نظم ِ نو سیریز/یا ذکریا، ذکریا۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

اک مہاجر بھٹکتا ہوا در بدر
دشمنوں کے تعاقب کا مارا ہوا
ہانپتا، کانپتا
سانس کے زیر و بم میں دھڑکتے ہوئے
دل کو اپنی ہتھیلی پہ رکھے ہوئے
ڈھونڈتا ہے ۔۔۔۔
کوئی ایک جائے تحفظ، نشیب ِ اماں
عافیت کا کوئی ایک گوشہ ، کہ جو
ماں کی آغوش سا اُس پہ وا ہو ۔۔۔۔ اُسے
بازوؤں میں بھرے، اوٹ میں اپنی لے
اُس کو حفظ و اماں، عاطفت بخش دے

اک مہاجر، بھٹکتا ہوا در بدر
اک شجر
اک شجر ! ۔۔۔۔ عافیت وا گزیدہ ، درون ِ ِ جگر
ایک دھّجی، لباس ِ دریدہ کی ہلتی ہوئی بے خبر
ایک آری، جو چلتی رہی دیر تک پیڑ پر

Advertisements
julia rana solicitors london

پیڑ روتا رہا
الاماں، الاّماں
یا ذکریاؑ، ذکریاؑ، ذکریا ؑ۔۔۔

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply