احساس (11)۔۔وہاراامباکر

دماغ نہ کچھ دیکھتا ہے، نہ سنتا ہے، نہ چھوتا ہے۔ اس کو موصول ہونے والا سگنل ہوا کی کمپریشن کی لہریں ہیں جو کسی رکشے سے برآمد ہو رہی ہیں یا مالیکیول جو نہاری کی پلیٹ سے بلند ہو رہے ہیں یا بھڑ کے ڈنگ مار دینے کی تکلیف۔ نیورونز کے لئے یہ صرف وولٹیج کی سپائیک ہیں۔ کھوپڑی کی تجوری میں مقفل دماغ کو بیرونی دنیا سے رسائی صرف ان برقی سگنلز کے ذریعے ہے۔
اگر ہم دماغ کے ٹشو میں اس سپائیک کو اِدھر اُدھر بھاگتا دیکھ سکتے اور میں آپ سے پوچھتا کہ کیا آپ بصری کورٹیکس کو دیکھ رہے ہیں یا سماعت والے کورٹیکس کو یا پھر سوماٹوسینسری کورٹیکس کو، تو آپ مجھے کچھ نہ بتا سکتے۔ یہ سب ایک ہی جیسے لگتے ہیں۔
اور یہ نیوروسائنس کے اس مسئلے کی طرف لے جاتا ہے جس کے جواب کا ہمیں کوئی اندازہ نہیں۔ سماعت کا احساس سونگھنے سے اس قدر فرق کیوں ہے؟ یا ذائقے سے؟ اور ایسا کیوں ہے کہ ہوا کے جھونکوں میں رقصاں جھیل کی لہروں کا نظارہ، موتیے کے پھول کی مہک اور ملتان کے سوہن حلوے کا ذائقہ ہمیں سبھی خوبصورت تو لگتے ہیں لیکن ہم کبھی ان کی خوبصورتی کو ایک دوسرے سے کنفیوز نہیں کرتے؟
ہو سکتا ہے کہ آپ اندازہ لگائیں کہ اس کا تعلق جینیاتی ساخت سے ہے۔ سماعت کے حصے ان سے بہت مختلف ہوں گے جن کا تعلق لمس سے ہے۔ لیکن قریب سے تجزیہ کرنے پر یہ مفروضہ کام نہیں کرتا۔ اگر آپ نابینا ہو جائیں تو دیکھنے والا علاقہ لمس اور سماعت والا حصہ ٹیک اوور کر لے گا۔ آپ کے لئے اس بات پر اصرار جاری رکھنا مشکل ہو جائے گا کہ دماغ کے ویژوئل علاقے میں کوئی ایسی بنیادی شے ہے جس کا تعلق بصارت سے ہے۔
اس کا ایک متبادل مفروضہ یہ ہو سکتا ہے کہ کسی حس کے اندرونی تجربے (کوالیا) کا تعلق ڈیٹا موصول ہونے کے سٹرکچر کے ساتھ ہو۔ آنکھ کے ریٹینا کی دو ڈائمنشن والی شیٹ سے آنے والے ڈیٹا کا سٹرکچر کان کے ڈرم سے موصول ہونے والے ایک ڈائمنشن والے سگنل سے فرق ہے جو انگلی سے موصول ہونے والے سگنل سے الگ ہوتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ کوالیا کا تعلق اس فرق سے ہو۔ ایک اور مفروضہ یہ ہو سکتا ہے کہ حسیاتی ڈیٹا کے بہاوٗ کی تبدیلی کس فزیکل طریقے سے ہوتی ہے۔ جب آنکھ حرکت کرتی ہے تو بصارت کی دنیا تبدیل ہوتی ہے۔ سماعت کے ساتھ ایسا نہیں۔ اس کے لئے پورے سر کی حرکت کی ضرورت ہے۔ چھونا ایکٹو عمل ہے، سونگھنا نہیں۔ لیکن ایک گہری سانس کے ساتھ اس کا اثر بڑھایا جا سکتا ہے۔
اس کا مطلب یہ نکل سکتا ہے کہ اگر نئی ڈیٹا سٹریم کو دماغ سے براہِ راست منسلک کیا جائے اور اس کا واضح سٹرکچر ہو ۔۔ اور اس کا آپ کے اپنے کسی ایکشن کے ساتھ فیڈبیک کا لوپ ہو تو نیا کوالیا ابھر سکتا ہے۔ یہ بصارت، سماعت، چکھنے، سونگھنے جیسا نہیں ہو گا۔ کوئی بالکل ہی الگ شے ہو گی۔
اس کا احساس کیسا ہو گا؟ کیا آپ اس کا تصور کر سکتے ہیں؟ یہ بہت مشکل ہے۔ بلکہ نہیں، یہ تصور کرنا ناممکن ہے۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ اس کو سمجھنے کے لئے کسی نئے رنگ کا تصور کریں جو آپ نے پہلے نہ دیکھا ہو۔ پہلی بار سننے میں ایسا لگتا ہے کہ یہ ایک سادہ سا کام ہو گا لیکن ایسا نہیں۔ یہ ناممکن کام ہے۔ جس طرح آپ ایک نئے رنگ کا تصور نہیں کر سکتے۔ ویسے ہی کسی بھی اجنبی حِس سے ہونے والے احساس کا تصور نہیں کر سکتا۔ یہ ناممکن ہے۔
اب فرض کیجئے کہ دماغ ایک رئیل ٹائم فیڈ سے منسلک ہے جو ایک ڈرون سے آنے والا ڈیٹا ہے (اس کی آواز، سمت، جھکاوٗ وغیرہ) تو کیا اس سے کوئی نئی حس ابھر سکتی ہے؟ جیسا کہ فوٹون یا ہوا کی کمپریشن کی لہروں سے ابھرتی ہے؟ کیا یہ ڈرون جسم کا حصہ محسوس ہونے لگے گا؟ اور کیا تجریدی ڈیٹا کے ساتھ بھی ایسا ہو سکتا ہے؟ مثال کے طور پر فیکٹری کی مشینوں کا یا ٹوئٹر کی فیڈ کا یا سٹاک مارکیٹ کا ڈیٹا؟ اگر یہاں سے ٹھیک فیڈ کا بہاوٗ مل رہا ہو تو نیوروپلاسٹک ماڈل کی پیشگوئی یہ ہے کہ دماغ مینوفیکچرنگ، مختلف ہیش ٹیگ اور عالمی منڈیوں کو محسوس کرنے لگے گا۔ وقت کے ساتھ نیا کوالیا بن جائے گا۔ کوالیا بہت بڑے ڈیٹا کا خلاصہ کر کے شعور کو پیش کرنے کا دماغ کا قدرتی طریقہ ہے۔
کیا یہ معقول پیشگوئی ہے؟ یا خالصتاً خیالی باتیں؟ ہم اس مقام پر پہنچ رہے ہیں جہاں اس کو ٹیسٹ کیا جا سکے گا۔
اور اگر آپ کو نئی حس کو سیکھ لینے کا خیال من گھڑت لگتا ہے تو یاد رکھیں کہ یہ کام تو آپ خود کر چکے ہیں۔ بچے آواز کو سیکھنے کے لئے تالی بجاتے ہیں یا منہ میں بڑبڑاتے ہیں تا کہ اس کا فیڈ بیک ان کے اپنے کان تک پہنچ سکے۔ شروع میں یہ صرف برقی ایکٹیویٹی ہوتی ہے اور پھر وہ اسے آواز کے طور پر محسوس کرنا سیکھتے ہیں۔ اپنی ہر حس ہم نے اسی طریقے سے حاصل کی ہے۔
پیدائشی بہرے لوگوں کے جب بالغ ہونے کے بعد کوکلئیر امپلانٹ لگائے جائیں تو انہیں ابتدا میں کچھ بھی سنائی نہیں دیتا۔ یا کچھ بھی ایسا نہیں جسے آواز کہا جا سکے۔ ایسے ایک شخص کا کہنا تھا کہ شروع میں ایسا لگتا ہے کہ بلاتکلیف کے کچھ برقی جھٹکے سے لگ رہے ہوں۔ اس کا کوئی احساس نہیں تھا۔ آواز تو اس کو کہا ہی نہیں جا سکتا تھا۔ لیکن ایک مہینے میں یہ بدلنے لگا۔ جیسے ریڈیو کا شور ہو۔ اور پھر اگلے ہفتوں میں یہ بامعنی آوازوں تک پہنچا۔ ان صاحب کا تجربہ انوکھا نہیں تھا۔ ہم سب بھی اس سے گزرے ہیں۔ بس، ہمیں یاد نہیں۔
آپ نے کبھی نوزائیدہ بچے کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر ہے جو ابھی دنیا میں وارد ہوا ہے۔ نوزائیدہ بچے سے نگاہ کا مل جانا زیادہ دیر نہیں رہتا لیکن ہمیں خوشی سے بھر دیتا ہے کہ اس بچے نے دنیا میں جو پہلی شے دیکھی، وہ میں خود ہوں۔ لیکن کیا وہ آپ کو واقعی دیکھ رہا تھا؟ غالباً نہیں۔ اس کے دماغ تک آنکھوں کے ذریعے کھربوں سپائیک پہنچ رہے تھے اور وہ ان کو وژن کے طور پر بنانا اور پیٹرن در پیٹرن اخذ کرنا سیکھ رہا تھا۔ اور ان سب کا بنا ہوا خلاصہ اس کی حسِ بصارت بننی تھی۔ دماغ نے دیکھنا سیکھنا تھا، ویسے ہی جیسے یہ بازو اور ٹانگوں کا کنٹرول سیکھتا ہے۔ ہم نے اپنی موجودہ حسیات عمر کے ایک حصے میں حاصل کی تھیں۔ اور اس کا مطلب یہ ہے کہ اجنبی حسیات کا مکمل تجربہ حاصل کر لینا ممکن ہے۔
(جاری ہے)

Facebook Comments