نعمتِ نعمان۔۔حسان عالمگیر عباسی

آن لائن کلاسز کا ایک نقصان یہ بھی ہے کہ اساتذہ سے براہِ راست تفاعل و تعامل کی گنجائش نہیں رہتی۔ کبھی کبھی ایسا معلم مل جاتا ہے جو خود کو طلباء تک محض علوم و فنون کی منتقلی سے بڑھ کر ‘ذمہ دار’ سمجھتا ہے۔ سید مودودی رح سے کسی نے پوچھا کہ ریڈیو سے براہِ راست اگر کوئی ‘صاحب قرآت’ نماز پڑھائے اور عوام مساجد میں جانے کی بجائے گھروں میں ہی با جماعت نماز پڑھ لیں تو کیسا ہے؟ سید صاحب نے فرمایا کہ امام اور مقتدیوں کا تعلق ‘خوش الحانی’ سے نماز کی ادائیگی یا خوب و شیریں بیان بازی پہ استوار نہیں ہے بلکہ قاری کو امامت کے ضابطوں کا خیال رکھنا ہوتا ہے۔ یعنی اس کی ذمہ داری ‘دو رکعت کے ملا’ سے کہیں بڑھ کر ہے۔ وہ مقتدیوں کی اخلاقی تربیت ،ذہنی عروج ،تدریس ،فکر کی پختگی ،معاشرتی مسائل کے حل کی تلاش ،باہمی میل جول ،جماعت بن کر رہنا اور افراد کار کی تیاری کا بھی ذمہ دار ہے لہذا مقتدیوں اور امام کے درمیان یہ فاصلہ اہم ضرورت کو پورا نہ کرنے کی وجہ سے نماز کو باطل اور فاسد کر دے گا۔ ہمارے ساتھ بھی یہی ہو رہا ہے۔ نعمان صاحب خود کو محض علم کی منتقلی سے کہیں بڑھ کر ایک ذمہ دار تصور کرتے ہیں اور ہم بھی جاننا چاہتے ہیں کہ نعمان صاحب علوم کے ساتھ ساتھ اور کیا کچھ دے سکتے ہیں۔ یہ مفید رہا کہ صفات معلمی ،انداز بیاں ،نرم مزاجی ،وسعت قلبی ،ذہنی عروج اور روح انسانی کو بیدار کرنے والی شخصیت اور معلم سے واقفیت ملی ہے لیکن یہ محرومی ضرور رہی کہ ان کی قربت نہ پا سکے۔

جب اس محرومی کا تذکرہ نعمان صاحب سے کیا گیا تو کہنے لگے کہ جلد یا بدیر اس محرومی کا ازالہ ہو جائے گا لیکن شاید انھیں نہیں معلوم کہ جس طرح سے انھوں نے انتہائی شیریں اور میٹھے لہجے میں پڑھایا ہے شاید اس طرح سے اس سائنٹیفک اور تکنیکی مضمون یعنی ‘سینٹیکس اور مارفالوجی’ کے تصورات کو آن لائن طلباء تک منتقل کرنا ہر ایک کی پہنچ سے دور ہے۔ ملاقاتیں تو ہو پائیں گی لیکن اب یہ موقع ہاتھ نہ آئے گا کہ نعمان صاحب کہتے جائیں اور طلباء کے ذہنوں میں تصورات واضح ہوتے جائیں۔ سر کا انداز بیان نرالا ہے۔ وہ بیان بازی کی بجائے ،دل میں اتر جانے والا اسلوب و بیان رکھتے ہیں گویا شاعر ٹھیک فرما رہا ہو :

انداز بیاں گرچہ بہت شوخ نہیں ہے
شاید کہ اتر جائے ترے دل میں مری بات

سر ریسرچر ہیں۔ ان کے نزدیک تصورات نگلنا اور بروز امتحانات اگلنا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ یہ روایتی طور طریقے آپ کو نہ پسند ہیں اور نہ ہی وہ طلباء کو ان کا عادی بنانا چاہتے ہیں۔ وہ عملی کام کو فوقیت دیتے ہوئے ‘تھیوری’ کو اس کی حدود میں محدود دیکھنا چاہتے ہیں۔ گو کہ تحقیق آپ کی دلچسپی کے امور میں سے ہے لیکن ان کا یہ کہنا حقیقت کے بالکل قریب محسوس ہوتا ہے کہ کسی ریسرچر کی ریسرچ چند لوگوں تک رسائی رکھتی ہے یا چند لوگ ہی دلچسپی لیتے ہیں۔ کافی محنت طلب کام اگر چند لوگوں تک بھی نہ پہنچ پائے اور باور کرا سکے کہ کتنی کاوش کی گئی ہے تو بہت بڑی تعداد کا محنت کے ثمرات سے محرومی کا خدشہ ہے۔ لہذا ان کا ماننا ہے کہ وہ کام کیا جائے جس میں محنت کم اور بڑی تعداد کو متاثر کر سکے۔ محنت میں کمی سے مراد یہ نہیں کہ کوشش و کاوش سے منہ پھیر لیا جائے بلکہ یہ ہے کہ اگر ایک پراڈکٹ پہ کم ‘صرفِ وقت’ کو بڑی تعداد ذہن میں رکھ کر ٹارگٹ کیا جائے اور ایک میکنزم تشکیل دیا جائے تو ایسے بہت سے پراڈکٹس کی تیاری ممکن ہے جو بڑی تعداد کے لیے مفید ثابت ہو سکتی ہے۔

آپ فرما رہے تھے کہ سب سے پہلے مزاج کو پرکھنا ضروری ہے۔ آپ کے مطابق پاکستانیوں کا ایک بڑا ہجوم کتابوں کے ہجوم سے ہچکچاتا ہے لیکن اگر پوری کتابی تاریخ کو ایک ڈبے میں بند کر دیا جائے تو عوام بخوشی قبول کر لیتی ہے۔ ثابت یہ ہوتا ہے کہ عوام جاننا چاہتی ہے لیکن نئے دور اور جدید زمانے کی ضروریات کو پیش نظر نہ رکھے جانے کی وجہ سے محروم رہتی ہے۔

اس بات کو ماننے میں کوئی دیر نہیں ہے کہ عوام تاریخ کو ایک رات میں ہضم کرنا چاہتی ہے لیکن جب کتب کا ڈھیر ان کے سامنے آ جائے تو وہ ہکلانے اور ہچکچانے لگتے ہیں۔ کتاب اگر کسی دور کا علمی متاع تھا تو اس سے کوئی منکر نہیں ہے لیکن یہ کہاں لکھا ہے کہ کتب بینی ہی دراصل علم کے حصول کا واحد ذریعہ ہے؟ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ کتب بینی بہترین ذریعہ ہے لیکن یہ کیسے ثابت ہو گیا کہ کتب کے قریب بھی نہ پھٹکنے والوں کو تاریخ کے اوراق میں لکھی گئے واقعات و حالات کا علم نہ ہو؟ کیا انھیں دس سال کے مطالعے کو چند شب و روز کی ‘ڈرامہ سیریز’ سے بھی محروم رکھا جائے؟ یہ مان لیا کہ عالم وہی ہے جو کتب میں کیڑے مکوڑے ڈھونڈتا ہے لیکن جاہلوں کا کیا یہ حق بھی نہیں کہ وہ اپنی آنکھوں کا صحیح اور بہترین استعمال کر سکیں؟ یہی وہ عملیت ہے سر نعمان جس سے قائل و مائل نظر آتے ہیں۔

آپ شاید چاہتے ہیں کہ اگر سوشل میڈیا پہ چلنے والے ‘شارٹ کلپس’ کے گاہک زیادہ ہیں تو کیوں نہ لائبریریز علماء کے لیے مخصوص کر دی جائیں اور عوام کو ان کی چاہت کے مطابق وہی دیا جائے جس کے وہ متمنی ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ آپ نے طلباء سے کہا ہے کہ وہ ایک ایسی ویڈیو بنائیں جو عوام کو اپنا گرویدہ بنانے میں کردار نبھائے۔ آپ نے نیوز چینلز پہ چلنے والی ‘فیک نیوز’ کا پوسٹ مارٹم کرنے کا کہا ہے اور عوام کو بتانے کا کہا کہ فیک نیوز کے پاؤں نہیں ہوتے جیسے سوات میں ایک عورت پہ کوڑے برسانے والی ویڈیو کے پاؤں نہ تھے۔ منور حسن صاحب نے اس جھوٹ کے پلندے کو اس کی فیکنس یا جعلسازی کی بنیاد پر رد کیا تھا اور بعد ازاں اس ویڈیو کی جعل سازی ثابت بھی ہوئی۔ سر نعمان بھی چاہتے ہیں کہ ایسی فیک نیوز یا جھوٹ کا رد ہونا چاہیے۔

ایک بھائی نے سوال داغا کہ کیوں نہ وہ کسی مسلکی مذہبی رہنما کے جھوٹ کی ویڈیو منظر عام پہ لائے تو نعمان صاحب کا جواب وہی تھا جو مسلک یا فرقہ پرستی سے آزاد شخص کا ہوتا ہے۔ آپ نے عرض کیا کہ کسی مذہبی رہنما کی جھوٹ کو اکھاڑنے پچھاڑنے سے کیا اکھاڑ لیا جائے گا بلکہ اس سے مزید کرختگی اور فرقہ واریت کا اندیشہ ہے۔ کوئی شخصیت نوک پہ نہ ہو تو بھی نکیل ڈالی جا سک
Hassan sent Yesterday at 18:59
نکیل ڈالی جا سکتی ہے لہذا ایسی ویڈیو بنائی جائے جس کا مقصد جوڑنا ہو نہ کے توڑنا۔ محترم نعمان صاحب حافظ قرآن ہوتے ہوئے اس آیت سے واقف نظر آ رہے ہیں کہ :

واعتصموا بحبل الله جمیعا ولا تفرقوا
اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقے میں مت پڑو

یہ نعمان صاحب سے آن لائن واقفیت ہے۔ امید ہے محترم سے ملاقاتیں ہوں تو معلوم پڑے کے اس ہیرے کو تراشنے میں کس کا کردار ہے اور یہ ممکن ہو پائے کہ وہ ہمیں بھی تراش پائیں۔ آپ رفاہ یونیورسٹی میں تدریسی فرائض انجام دے رہے ہیں۔ آپ معلم ہونے کے ساتھ ساتھ طالب علم بھی ہیں۔ کسی بیرونی دنیا میں بہترین یونیورسٹی میں داخلہ ہو چکا ہے لیکن کووڈ انیس کی وجہ سے تاحال اپنا ملک ہی ان سے فیض حاصل کر رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ سر کو سرخروئی عطا کرے اور ایسے اساتذہ ملکی ضرورت کو پورا کرتے رہیں۔ ارشاد محمدی صلی اللہ علیہ وسلم ہے :

Advertisements
julia rana solicitors

انما بعثت معلما
میں معلم بنا کر بھیجا گیا ہوں
انما بعثت لاتمم مکارم الاخلاق
میں بھیجا گیا ہوں تاکہ مکارم اخلاق کو تمام کر دوں

Facebook Comments