آج کافر کافر کھیلتے ہیں۔۔ذیشان نور خلجی

نیا سال شروع ہو چکا ہے لیکن میں اس کی مبارک باد نہیں دوں گا کیوں کہ اگلے روز کرسمس کے موقع پر بھی مجھے دھر لیا گیا تھا۔ وہ تو اللہ کا کرم ہوا کہ خدا خدا کر کے کفر پہلے ہی ٹوٹا ہوا تھا ورنہ آج کل تو کفر کے فتوے بھی اتنے ارزاں ہو چکے ہیں جتنا کہ مسلمان خود۔

یہ کفر سے یاد آیا، بچپن میں ایک لطیفہ پڑھا تھا، ایک صاحب جو کہ تین عدد بیگمات کے حقوق محفوظ رکھتے تھے ایک دن اپنی خاتون اول سے لڑنے لگے۔ جھگڑا کچھ اتنا بڑھا کہ صاحب کا غصہ خطاء ہو گیا سو کھڑے کھڑے طلاق دے ڈالی۔ طلاق کے الفاظ سن کر پاس کھڑی دوسری بیگم آگے بڑھیں اور شوہر نامدار پر برسنے لگیں کہ تم کتنے گھٹیا انسان ہو ایک ذرا سی بات پر بیوی کو طلاق دے دی۔ مجازی خدا نے جو کہ پہلے ہی گرم توے پر بیٹھے تھے،  غصے میں پھنکارتے ہوئے خاتون دوم کو بھی اپنی بندگی سے نکال باہر کیا۔ زیادتی کے یہ لمحات مسمی شین عین یعنی کہ خاتون سوئم بھی اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی تھیں سو برداشت نہ کر سکیں اور شوہر پر چڑھ دوڑیں کہ تمھیں ذرا حیاء نہیں، آن کی آن میں دو بیویوں کی جان لے لی۔ شوہر صاحب جو کہ پہلے ہی اکتائے بیٹھے تھے ان پر بھی تین حرف بھیج کر ہاتھ جھاڑنے لگے کہ اب میدان صاف ہو چکا تھا۔ لیکن سوئے قسمت کہ ایک پڑوسن دیوار کے ساتھ ٹنگی یہ سب ڈرامہ دیکھ رہی تھی، اس سے بھی رہا نہ گیا چنانچہ موصوف کو کوسنے لگی کہ تم کیسے مردود انسان ہو پل بھر میں تین بیویوں کو فارغ کر دیا ہے۔ ادھر جناب شوہر صاحب جو کہ تپے بیٹھے تھے بے ساختہ بولے، جا بی بی ! تمھیں بھی طلاق ہے۔

صاحبو ! کفر کے فتوؤں کو لے کر ہمارے ہاں بھی کچھ ایسی ہی صورتحال بن چکی ہے کہ تم بھی کافر ہو، تم بھی کافر ہو، تم بھی کافر ہو اور جو نہ مانے وہ بھی کافر ہے۔ اب یہاں ایک سنجیدہ نکتہ بھی سمجھ لیجیے۔ جب کبھی کوئی ہم مذہب آپ پر کفر کا فتویٰ لگائے تو اس صورت میں صرف دو ہی باتیں ہو سکتی ہیں یا تو آپ حق پر ہیں یا پھر آپ کے مقابل حضرت ڈیڑھ سیانے خود غلطی پر ہیں بس اس کے علاوہ تیسری کوئی صورت نہیں ہے۔ دیکھیے، پورا نام تو اللہ کا ہے لیکن آج کے دور میں ننانوے فیصد معاملات کچھ یونہی چل رہے ہیں۔ سو جب کبھی کسی اپنے کی طرف سے کفر کی بخشش ملے تو اسے تمغہ سمجھ کر اپنے سینے پر سجائیے اور  یار لوگوں کے سامنے اترا اترا کر چلیے بالکل جیسے ختنوں کا زخم تازہ ہونے پر بچے چلا کرتے ہیں۔

ختنوں سے یاد آیا ہمارے ایک دوست ہیں سید شعیب شاہ۔ ایک محفل میں انہوں نے کچھ پھپھولے اڑائے تھے، کہنے لگے کہ دیوبندیوں یا شاید وہابیوں کا سالانہ اجتماع تھا جس میں ایک ہندو کو مسلمان کرنے کے لئے لایا گیا۔ قبول اسلام کے بعد نائی حضرات کی خدمات بھی لی گئیں۔
کوئی چند ہی ماہ گزرے کہ محرم کا مہینہ آ گیا اور ہر طرف سے شیعہ حضرات سر اٹھانے لگے ایسے میں ایک ملنگ نے کہیں سے اس نو مسلم کو پکڑا اور سیدھا اپنی امام بارگاہ میں لے گیا۔ وہاں جا کر انکشاف ہوا کہ یہ نو مسلم تو ابھی تک کافر کا کافر ہی ہے سو نئے سرے سے کلمہ پڑھایا گیا اور اپنے فرقے کی تعلیمات سے آگاہ کیا گیا۔ ہاں، لیکن ختنوں پر نظر ثانی کی ضرورت محسوس نہ کی گئی کیوں کہ اس باب میں امت کا تمام پہلوؤں پر ہر طرح کا اتفاق ہے۔ خیر اب کہ وہ مسکین آدمی شیعت کے مطابق اپنے مذہبی معاملات انجام دینے لگا۔
دوستو ! اب اگر محرم آ گیا تھا تو ربیع الاول کیا پیچھے رہتا۔ سو ان دنوں بریلوی حضرات چھائے ہوئے تھے۔ نگر نگر قریہ قریہ دیوانوں کے نعرے گونج رہے تھے کہ اس بے چارے کو ایک دفعہ پھر سے دھر لیا گیا۔ اب کی بار اسے بتایا گیا کہ تم پہلے دونوں ہی دفعہ مسلمان نہیں ہو سکے بلکہ گمراہ کن عقائد پر کار بند رہے ہو۔ لہذا پھر اسے نئے سرے  سے مسلمان کیا گیا اور کلمے وغیرہ پڑھوا کر خالص اپنے فرقے کے عقائد سمجھائے گئے۔

دن یوں ہی گزرنے لگے کہ وہابیوں/ دیو بندیوں کے اجتماع کی تاریخ آ گئی۔ اور اس کی کم قسمتی کہ یہ وہاں بھی جا پہنچا۔ اب وہاں موجود نابغوں کو اندازہ ہوا کہ یہ تو صریح مشرک اور بدعتی ہو چکا ہے لہذا اسے پھر سے مسلمان کرنے کا سوچا گیا لیکن اب کی بار وہ نو مسلم بھی روز روز کے مسلمان ہونے سے تنگ آ چکا تھا۔ چنانچہ اس نے سب کے سامنے ہاتھ جوڑ دیے کہ مجھے مسلمان نہیں ہونا، میں اپنے پچھلے مذہب پر ہی ٹھیک ہوں، کیوں کہ وہاں کوئی اس طرح کی تماش بینی نہیں کرتا تھا جو آپ لوگ مذہب کے نام پر کر رہے ہیں۔

اب چونکہ ان نابغہ روزگار ہستیوں کے مطابق وہ اسلام سے کنارہ کر کے مرتد ہو چکا تھا تو فتویٰ صادر کیا گیا کہ اس کا سر تن سے جدا کر دیا جائے۔ پنڈال سج گیا نومسلم کم مرتد کو مجمعے کے سامنے لایا گیا اور اس سے آخری بار پوچھا گیا کہ کیا تم ابھی تک اپنے ارتداد کے فیصلے پر قائم ہو یا ہمارے مذہب میں شامل ہونا چاہتے ہو۔ وہ بیچارا روتے ہوئے کہنے لگا مجھے تو آپ لوگوں کی سمجھ ہی نہیں آ سکی کہ آپ کے مذہب کو مانوں تو بھی آپ لوگ نہیں مانتے، اگر نہ مانوں تو درپے ہو جاتے ہو، اس میں داخل ہوتا ہوں تو آپ نیچے سے کاٹ دیتے ہو، اس کو چھوڑتا ہوں تو اوپر سے کاٹ دیتے ہو۔

دوستو ! یقینی سی بات ہے اس واقعے میں کوئی صداقت نہیں۔۔ لیکن ذرا دیر کو سوچیے! کیا آج ہمارے سلامتی والے مذہب کو لے کر ہمارے مذہبی طبقے کا یہی چال چلن نہیں ہے؟

ہندو نو مسلم کی بات سے یاد آیا اگلے روز یہاں ایک مندر کو بھی مسمار کیا گیا ہے، اس حوالے سے بات کرتے ہیں۔ دیکھیے، پچھلے سال بابری مسجد شہادت کیس کا فیصلہ سامنے آیا اور جیسا کہ ہم لوگوں کو پہلے سے اندازہ تھا کہ جب گواہ بھی انہی کے ہوں اور عدالتیں بھی، تو بھلا ہم لوگ کیسے جیت سکتے تھے۔
لیکن ایک عدالت ایسی تھی جہاں ہمارا مقدمہ بہت مضبوط تھا اور جلد یا بدیر فیصلہ ہمارے حق میں ہی ہونا تھا اور وہ تھی تاریخ کی عدالت۔ اس حوالے سے پچھلے سال اسلام آباد مندر کی تعمیر کی صورت میں قدرت کی طرف سے ہمیں ایک موقع بھی ملا تھا کہ بابری مسجد کا مقدمہ مزید مضبوط کرتے۔ لیکن ہم نے اپنی مذہبی انا کے باعث اسے گنوا دیا۔ اور بات یہیں تک رہتی تو بھی ٹھیک تھا۔ لیکن ہم اپنے ہی نشے میں دھت آگے بڑھے اور پھر کرک میں موجود ہندو مندر کو مسمار کر دیا۔ اور آج ہندوستان کی عدالت کے ساتھ ساتھ تاریخ کی عدالت میں بھی اپنا مقدمہ ہمیشہ کے لئے ہار گئے۔

Advertisements
julia rana solicitors

سو مبارک باد کا مستحق ہے وہ مذہبی جتھہ، جس نے اپنے عمل سے ثابت کیا کہ ہم مسلمانوں میں اور ان ہندوؤں میں کچھ خاص فرق نہیں ہے۔ ایک پل کو سوچیے، کیا یہاں کوئی ایک عالم دین بھی ایسا نہیں تھا جو ان لوگوں کو سمجھاتا کہ عبادت گاہ چاہے کسی بھی مذہب کی ہو وہ بالکل ایسے ہی قابل احترام ہوتی ہے جیسا کہ آپ کی اپنی عبادت گاہ؟ کیا ان مذہبی پیشواؤں میں اتنی اخلاقی جرات بھی نہیں ہے؟ حالانکہ یہ اخلاق کے ساتھ ساتھ مذہب کا بھی معاملہ ہے کیوں کہ اسلام ہی ہمیں دوسرے مذاہب کی عبادت گاہوں کے احترام کا درس دیتا ہے۔

Facebook Comments