کرونا، معیشت اور شاعر۔۔محمد اسد شاہ

زندگی خوشی اور غم کا مرکب ہے۔ کوئی شخص ایسا نہیں جس کے لیے صرف خوشیاں ہی خوشیاں ہوں اور نہ ہی کوئی ایسا کہ جس کے لیے غم کے سوا کچھ نہ ہو۔ یہی حال معاشروں اور ملکوں کا بھی ہے۔ دنیا کی معلوم تاریخ یہ بتاتی ہے کہ مختلف ادوار میں اور مختلف علاقوں میں وبائیں وغیرہ پھیلتی، اور انسانوں کو قتل کرتی رہی ہیں۔ ابھی چند سال پہلے تک ڈینگی کی وباء نے لوگوں کو پریشان رکھا، لیکن مختلف اوقات میں، اور چند ایک ممالک میں۔پاکستان میں بھی ڈینگی کے مسئلے نے سر اٹھایا۔تب پاکستان مسلم لیگ (نواز شریف) کی منتخب حکومت تھی، جس نے ایسی جانفشانی، توجہ اور محنت کے ساتھ کام کیا کہ صرف دو سال کے اندر اس خوف ناک وباء پر قابو پا لیا، جسے قابو کرنے میں سری لنکا اور بعض دیگر ممالک کو دس دس سال لگے۔ لیکن حالیہ کرونا کی وباء ہر لحاظ سے مختلف اور سنگین ہے۔

پہلی بات تو یہ کہ معلوم انسان تاریخ میں شاید  پہلی وباء ہے جس نے تقریباً پوری دنیا کو ہی اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ بڑے بڑے ترقی یافتہ ممالک اس کے آگے لاچار اور بے بس نظر آ رہے ہیں۔ اس وباء نے تو جیسے پوری دنیا کے گلوبل ویلیج ہونے کے تصور پر مہر ثبت کر دی ہے۔ معیشت سب سے زیادہ متاثر ہوئی ہے۔ دنیا بھر کے کم آمدنی والے گھرانے، اور خاص طور پر دیہاڑی دار لوگ انتہائی متاثر ہیں۔

دوسرے نمبر پر دنیا کو جس نقصان کا سامنا ہے، وہ تعلیمی میدان ہے، کیا غریب، کیا امیر، سب ہی پریشان ہیں۔ طلباء و طالبات کا تعلیمی سال ضائع ہوتا نظر آتا ہے، جب کہ اساتذہ اور ماہرین تعلیم تو دوہری پریشانی میں مبتلا ہیں، یعنی تعلیم اور معیشت دونوں!پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں حکومت کا جو حال ہے، وہ تو سب کے سامنے ہیں۔

موجودہ تحریک انصاف کی حکومت کرونا سے پہلے ہی ہر شعبے میں اپنی نااہلی اور کمزوری ثابت کر چکی ہے۔ وہ معیشت جو 2018تک بہت تیزی کے ساتھ ترقی کی طرف گامزن تھی، اسے موجودہ حکومت نے اس حال میں پہنچا دیا کہ خود اس کا اپنا وزیر خزانہ کہہ رہا ہے کہ اگلے سال تک معاشی ترقی منفی ڈیڑھ ہو جائے گی۔قرضوں میں پھنسی قوم پر کئی گنا مزید قرض کا پہاڑ لادنے، اور عالمی بنک سے اربوں ڈالر کی امداد وصول کرنے کے باوجود عوام سے کرونا کے نام پر چندہ بھی مانگا جا رہا ہے۔ایک ٹائیگر فورس بنائی گئی، جو آج تک کہیں کوئی کام کرتی نظر نہیں آئی۔

اللہ بھلا کرے فلاحی تنظیموں اور مخیر حضرات کا، کہ وہ بہت شان دار کام کر رہے ہیں۔ الخدمت فاؤنڈیشن، سیلانی ویلفیئر اور ایدھی ٹرسٹ جیسے ادارے تو ملک گیر سطح پر کام کر رہے ہیں۔ لیکن محدود پیمانے پر کام کرنے والوں میں فاروقی ہیومینیٹیرین فاؤنڈیشن اور تحریک سنت نکاح جیسے ادارے بھی قابل قدر کام کر رہے ہیں، جن کے نوجوان رضاکار بغیر کسی تشہیر یا لالچ کے، غرباء کے گھروں تک راشن اور نقدی پہنچا رہے ہیں۔اللہ کریم سے دعا کرتے رہیے کہ ان سب کو اجر عظیم عطا فرمائے، تمام انسانوں پر رحم فرمائے اور اس آزمائش سے محفوظ رکھے۔

جہاں اس وباء نے زندگی کے ہر میدان کو متاثر کیا ہے، وہاں فنکاروں، شاعروں،کھلاڑیوں اور اداکاروں کو بھی پریشان کر رکھا ہے۔ البتہ ایک شاعر ہم نے ایسا دیکھا کہ جس نے اس وباء سے گھبرانے کی بجائے اسے اپنی مشق سخن کا نشانہ بنا ڈالا۔ یہ ہیں پنجاب کے شہرجھنگ میں مقیم شاعرپروفیسر ڈاکٹرعمران ظفرجن کی مزاحیہ شاعری کی ایک کتاب شایدایک سال پہلے منظر عام پر آ چکی ہے۔ حالیہ لاک ڈاؤن کا فائدہ انھوں نے یوں اٹھایا کہ اردو کے بڑے بڑے شعراء کی معروف غزلوں اور قطعات کی پیروڈی اس خوب انداز میں کی، کہ ہر ایک میں کرونا اور اس سے وابستہ معاشرتی مسائل کو اجاگر کیا۔ قارئین بجائے پریشان ہونے کے، محظوظ ہوتے ہیں۔مختلف قومی اخبارات اور بین الاقوامی میڈیا تک میں ان کی ”کرونائی نظموں“ کا تذکرہ جاری ہے۔ اپنے قارئین کی خدمت میں ان کے چند قطعات:
(مشورہ):
ہے وباء پھوٹی ہوئی تو گھر میں تو محصور ہو
اور جز وقتی گھٹن پہ لا نہ ماتھے پر شکن
اس میں تیرا ہی بھلا ہے، بھائی کچھ محتاط رہ
”تو اگر میرا نہیں بنتا، نہ بن، ا پنا تو بن!“

(مرے آگے)
سو بار وباؤں سے لڑا ہوں میں، ا گرچہ
آتا ہے ابھی دیکھیے، کیا کیا مرے آگے
کس سمت میں جاؤں کہ و باؤں میں گھرا ہوں
ڈینگی مرے پیچھے ہے، کرونا مرے آگے

(قیامت)
کچھ ایسی ہے وحشت، کہ گھر سے نکل کے
نہ وہ دیکھتے ہیں، نہ ہم دیکھتے ہیں
کرونا سے پھیلی تباہی کے آگے
”قیامت کے فتنے کو کم دیکھتے ہیں“۔

Advertisements
julia rana solicitors london

(کرونا تیرا ککھ نہ رہے)
اے کرونا ترے ہونے سے سبھی یار، عزیز
وعدہ کرتے ہیں جو ملنے کا مکر جاتے ہیں
”جب بھی آتا ہے ترا نام مرے نام کے ساتھ
جانے کیوں لوگ مرے نام سے”ڈر“ جاتے ہیں۔

Facebook Comments

محمد اسد شاہ
محمد اسد شاہ کالم نگاری اور تعلیم و تدریس سے وابستہ ہیں - پاکستانی سیاست ، انگریزی و اردو ادب ، تقابل ادیان اور سماجی مسائل ان کے موضوعات ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply