنی پڑے۔ چاہیے کمرہ لاک کر دیں، یا زنجیر سے باندھ دیں، مگر گھر سے باہر نہ نکلنے دیں۔ بزرگوں کو مسجد، شادی، منگنی، یا میت پر ہرگز ہرگز بھی مت جانے  دیں۔ یاد رکھیں یہ سب فنکشن، کرونا کے وائرس کو پھیلانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ سب سے زیادہ خطرے میں ہمارے بزرگ ہیں۔
5۔ اگر کوئی عزیز گھر آئے  بھی تو اسے ماسک دیں کہ پہن لے۔ اور اسے بزرگوں کے نزدیک نہ  آنے دیں ، فاصلے پر رکھیں۔ (چاہیے ناراض ہو جائے) صحت والی زندگی ہے تو سب کچھ ہے۔

6۔ ایک اہم چیز جسے pulse oximeter کہتے ہیں کو گھر میں رکھنا لازمی ہے۔ اس کی قیمت پندہ سو  روپے ہے۔ ایک نارمل بندے کی سیچوریشن پوائنٹ 99/98 ہے۔ جبکہ کرونا کے مریض کی آہستہ آہستہ گرنا شروع ہوجاتی ہے، جو کہ اگر 80 سے نیچے چلی جاۓ تو اس کو دوبارہ اُٹھانا مشکل ہوتا ہے۔ خاص کر بزرگوں کے لیے۔ یہ میٹر  آپ کی مدد کرے گا کہ کس وقت ہسپتال لے کر جانا ہے۔ کسی کا  بھی سیچوریشن پوائنٹ 89 ہو جائے ، کچھ دیر تک رہے اور مریض کو سانس لینے میں تکلیف ہو تو فوراً ہسپتال کی طرف بھاگیے۔
7۔ اگر  آپ افورڈ کر سکتے ہیں، گھر میں بزرگ بھی ہیں تو گھر میں ایک چھوٹا سلینڈر آکسیجن بھروا کر رکھ لیجیے۔ تقریباً چھ ہزار کا مل جاتا ہے۔
8 ۔ آپ خود بھی جب کام سے گھر واپس  آئیں اپنے والد یا والدہ یا بچے سے چمٹنے کی کوشش نہ کریں، نہ ہی ان کو پیار سے چومنے یا گلے لگنے کی کوشش  کریں۔ دور دور سے بات کریں۔
9۔اگر ہسپتال کی نوبت آ جاۓ تو کسی قریبی حکومتی ہسپتال میں جائیں، کرونا کا علاج پوری دنیا میں ایک جیسا ہے، پرائیویٹ ہسپتال میں اپنا پیسہ ضائع نہ کریں۔ حکومتی ہسپتال کے ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل سٹاف زیادہ ماہر ہیں۔
10۔ اس وقت سب سے زیادہ ضروری چیز  آکسیجن کے ساتھ بیڈ مل جاۓ،جو ملنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ یاد رکھیں کچھ نہیں بدلا، اس لیے کسی جاننے والے ڈاکٹر سے سفارش  کروائیں اور کسی وارڈ بواۓ سے رابطہ کریں، کچھ واقفیت اور کچھ پیسوں میں کہیں نہ کہیں انتظام ہو جاۓ گا۔ وارڈ بواۓ کے علم میں ہوتا ہے کہ کون سا بیڈ خالی ہونے والا ہے۔ panic میں  آنے کی ضرورت نہیں اور نہ ہی اس وقت کسی اصول کو نافذ کرنے کی کوشش کریں۔

یاد رکھیں ہسپتال میں، دورانِ علاج، پرانے پاکستانی انداز  سے ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل سٹاف کو ٹریٹ کریں، مطلب کہ  آرام سے بات کرنا، رعب جھاڑنے کی کوشش نہ کرنا، نہ ہی کسی چیز کی کمی پر غصہ کرنا یا چلانا۔ہر ایک کے ساتھ خوش اخلاقی کے ساتھ پیش آئیں ۔ اگر کوئی میڈیسن ہسپتال میں نہیں ہے تو فوراً  باہر سے لے کر آئیں۔ سٹاف پر چلانے کی ضرورت نہیں کہ اس وقت  آپ کے مریض کی جان بچانا ہے نہ کہ چیخنا چلانا۔ اس وقت یہ سٹاف ہی آپ کے مریض کی جان بچا سکتا ہے۔

ہسپتال میں لور سٹاف جیسے کہ وارڈ بوائے ، جینیٹر، صفائی کرنے والے، گارڈ یا دوسرے، ان سب کی تنخواہ  صرف پندرہ سے سترہ ہزار تک ہے، شاید  آپ کو یقین  کیجیے  کہ یہ بے چارے دن میں کھانا نہیں کھاتے، بھوکے رہتے ہیں کیونکہ اگر دو ہزار مہینے کا کھانا کھا لیں تو گھر کیا لے کر جائیں  گے؟ اس لیے گھر سے اگر  آپ اپنے کھانے کے علاوہ چار پانچ لوگوں کا کھانا بھی منگوا لیں گے تو  آ پ کا کچھ نہیں بگڑے گا مگر کچھ بے چارے، کچھ دن کے لیے بھوکے نہیں رہیں گے۔ اس کے علاوہ اگر آ تے جاتے کچھ پیسے دے دیں گے تو  وہ  دعا کے علاوہ  آپ کے مریض کا ایکسٹرا خیال بھی رکھیں گے۔

احتیاط کریں کیونکہ ابھی کی خبر ہے کہ پشاور کے تینوں بڑے ہسپتالوں میں کوئی بیڈ آکسیجن کے ساتھ خالی نہیں ہے، سب بھرے ہوۓ ہیں۔

ایک بار پھر یاد رکھیں کچھ نہیں بدلا، پرانے پاکستان کے حساب سے چلیں گے تو  آپ بھی خوش اور سٹاف بھی خوش رہے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

عامر کاکازئی
پشاور پختونخواہ سے تعلق ۔ پڑھنے کا جنون کی حد تک شوق اور تحقیق کی بنیاد پر متنازعہ موضوعات پر تحاریر لکھنی پسند ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply