مسیحا کی قدر کیجیے۔۔صبا رحمت

ہمیں اپنی زندگی میں اپنی یاکسی عزیز دوست کی صحت کی خرابی کی صورت میں ہسپتال جانا پڑ جاتا ہے اوروہاں ہسپتال میں موجود ڈاکٹر ہی وہ واحد ہستی ہے جس سے ہمیں یہ توقع ہوتی ہے کہ اسے ہماری تکلیف کا اندازہ ہوگا اور وہی ہماری تکلیف کا مداوا کر سکتا ہے۔ اسی کو علم ہے کہ ہماری بیماری کا علاج کیا ہے۔

اب یہ بدقسمتی سمجھیے کہ  پاکستان میں آئے دن ایسی خبریں سننے کو ملتی ہیں کہ فلاں شہر میں موجود ہسپتال میں ،بعض لوگوں نے اپنے مریض کی طبیعت بگڑ جانے پر یا اس کے انتقال کر جانے پر ہسپتال میں توڑ پھوڑ کی ۔ اپنے عزیز کی موت کا ڈاکٹر کو ذمہ دار سمجھا ،اور ہسپتال کا ماحول خراب کردیا ۔ہم نے یہ بھی دیکھا ہے کہ بعض اوقات کوئی با اثر شخص یا اس کا کوئی کارندہ ہسپتال میں ڈاکٹروں یا عملے کو دھمکیاں دے رہا ہوتا ہے۔ یاد رکھنے کی بات یہ ہے  کہ تشدد کسی بھی مسئلے  کا حل نہیں اور ہسپتال میں تو خاص طور پر اس چیز کی احتیاط کرنے کی ضرورت ہوتی ہے کہیں ہسپتال کاپُرامن اور خاموش ماحول متاثرنہ ہو جائے کیونکہ جب ہسپتال کا ماحول خراب ہوتا ہے یا ڈاکٹروں اور طبی عملے کو زدوکوب کیا جاتا ہے تو ایسی صورت میں نہ صرف وہ مریض سخت مشکل میں چلا جاتا ہے جس کے لواحقین ایسا کر رہے ہوتے ہیں بلکہ دیگر  مریضوں کی بھی جان کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

میں اس مختصر تحریر کے ذریعے آپ سب پڑھنے والوں کو یہ بتانا چاہوں گی کہ بحیثیت صحافی میں نے ہمیشہ ڈاکٹروں کو پوری ذمہ داری سے اپنا کام کرتے ہوئے دیکھا ہے اور اگر کہیں کوئی کوتاہی یا غیر ذمہ داری، صحت کے شعبے سے وابستہ کارکنوں سے سرزد ہوئی بھی ہو تو وہ انسانی خطا ہی ہوتی ہے کوئی مجرمانہ فعل نہیں تھا ۔آج کل کرونا وائرس کے دنوں میں جس طرح ڈاکٹرز اور دیگر طبی عملہ اپنی جانوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اور بہت محدود سہولیات کے ساتھ پاکستان میں کورونا کی وباءکے خلاف صحت عامہ کے شعبے میں اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں ،یہ بہت قابل تحسین ہیں ۔میں نہ صرف ڈاکٹروں کو خراج تحسین پیش کرتی ہوں بلکہ آپ سب پڑھنے والوں سے درخواست کرتی ہوں کہ آپ خاص طور پر وباء کے ان پریشان دنوں میں ڈاکٹر اور طبی عملے کا احترام کریں اور ان پر بھروسہ کریں ڈاکٹروں پر بھروسہ ہی وبا کے خلاف جنگ میں ہمارا موثر ہتھیار ہوگا۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply