ہم امن چاہتے ہیں !مگر ظلم کے خلاف۔۔خنساء سعید

پاکستان ہمارا پیارا وطن ہے یہ دھرتی ماں ہمیں اپنی جان سے بھی پیاری ہے ۔ہمارا پیارا وطن ہمارے زندہ خوابوں کی تابندہ تعبیر ہے ۔ارض ِ وطن زندہ قوموں کے لیے روشنی اور نکہت و نور کا استعارہ ہوا کرتا ہے ۔ہمارا پیارا ِ وطن ایسے ہے جیسے ہولے ہولے اترتی ہوئی سرمئی شام کا حسین منظر ،ارض ِ وطن مہر و مہتاب اور ہر دم جواں رہنے والی کہکشاؤں کی روشنی ،ارض ِ وطن زمستانی ہواؤں کی مقدس خوشبو،ار ض ِ وطن سفید چاندی سے نہائی ہوئی پاکیزہ رُت ،وطن آب ِ نیل کی جھلملاہٹ ،دجلہ اورفرات کی عظمت ، گنگا و جمنا کے تقدس ، اور چناب کی روانی کا پر وقار روپ بن کر ہمارے دل کی زمینوں سے پھوٹتا ہے ۔وطن گرمی کی جھلستی دوپہروں اور سردی کی ٹھٹھرتی راتوں میں زندہ رہنے کے ایک قائم مقام ہوتا ہے ۔وطن مامتا کی محبت بھر ی آغوش بن کر اپنے نافرمان بچوں تک کو پناہ عطا کر دیتا ہے ۔وطن میں امن اور سکون ہونے سے ہی پھولوں میں خوشبو اور پھلوں میں رس بھر اہوتا ہے ۔ہمارےحسین ترین ،محبوب ، پرُامن وطن کو نا جانے کس بد خواہ کی نظر لگ گئی ۔اور اس کا امن درہم بر ہم ہو گیا ۔ابن آدم ابن آدم کا گلا کاٹ کر اُسے ذبح کر کے مسرور نظر آنے لگا قتل و غارت ،راہزنی ،اغوابرائے تاوان ،روز مرہ کا معمول بن گیا ،وہ دھرتی جس پر رنگ برنگے پھولوں کی خوشبو فضا ؤں کو معطر کرتی تھی آج جب ظلم کی آندھیوں نے زور پکڑا تو پھولوں اور کلیوں سے خون کی بو آنے لگی ۔دہشت گردوں نے اس دھرتی پر ایسی دہشت پھیلائی کہ فضا گولیوں سے گونجنے لگی ،اور ارض ِ وطن کا قریہ قریہ نوحہ کنا ں ہو گیا ۔دہشت گردی کا طوفا ن بستیاں اُجاڑتا چلا گیا ۔

“سدو “سعودی عرب کی روایتی صنعت سے جی ٹوئنٹی کے لوگو تک کا سفر۔۔منصور ندیم

پاکستان ایک عرصے سے دہشت گردوں کے حملوں اور اُن کے ظلم و جبر کا سامنا کر رہا ہے ۔ان دہشت گردوں کی دہشت گردی کی وجہ سے نسل در نسل راکھ میں دبی چنگاریوں ایک دفعہ پھر سے سُلگنے لگیں اور پھر کیا ہوا کہ دیکھتے ہی دیکھتے ہمارا پیارا وطن شعلوں کی زد میں آگیا ،دہشت گردوں نے ہنستے بستے آنگنوں کو ماتم کدوں میں تبدیل کر کے رکھ دیا ۔ ۔دہشت گردی کی وجہ سے وزیرستان جلنے لگا ،کے پی کے لہو لہو نظر آنے لگا ،بلوچستان تارتا رہو گیا ،پاکستان کے ہر شہر میں سانحے ہونے لگے کراچی ،کوئٹہ ،لاہور ، ڈی آئی خان ،اسلام آباد،پشاور ، بم دھماکوں کی آماجگاہیں بن گئے۔عروس البلاد کراچی آج بھی امن کو ترستا ہے ۔ ٹارگٹ کلر روشنیوں کے شہر کراچی میں خون کی خولی کھیلتے کھیلتے نہیں تھکتے ۔پاکستان کا شہر شہر خون میں غرق ہو گیا، مسجدیں مر ثیہ خواں نظر آنے لگیں، چار طرف آہوں کا دھواں اُٹھنے لگا، میرے وطن کی شاہراہیں تڑپتے لاشے سنبھالتے سنبھالتے تھک گئیں ۔اور سب سے بڑھ کر اسی دہشت گردی کی زد میں ایک عرصے سے کوئٹہ میں ہزارہ برادری پر دھیرے دھیرے شام ِ غم ناک اُتر رہی ہے ،جو کہ آج بھی ظلم اور استحصال کی مثال پیش کر رہی ہے۔دہشت گردوں نے اب کی بار معصوم ،بے گنا ہ اور محنت کش مزدوروں کو جانوروں کی طر ح ذبح کر دیا اور پورے ملک کا امن ایک دفعہ پھر سے برباد کر دیا ، اور ایک دفعہ پھر ملک بھر میں دھرنےاور احتجاج ہونے لگے ۔مظلوم خون منجمد کر دینے والی سخت سردی میں ،پتھرائی ہوئی آنکھوں سے امید کا دامن تھامے،تڑپتی ،سسکتی ، بلکتی ، مچلتی، مائیں ، اپنے جگر پاروں کی لاشیں سامنے رکھے احتجاج کرنے لگیں وہ اُس مسیحا کا انتظار کر رہی تھیں جو اُن کے کرب کو سمجھے اُن کی آہوں پراُس کا دل پسیج جائے اور اُن کو انصاف دلائے مگر انصاف !انصاف تو آج تک کسی مظلوم کو نہیں ملا !یہ پاکستان ہے یہاں انسانی جان کی کوئی قدرو قیمت نہیں ہے ،یہاں ماؤں کے کلیجے پھٹتے ہی رہتے ہیں ،یہاں بوڑھے باپ کی کمر ٹوٹتی ہی رہتی ہے ،یہاں بہنوں کی آہیں رد کر دی جاتیں ہیں ،یہاں انصاف مانگنے والے ہر مظلوم کی آواز دبا دی جاتی ہے اورعدل ! عدل کی تو بات ہی مت کریں اس ملک میں عدل تو سرے سے ہی نا پید ہے ۔یہاں ہر دور میں صرف ظلم و جبر کی داستانیں رقم ہوئی ہیں اور عدلیہ ہر دور میں عدل کرنے میں ناکام رہی ۔

تم نے ہر عہد میں ہر نسل سے غداری کی

تم نے بازاروں میں عقلوں کی خریداری کی

آج تم مجھ سے میری جنس ِ گراں مانگتے ہو

حلف ذہن و وفاداری جاں مانگتے ہو

جاؤ یہ چیز کسی مداح سرا سے مانگو

طائف والوں سے ڈھولک کی صدا سے مانگو

مجھ سے پوچھو گے تو خنجر سے عدو بولے گا

گردنیں کاٹ بھی دو گے تو لہو بولے گا

نانی اماں۔۔روبینہ فیصل

آئیں ہم ایک امن کا عہد کرتے ہیں ۔ہم لوگ تو وہ ہیں جو عظمت انسان کے امین ہیں ،جو ارباب ِ قلم ہیں، اگر ہم لوگ ہی خاموش رہے تو ظلم ایک حد سے تجاوز کر جائے گا ۔اس لیے ہر ہونے والے ستم پر ہم لوگوں کو ہی آواز اُٹھانی ہوگی ہم لوگ مل کر امن کی شمع چاروں جانب جلائیں گے ۔اگر ہم آج نہ بولے تو پھر کل لہو بولے گا ۔اس لیے ہمیں ہی بولنا ہے امن قائم کر نے کے لیے کیوں کہ امن تہذیب کا گہوارہ ہے ۔امن دانائی ہے ،امن اپنے عہد کی سب سے بڑی سچائی ہوتا ہے ۔امن کے ذریعے ہی ہر خواب کو تعبیر ِسحر ملتی ہے ۔امن کے دیپ جلانے سے چراغ ہستی روشن ہو جاتی ہے ۔ہم امن چاہتے ہیں کیوں کہ امن حیوان کو انسان بنا دیتا ہے ،امن نفرت کی دیواریں گرا دیتا ہے ۔امن کی وجہ سے ہی آزادی افکار کا حق حاصل ہوتا ہے ۔ہم امن کے علمبردار لوگ ہیں اور ہم اپنے خطے میں صرف امن اور سکون چاہتے ہیں ۔

کب تک اس شاخ گلستاں کی رگیں ٹوٹیں گی

Advertisements
julia rana solicitors london

کونپلیں آج نہ پھوٹیں گی تو کل پھوٹیں گی ؟

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply