ہم اور ہماری سوچ۔۔نزہت جہاں ناز

آج ہم نسلِ انسانی کے چند ذہنی افعال و عادات کا جائزہ لیتے ہیں اور پھر اس پر مختصر سی بات کرتے ہیں۔ ہماری سوچ اور ہمارا گمان کس حد تک ہماری شخصیت ، ہماری جسمانی و ذہنی صحت ، یہاں تک کہ ہماری پوری زندگی پر اثر اندازہوتے ہیں آئیے اس بات کا اندازہ ہم اک چھوٹے سے واقعہ سے لگاتے ہیں۔

امریکہ کے ایک قیدی کو پھانسی کی سزا سنائی گئی تو وہاں کے کچھ سائنس دانوں نے اس پر اک تجربہ کیا جس میں قیدی کو بتایا گیا کہ ا سے پھانسی کے ذریعے نہیں بلکہ کوبرا سانپ سے ڈسوا کر مارا جائے گا پھر ا س کے سامنے بڑا سا زہریلا کوبرا سانپ لایا گیا اور اس کی آنکھیں بند کرکے اس کو کرسی سے باندھ دیا گیا مگر درحقیقت ا سے سانپ سے ڈسوانے کی بجائے صرف دو سیفٹی پِن چبھوئی گئیں ،نتیجتاً قیدی کی کچھ سیکنڈ میں ہی موت واقع ہوگئی..پوسٹ مارٹم کے ذریعے معلوم ہوا کہ قیدی کے جسم میں سانپ کے زہر جیسا ہی زہر پایا گیا ،مزید چھان بین کے بعد پتہ چلا کہ وہ زہر ا س کے جسم نے ہی صدمے میں جاری کیا تھا۔

اِس سارے واقعہ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ہماری ہر سوچ سے مثبت یا منفی توانائی بنتی ہے اور وہ ہمارے جسم میں اسی کے مطابق ہارمونز تیار کرتی ہے ، اگر بالفرض محال ہم اس واقعہ کی صداقت پر اعتبار نہ بھی کریں یا اسے نظر انداز کردیں تب بھی موجودہ سائنسی اصطلاحات میں آپ نےAnxiety , Depression and Stress,جیسے الفاظ تو ضرور سنے ہوں گے کہ جن کے باعث خلفشارِ خون (hypertension) ، دورہءقلب (cardiac arrest) ، فالج(paralysis)، دماغ کی شریان کا پھٹ جانا (brain hemrrhoege) اور اعصابی تناؤ (nervous breakdown) جیسے مہلک امراض دیکھنے سننے میں آتے ہیں۔ تو ان میں سے پچھتر فیصد بیماریوں کی وجہ منفی سوچ ہی ہوا کرتی ہے۔ اور آج انسان بیشتر امراض کا شکار اِسی منفی سوچ اور ا س کے ردّ ِعمل کے سبب سے ہے۔

سورةالحجرات میں نسلِ انسانی کے لیے اللہ ربّ العِزّت کا یہ واضح پیغام ہے کہ
” بہت زیادہ گمان کرنے سے بچو کیونکہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں”

یہاں تک کہ یہی گمان ہماری شخصیت کو مسخ کرنے کا باعث بن جاتے ہیں۔ یوں تو یہ آیت اِسی سورة میں اسی ضمن میں چند انسانی بداعمالیوں یعنی بد گوئی ، لعن طعن ، بہتان تراشی ، غیبت اور استہزاءکے حوالے سے قرآن میں نازل ہوئی مگر اِن تمام گناہوں کی بنیاد بھی شک اور گمان ہی ہے۔ جب کسی کی طرف سے ہم برا گمان کریں گے یا اس کے بارے میں غلط سوچیں گے تو تب ہی ہم یا تو ا س پر طنز و تشنیع کریں گے یا ا س کا مذاق اڑائیں گے ، اسے منہ در منہ برا بھلا کہیں گے اور ا س پر الزام تراشی کریں گے ، یا پھر پیٹھ پیچھے اس کی چغل خوری اور غیبت کریں گے۔ بے شک کہ یہ بات سچ بھی ہو یعنی ہمارا گمان بالکل ٹھیک ہو تب بھی اس کا وبال اتنا ہے کہ اس سوچ کے ذریعہ یہ ہماری شخصیت پر بہت منفی اثرات مرتب کرتا ہے یہاں تک کہ یہی سوچ اور گمان ہماری شخصیت کو مسخ کر کے بدنما بنا دیتے ہیں ؛ متعلقہ شخص کو نقصان پہنچانے سے زیادہ ہماری اپنی جسمانی ، ذہنی و روحانی صحت کو نقصان پہنچاتے ہیں۔اور پھر غیبت کو تو یوں بھی اپنے مردہ بھائی کے گوشت کھانے سے تشبیہ دی گئی ہے اور مردہ گوشت جسم و جاں میں کراہت پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ خطرناک امراض کے جراثیم کی بھی پرورش کرتا ہے ، تو خود سوچیں کہ یہ عملہمیں قلبی و جسمانی نقصان پہنچانے کے علاوہ اللہ تعالیٰ کے لیے کس قدر ناگوار اور ہمارے لیے کس حد تک ا س کا غضب سمیٹنے کے مترادف ہوگا؟

ایسی ہی تباہ کن سوچ اور فکر کو لے کر ہمارے معاشرے ، ہمارے خاندانوں اور ہمارے گھرانوں میں گرہ پڑ چکی ہے بلکہ ان کی اساس تک متزلزل ہو چکی ہے۔ ایک دوسرے کی طرف سے بدگمانی شکوک و شبہات ہماری معاشرتی اور بالخصوص گھریلو زندگی کا خاصہ بن چکے ہیں اور بے شمار گھر انہی وجوہات کی بناءپر ٹوٹ بھی چکے ہیں۔

شوہر یا بیوی کا ایک دوسرے پر شک ، بہو کا اپنے سسرال والوں بالخصوص ساس نندوں کی نیتوں پر شبہ ، سسرال کے بہو پر طرح طرح کے گمان اور الزامات نہ صرف یہ کہ گھروں کو بلکہ شیشے سے بھی نازک دلوں کو توڑ کر رکھ دیتے ہیں اور یہی نہیں اب تو آپس میں رحمی رشتوں میں بھی بدگمانیاں اور ناچاقیاں بہت عام ہوگئی ہیں جو قطع تعلق کی بنیادی وجہ بن جاتی ہیں۔ ذرا تصور کریں کہ وہ والدین اور وہ بہن بھائی جو کل شِیر و شکر ہوا کرتے تھے آج زرا زرا سی باتوں پر ، دلوں میں بدگمانیوں کو پال کر ، اپنی انا کو مقدّم رکھ کر ، بعض اوقات زندگی بھر کے لیے جدا ہوجاتے ہیں اور اِس کی بنیادی وجہ بھی وہی سوچ ، وہی گمان ہے۔ آخر ایسا کیوں نہ ہوا کہ ہم بدگمانی کی بجائے خوش گمانی اختیار کرتے ، دل میں برا گمان آتے ہی جذبات میں بہنے کی بجائے خود پر قابو رکھنے کی کوشش کرتے ، اللہ سے مدد طلب کرتے اور اگر وقتی طور پر نفس غالب آ بھی گیا تھا تو جذبات کے ذرا ٹھنڈا ہوجانے پر اللہ سے رجوع کرتے اور توبہ و استغفار کرتے؟مگر ہم جانتے ہیں کہ عموماً ایسا نہیں ہوتا کیونکہ ہماری زندگی میں نفس پرستی ، خود غرضی اور بے حسی کی باعث ایسا خلاءآچکا ہے جو ہمیں اپنی ذات سے آگے بڑھ کر سوچنے کا موقعہ ہی نہیں دیتا۔
مگر کیا اس بات کا کوئی حل نہیں؟ اس مسئلے کا آخر کوئی تو سدّباب ہوگا۔

کیوں نہیں ، سب سے بہترین حل تو ا س خالق سے تعلق ہے جو ہماری شہ رگ سے بھی نزدیک ہے۔ اور اس تعلق کو جوڑنے کا سِرا ہمیں اپنی خلوصِ نیّت میں ملے گا۔ جب ہم اخلاص سے ربّ تعالیٰ سے دعاگو ہوں گے تو یہ ہو نہیں سکتا کہ وہ ہماری طلب پر ہماری مدد کو نہ آئے۔ اور پھر جب اللہ کی موجودگی اور ا س کی رضا کا احساس ہر پل ہمارے ساتھ ہو تو ہماری سوچ خودبخود اِس احساس کے تابع ہوتی چلی جائیگی اور خود احتسابی ہمارا اندازِ فکر تبدیل کردے گی۔ پھر ہم اِسے اپنی ذمہ داری سمجھنے لگیں گے کہ تمام منفی سوچوں سے اپنا دامن بچائیں ، گھروں کو ٹوٹنے سے محفوظ رکھیں اور سب سے بڑھ کر اپنی آخرت کی حفاظت کریں۔ اب یہ ایسا بھی مشکل نہیں۔ ذرا سا صبر ، تھوڑی سی برداشت اور سوچ کی شفّافیت ، یہ نہ صرف آپکو گھریلو سکون ، دلی اطمینان ، ذہنی آسودگی بلکہ روحانی پاکیزگی اور صحتمند زندگی بھی عطا کرے گی۔

اور صبر اور برداشت کا تو یوں بھی ہماری زندگی میں جو مقام ہے وہ تو سورةالعصر کی ان آیات سے بخوبی واضح ہو جاتا ہے کہ جن میں باری تعالیٰ نے زمانے کی قسم کھا کر انسان کو سخت خسارے میں مبتلا بتایا ہے ، سوائے ان لوگوں کے کہ جو اللہ تعالیٰ اور زندگی بعد از موت پر ایمان رکھتے ہیں ، نیکیوں میں سبقت لے جانے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں ، خود بھی صحیح اور حق بات کی پیروی کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی اس کی نصیحت کرتے ہیں اور سب سے بڑھ کر جہاد بالنّفس کرتے ہیں یعنی خود بھی صبر اور برداشت سے کام لیتے ہیں۔اس سورة میں ہمیں یہ بتایا گیا ہے کہ ایک انسان کو خسارے سے نکال کر کامیاب کرنے والے اوصاف اگر کوئی ہیں تو وہ یہ چار اوصاف ہیں ؛ ایمان پر قائم ہونا ، نیک کاموں پر عمل پیرا ہونا، سچ اور حق پر خود بھی قائم ہونا اور اپنے ارد گرد سبھی کو اس کی وصیت کرنا اور پھر اس راستے میں جو بھی نشیب و فراز یا رکاوٹیں آئیں انھیں صبر اور ہمت سے کام لیتے ہوئے برداشت کرنا۔ تو یقیناً اس بات سے یہ ثابت ہوا کہ صبر کی ہماری زندگی میں کتنی اہمیت ہے اور آج کی اِس دنیا میں جہاں یہ وصف تقریباً ناپید ہوگیا ہے اِسے اپنی زندگی میں شامل کرنے سے ہمیں اِس موجودہ دنیا اور ا ±س ا ±خروی جہاں میں کیا کچھ بھلائیاں مِلنے کی توقع ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors

چونکہ ہم نے اپنی بات کا آغاز ایسے ہی اک واقعہ سے کیا تھا جس میں سوچ اور گمان قلب و ذہن بلکہ پورے جسم پر کچھ اس طرح اثر انداز ہوئے کہ انسان کی موت کا باعث بن گئے، تو یہ بات کھل کر سامنے آگئی کہ منفی سوچ کس حد تک نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہے اور اسی طرح اگر سوچ کو مثبت بنا لیا جائے تو اس سے کس طرح افادہ حاصل کیا جاسکتا ہے۔ دعا ہے کہ اللہ ربّ  العِزت ہمیں صاف ، شفاف ، خوبصورت سوچ اور صبر اور برداشت جیسے اوصاف عطا فرمائے تا کہ اِس موجودہ دنیا میں ہم صحتمند زندگی اور ا س آخروی جہاں میں نعمتوں سے بھرپور حیاتِ جاوداں پاسکیں ، آمین۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply