غزل پلس(6)۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

کبھی تو سن مِری فریاد، اے بہرے خدائے جسم
کہ اب تو تھک گئی ہے روتے روتے یہ صدائے جسم

یقیناً لطف لیں گے ہم بھی ان کی سوندھی خوشبو کا
ذرا آرام تو کر لیں پسینے میں نہائے جسم

کبھی دن کو چلے آئیں، تو اپنی عید ہو جائے
ہر اک شب خواب میں آتے ہیں جو یہ ِبن بلائے جسم

بھلا کیا بیچتی بازار میں وہ بے بہا عورت
کہ اس کے پاس تو کچھ بھی نہیں تھا ما سوائے جسم

ٹھہر کر رات بھر دیکھیں تو کیا آرام ملتا ہے
کہ اس بازار میں بڑھ کر ہے اک سے اک سرائے جسم

وہ خود کیا دیدہ ور ہو گا، وہ کیسا کوزہ گر ہو گا
کہ جس صنّاع نے ان اپسراؤں کے بنائے جسم

کہاں، کیسے عیاں ہو اس کا کرّ و فر، شکَوہ و شان
چڑھا رکّھی ہے ہم نے روح پر اپنی ردائے جسم

بہا کر لے گیا سَیل ِ گریزاں روح کو میری
بچی ہے استخواں پر ڈھیلی ڈھالی اک قبائے جسم

Advertisements
julia rana solicitors

میاں آنندؔ ! غم کی تیرگی میں تیرے محرم تھے
کئی صدیاں ہوئیں شاید، تجلّی میں نہائے جسم

Facebook Comments