ہیجڑوں/خواجہ سراؤں کی بے رنگ عیدیں / عثمان انجم زوجان

ہم کوئیر کمیونٹی کے زوجان ہیجڑے تو وہ ہیں، جن کو معاشرے میں کوئی مقام نہیں دیا جاتا، کیا کبھی کسی کو ہم زوجان ہیجڑوں کے بارے ایسی سوچ بھی آئی کہ ہم زوجان ہیجڑوں/ خواجہ سراؤں کی عیدیں اپنوں کے ساتھ کے بغیر کتنی بے رنگ اور اداسیوں میں ڈوبی ہوتی  ہیں، ہم عید کے دنوں میں باہر سے بظاہر ہشاش بشاش ضرور دکھائی دیتے ہیں پر اندر سے کتنی اداسیوں اور محرومیوں کا غم سہہ رہے ہوتے  ہیں ،کسی کے وہم و گمان میں نہیں ہوتا!

عید کا لغوی معانی دوبارہ سے لوٹ کر آنے کو  ہے، عاد، یعود اور عودا اس کا مصدر ہے، جیسے کہتے ہیں عود کر آنا یعنی لوٹ کر آنا چونکہ ہر سال آتی ہے اسی لیے عید کہتے ہیں!

ہو سکتا میری اس بات پر بہت سارے لوگ یہ بھی کہہ دیں کہ زوجان! دنیا میں بہت سارے لوگ ایسے ہیں، جو سات سمندر پار پردیس میں اپنے کاروبار و بیوپار کرنے گئے ہیں، اور وہ لوگ اپنے کام دھندے کی وجہ سے اپنوں کے ساتھ عید نہیں منا پاتے، پر وہ تو کبھی ایسے اُداس نہیں ہوتے، نہ ہی کسی سے کوئی گلہ و شکوہ کرتے ہیں، جیسے آپ نم آنکھوں میں اپنوں کی یادیں سجائے اداس ہیں۔

کیونکہ وہ تو اپنوں سے دور پردیس  میں اپنے کام دھندے کی وجہ سے مجبور ہوتے ہیں، لیکن ایسے لوگوں کو یہ امید تو بہرحال ہوتی ہے کہ وہ دو سال بعد، تین سال بعد یا زیادہ سے زیادہ پانچ سال بعد اپنے کاروبار و بیوپار سے فارغ ہو کر اپنے گھر کو لوٹے گے اور اور عید اپنے عزیز و اقارب میں کرئے گے۔

پر ہم زوجان ہیجڑوں کے پاس نہ تو کوئی امید ہے اور نہ ہی کوئی عزیز و اقارب، جوتے، کپڑے، چوڑیاں، گنگن اور بالیاں تو ہر بازار میں ہر کوئی سستے داموں میں خرید لیتا ہے، پر ہمیں کوئی یہ تو بتائے  کہ اپنوں کے ساتھ کا بازار کہاں لگتا ہے، جہاں سے سستے نہ سہی پر مہنگے داموں میں اپنوں کا ساتھ، اپنوں کی محبت کو خریدا جا سکے۔

نوجوان لڑکے اپنے محبوبوں کی فرمائشوں پر کنگن، گجرے، چوڑیاں، چھلے، پازیبیں اور پراندے، شوہر اپنی بیوی بچوں یہاں تک کہ دور دراز کے اپنی قریبی رشتہ دار خواتین کے لیے بھی ان کی پسندیدہ چیزیں خرید لیتے ہیں۔

ہیجڑوں کو اپنوں کی کمی عام طور پہ ایسے تہواروں پہ ضرور محسوس ہوتی ہے، نہ تو باپ جو شفقت کا ہاتھ سر پہ رکھیں، نہ بھائی جو پیار جتائیں، نہ بہن جو زخموں پر مرحم لگائے، نہ شوہر جو کما کر لائیں اور نہ ہی کوئی اولاد جو بڑھاپے کا سہارا بن پائے۔

‏دیپ مندر کے ہوں
یا درگاہ کے
ہم فقط روشنی ہی چاہتے ہیں
روشنی پریم کی
محبت کی

روشنی کا نہیں کوئی مذہب
روشنی کی نہیں کوئی سرحد
روشنی تو خدا کا مظہر ہے
اور خدا عشق کے سوا کیا ہے؟

دیپ درگاہ کے ہوں
یا مندر کے
روشنی ہی ہماری چاہت ہے

از ابرار احمد

عام رسم و رواج کے تحت ہر کوئی اپنے اپنے عزیز واقارب اور دوست و احباب سے ملاقات کرتے ہیں۔ بہت سے رشتےداروں کے ہاں عید کی مبارکباد دینے جاتے ہیں اور بہت سے عزیز واقارب کو اپنے ہاں کھانے کی دعوت کرتے ہیں،لیکن ان عید کے دنوں میں کوئیر کیمونٹی کے زوجان افراد کے لب و رخسار مسکراہٹوں سے نہیں بلکہ حسرتوں سے لبریز ہوتے ہیں۔

ہم ہیجڑوں/ زنخوں/ زنانوں/ خواجہ سراؤں کی زندگی دہکتے ہوئے انگاروں پر روز جلتی ہے، لوگ اتنے بے حس ہو گئے ہیں کہ ہماری سسکتی، بلکتی اور کرلاتی دکھوں میں چور زندگی کے درد کا احساس تک نہیں بلکہ ان انگاروں میں تپش بڑھانے کا سبب بن رہے ہیں۔

کیا ہم آپ کی طرح انسان نہیں، ہم جیتے تو ہیں، مگر مر مر کے، سانس تو لیتے ہیں مگر گھٹ گھٹ کے، ہمیں جینے کا حق تو ہے، مگر رنگ برنگے لباس، چمکتے زیورات، روشن ورنگین چہرے، کھنکتے پائل اور لڑکھڑاتے بل کھاتے بدن میں زندگی گھسٹتی تو ہے مگر دہکتے انگاروں پہ، ہماری ظاہری چمک دمک کے پیچھے نجانے کتنی اندوہناک کہانیاں ہیں جنہیں سننے کی سکت کسی میں نہیں، ہو سکتا ہے آپ کی روح ان کہانیوں کا بوجھ اٹھانے سے انکار کر دے، ایسی کہانیاں اسی دنیا میں آپ کے ارد گرد موجود ہیں، مگر شاید غم کے ان جھروکوں میں جھانکنے کی آپ میں ہمت نہیں یا ان کی طرف غور کرتے ہوئے آپ کے پر جلتے ہیں۔

ہم ہیجڑے کوئیر کمیونٹی کا وہ پسا ہوا اور کمزور طبقہ ہے، جو پریشانیوں اور دکھوں کا آپ کو احساس تک نہیں، ہم پیدائش سے لے کر مرگ تک کس کرب سے گزرتے ہیں، آپ اس پہ غور کرنے کے لیے تیار نہیں، اپنوں اور بیگانوں کی بے اعتنائیاں اور بے وفائیاں سینوں میں لیے مٹکتے ہاتھوں پہ ہاتھ مارتے اور آپ میں مسکراہٹیں بانٹنے والوں کے حوصلےکی داد کون دے گا؟

ہم ہیجڑیاں، خواجہ سرا، کھسرے!

عیدی میں ملنے والے کڑک نوٹ کی طرح!
جسے کچھ بچے شرماتے پکڑتے ہیں، کچھ جھپٹ لیتے ہیں!
خوشی سے اچھلتے ہیں، اترا کے چومتے ہیں!
چھپا کر جیب میں رکھتے ہیں
اور بالآخر کسی دکان والے کے ہاتھوں میں دے کر ٹافیاں لے لیتے ہیں!

ہم ہیجڑیاں خواجہ سرا، کھسرے!

ماں باپ کے ٹھکرائے ہوئے بچے
ہماری بھی عید آتی ہے مگر
ہم سے محبت بھلا کب کون کرتا ہے!
ہم سگریٹ کی طرح کی ہابی ہیں لت ہیں!
شریف لڑکے ہمیں اپنے گھر نہیں لے جاتے!
محلے سے دور کسی علاقے میں ہم سے کھیل کر ہمیں پھینک جاتے ہیں!
پھر بھی ہماری ہمت دیکھو ہر روز اٹھ کر
سجتے ہیں سنورتے ہیں ناچتے ہیں گاتے ہیں!
جیسے ہمیں کوئی غم نہ ہو، یہ دل والے ہم نہ ہوں!

ہم ہیجڑیاں، خواجہ سرا، کھسرے!

از سیدہ سحر بتول

عید ہو یا خوشی کا کوئی اور موقع اکثر خواجہ سراؤں کی تیاری دیکھنے کے قابل ہوتی ہے لیکن وہ کیسے خود کو تیار کرتے ہیں؟

ہیجڑوں/ زنخوں/خواجہ سراؤں کے اپنے خونی رشتے تو ان سے منہ موڑ لیتے ہیں، پھر یہ ہیجڑے آپس میں ایک دوسرے کے نام رکھ کر رشتہ داریاں قائم کر لیتے ہیں، جیسے فیاض سے فیضی، مختار سے مختاراں اور شبیر سے شبو وغیرہ۔

ممتا کے مارے یہ ہیجڑے اپنے دو عمر رسیدہ ہیجڑوں کو گرو مان کر ماں باپ اور بچوں کا رشتہ قائم کر لیتے ہیں، یہاں میں اس بات کی وضاحت کر دو کہ ہم ہیجڑوں میں دو گرو ہوتے ہیں۔

1- فرقہ زنانہ گرو

جو گرو زنانہ کپڑوں میں رہتے ہیں اسے فرقہ زنانہ گرو کہتے ہیں، اس زنانہ گرو کا چیلہ جب تک جوان رہتا ہے، فنگشن کرتا رہتا ہے اور وہ اس کا گرو رہتا ہے!

2- کھوتکی مردانہ گرو

جو گرو مردانہ کپڑوں میں رہتا ہے اسے کھوتکی مردانہ گرو کہتے ہیں، جب چیلہ بوڑھا ہو جاتا ہے اور فنگشن نہیں کرتا پاتا تو پھر وہ اس گرو کے ساتھ ٹولی کرتے ہیں!

گرو باپ ہوتا ہے، ماں ماں ہوتی ہے، ماں کا چیلہ گرو کا بھائی اور گرو ان کی بہن ہوتی ہے، پھر چیلے کا چیلہ بھتیجا اور گرو ان کی پھوپھی ہوتی ہے، اسی طرح سے ہی خالہ، چیچی ممانی وغیرہ ہوتی ہے، جس سے ایک پورا خاندان تشکیل پاتا ہے، مجھے یاد ہے ایک دفعہ نجانے کیوں میری گرو نے مجھ سے کہا کہ تم چاہت بلوچ کی پھوپھی ہو، میں آج تک اس عقدے کو کھول نہ سکی نہ گرو نے کھولنے دی۔

دراصل خواجہ سرا کا خاندان ایک گرو اور پچیس تیس چیلوں پر مشتمل ہوتا یے، چیلوں کا کام گرو کی خدمت کرنا ہوتی ہے، چیلے روزانہ یا ماہانہ بنیادوں پر اپنے گرو کو اپنی کمائی کا ایک طے شدہ حصہ دینے کے پابند ہوتے ہیں۔

شادی بیاہ ٹولی فنکشن سے جو کمائی ہوتی وہ لا کر گرو کے قدموں میں رکھ دی جاتی اور گرو سب کا حصہ نکال کر باقی اپنے پاس رکھ لیتی ہیں۔

چیلوں کے لیے چونکہ گرو ہی ماں باپ بہن بھائی ہوتے ہیں اس لیے وہ عید بھی ان کے ساتھ مناتے ہیں، مجھے کسی نے سوال کیا کہ خواجہ سرا عید کیسے کرتے ہیں تو میں بڑی حیران ہوئی کہ کیا ہم کوئی خلائی مخلوق ہے جو آپ کی اور ہماری عید الگ الگ ہوگی، ہم بھی تو ویسے ہی نمازیں پڑھتے، روزے رکھتے اور عید بھی ویسے ہی مناتے ہیں، بس فرق صرف اتنا ہے کہ اپنے خونی رشتوں سے کوسوں میل دور اپنے اپنے گرو چیلہ خاندان میں مناتے ہیں، عید پر گرو کی طرف سے سب کو نئے جوتے، نئے کپڑے، نئے گنگن، نئی چوڑیوں اور بے شمار تحائف پیش دیتے ہیں، رات کو ہاتھوں میں مہندی لگائی جاتی اور صبح گھروں میں سویاں اور گوشت ضرور پکایا جاتا ہے۔

کوئیر کمیونٹی کے خواجہ سرا آج بھی عید کی حقیقی خوشیوں سے کوسوں میک دور اپنے اپنے گرو کے ساتھ عید منا رہے ہیں۔

ان زوجان ہیجڑوں، زنخوں، زنانوں اور خواجہ سراؤں کے لیے عیدی کے طور پر بانگ درا سے اقبال کا ایک شعر پیش خدمت ہے۔

پیام عیش ، مسرت ہمیں سناتا ہے
ہلال عید ہماری ہنسی اڑاتا ہے

Advertisements
julia rana solicitors london

بانگ درا از علامہ اقبال

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply