گمنام گاؤں کا آخری مزار۔۔داؤد ظفر ندیم

شاید آپ دوستوں کے لئے رؤف کلاسرا کی تحریر کے کچھ اور معنی ہوں مگر میں تو رؤف کلاسرا کی تحریر اور انداز تحریر کا شروع سے معترف ہوں ،میرے نزدیک رؤف کلاسرا کا اصل میدان صحافت کا کالم نگاری نہیں ہے بلکہ ان کا اصل شعبہ ان کی ادبی تحریریں ہیں اور یہی وجہ سے کہ میں ہمیشہ رؤف کلاسرا کی ادبی چاشنی سے لطف اٹھاتا ہوں۔

جب سے مجھے “گمنام گاؤں کا آخری مزار” ملی ہے، میں کئی دفعہ اسے پڑھ چکا ہوں سیالکوٹ سے لاہور منتقلی کے بعد مجھے ان تحریروں میں چھپے بین السطور معنی بھی سمجھ آنے لگے ہیں۔

اس کتاب سے میرا رؤف کلاسرا سے مزید گہرا تعلق پیدا ہوا۔ جہاں تک بہن بھائیوں کا تعلق ہے تو نعیم بھائی کی محبت میں تو ہم جیسے لوگ پہلے ہی مبتلا تھے ،اب بینک والے سلیم بھائی، ہارون بھائی اور آپا کا پتہ چلا اور ایک محبت کرنے والے گھرانے سے تعلق کی گہرائی میں اضافہ ہوا۔

مجھے یوں لگتا ہے کہ رؤف کلاسرا نے یہ سب مٹیریل ایک کلاسیک ناول لکھنے کے لئے جمع کیا ہے مجھے یوں لگتا ہے کہ یہ ساری کہانیاں اردو کے ایک شاہکار ناول کی تمہید ہیں عام لوگوں کے بارے میں ایک ناول کے مختلف اجزا، جو کہ آپ کو ایک الگ دنیا میں لے جائیں گے اور ان کہانیوں کے مختلف کردار، جو آنے والے دور میں ایک خاص اور شاہکار ناول کے مختلف کردار معلوم ہوتے ہیں، صرف عام سے کردار نہیں ہیں بلکہ ایک خاص کہانی میں ربط اور تعلق پیدا کرتے ہیں۔

یہ ناول معاشرے کے محروم اور مفلوک الحال طبقے کے بارے ہوگا۔ جیسا کہ ان کہانیوں سے ظاہر ہے یہ ایک سوانحی انداز میں لکھا گیا ناول ہوگا۔ جس میں عام سے لاچار اور بے بس انسانوں کی داستانیں ہوں گی۔ گاؤں کا کمہار چاچا میرو ایک اچھا کردار ہے جس کے بارے میں بہت کچھ لکھا جا سکتا اس کے ساتھ لیہ کی حسینہ بی بی ڈرائیور الطاف یا پھر ماسٹر اسلم کی بیٹی کی کہانیاں کوئی الگ کہانیاں نہیں ہیں بلکہ ایک ہی بڑے فریم کا حصہ ہیں۔

یہ کہانیاں آپ کے اندر کے حسّاس کو جھنجھوڑتی ہیں اور اس کو باہر لے کر آتی ہیں۔
گاؤں کا چاچا خدا بخش قصائی کا جوان بیٹا فوت ہوچکا مگر اسے اس بیٹے کی اولاد اس کی نشانیوں کی زیادہ فکر ہے جن کو لے کر اس کی بہو گھر چھوڑنا چاہتی ہے یا ان یتیم بچوں کی کہانی جن کا باپ مکہ مکرمہ میں کسی حادثے میں فوت ہوا اور وہ اپنے دادا کے ساتھ اس کی قبر دیکھنا چاہتے ہیں۔ اور وہاں وہاں صرف دو پتھر رکھے دیکھتے ہیں۔

چوہدری نیاز جیسا کردار ، جو اپنے بیٹے کی گاڑی میں سے ٹیپ چوری کرتے چور کو اندر سے پیچ کَس لا دے کہ اس سے کھول لو بیٹا۔ چور کا ڈر ختم کرنے کے لئے کہتا ہے کہ کوئی بات نہیں آپ کو اس کی ضرورت ہو گی۔ سب سے بڑھ کر اس سولہ سالہ بیٹی کی اذیت جسے اچانک پتا چلا کہ اس کا باپ تو مافیا کے لیے لوگوں کو قتل کرتا تھا ۔

جنگِ عظیم دوم میں ایک خاتون گارڈ کی کہانی جو اپنا راز ججوں کو نہیں بتا سکتی جو اسے رہائی دلا سکتا تھا۔ اسے اپنی عزتِ نفس اور جیل میں سے ایک کا انتخاب کرنا تھا اور اس نے جیل کا انتخاب کیا۔

اس مرنے والے کے الفاظ”میرے پیارے پھر مجھے میرے گھر لے چلو، میں اپنے دوستوں کے درمیان مرنا چاہتا ہوں۔“ مجھے اپنے والد کی یاد دلاگئے۔ ملتان کا وہ نیک جیلر بھی زبردست کردار ، جس نے درجنوں بھارتی قیدیوں کو قتل ہونے سے بچا لیا تھا لورالائی بلوچستان کے ہندو گھرانے کی دُکھی داستان بھی انسان کو مجبور کر دیتی ہے کہ وہ انسانی بربریت سے نفرت کرے اور انسان کے اندر چھپی انسانیت سے محبّت کرے۔ یہ پڑھ کر انسانیت پر اعتماد پیدا ہوتا ہے اور انسانیت سے پیار کرنے کو دل لگتا ہے

یوں لگتا ہے کہ یہ عالمی معاشی عفریت کے بارے میں ناول کی شروعات ہے جو بتاتا ہے کہ یہ عالمی عفریت کیسے مقامی سطح پر اپنی اجارہ داری قائم کر رہا ہے اس کے ساتھ وہ ناسٹیلجیا جو پرانے محلوں اور گاؤں سے وابستہ ہوتا ہے اور ہمیشہ یہ احساس ساتھ رہتا ہے کہ بہت سی باتیں اور یادیں پیچھے رہ گئی ہیں بہت سے سوال پیچھے رہ گئے ہیں اور ہم ان کا جواب تلاش کئے بغیر آگے کی طرف جانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اور اس سارے چکر میں ہمارے وجود میں ایک خلا نے جنم لیا ہے جس کو اب شاید پر نہیں کیا جا سکتا انسانی تعلقات اور محبت کے نہ ٹوٹنے والے رشتےکہیں نہ کہیں اپنی موجودگی کا احساس دلاتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

میں امید کرتا ہوں کہ ایک نہ ایک دن رؤف کلاسرا انہی  کہانیوں پر اردو کا ایک عظیم شاہکار لکھیں گے، اگرچہ میری خواہش ہے کہ رؤف اپنی ماں بولی میں وہ ناول لکھے!

Facebook Comments

دائود ظفر ندیم
مجھے لکھنے پڑھنے کا شوق نہیں بلکہ میری زندگی لکھنے پڑھنے سے وابستہ ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply