“مرد” ناول سے ماخوذ۔۔عارف خٹک

زریاب بہت پریشان تھا۔ دو راتوں سے وہ بغیر نیند کے مسلسل جاگ رہا تھا۔ بدقسمتی سے وہ ماں سے بھی بات نہیں کر پارہا تھا کیونکہ اماں نے کھل کر اس کو خبردار کیا تھا “زریاب تم اتنے بڑے ہوگئے ہو کہ نہ تو پہلی شادی پر ہم سے پوچھنے کی زحمت کی اور اب دوسری کرنے پر تم نے بتانے کی زحمت گوارا کی۔۔۔ بہتر یہی ہے کہ خود بھگتو”۔

زریاب نے دوسری شادی علینہ سے کی تھی جو پی ایچ ڈی ڈاکٹر تھی اور کسی مقامی یونیورسٹی میں پڑھاتی تھی۔ علینہ مدھم لہجے میں بات کرنیوالی خاتون تھی۔ خوداعتمادی اور شخصیت میں ایک عجیب طرح کا رکھ رکھاؤ  جو کسی بھی مرد کو ایک خاص حد تک بڑھنے سے روک دیتا۔ چہرے پر متانت اور سنجیدگی نے زریاب کو بیحد متاثر کیا۔ علینہ چالیس سال کی ایک مطلقہ تھی۔ زریاب یہ سوچ رہا تھا کہ کتنا بدقسمت شوہر تھا جس نے علینہ جیسی نرم خو عورت کو خود سے دور رکھا۔ لہذا زریاب آہستہ آہستہ علینہ کے قریب ہوتا گیا اور گل مینہ کا سوچ کر زریاب کو اب ابکائیاں سے آنے لگتی تھیں، اور بیچارا یہ سوچ کر حیران ہوتا کہ زندگی کے تیرہ سال اس نے کیسے اس جہنم میں ایک جاہل،گنوار اور بدزبان عورت کیساتھ گزارے۔ جو بات بات پر ایسی ننگی ننگی گالیاں دیتیں تھیں کہ سننے والا پاگل ہوجائے۔

چھ ماہ کے بعد پتہ ہی نہیں چلا کہ علینہ سے کب اس کی شادی ہوگئی۔ گل مینہ کو اس شادی کا پتہ نہیں چلا کیونکہ اس نے بہت بڑا ہنگامہ مچانا تھا۔ اس لئے علینہ نے بھی زریاب سے اس بات کا عہد کیا کہ چوری چھپے شادی کرلیتے ہیں۔ شادی کے دو ماہ بعد جب کسی بات پر علینہ غصے میں آگئی۔ تو زریاب کو احساس ہوگیا کہ کوّا ایک دفعہ پھر گوو پر چونچ مار بیٹھا ہے۔

“تم مرد نہیں ہو تجھ سے اچھا تو میرا سابق شوہر تھا کم از کم رات کو اکیلا چھوڑ کر تو نہیں جاتا تھا۔ دو دن بعد تم گل مینہ سے ملنے جاتے ہو مجھے اکیلا چھوڑ دیتے ہو”۔ زریاب اپنی جگہ پر منجمند ہوکر رہ گیا۔ کہ علینہ جیسی پڑھی لکھی عورت بھی ایسا بول سکتی ہے؟۔ “دیکھ عالی۔۔۔ میرا بچہ ہے اس کو میری ضرورت ہے۔ میں گل مینہ سے نہیں اپنے بچے سے ملنے جاتا ہوں”۔۔۔زریاب نے بے بسی سے اس  کی طرف دیکھا۔ مگر  آج علینہ کے تیور بدلے ہوئے تھے۔

“تم ایک کام کرو مجھے طلاق دیدو۔۔ جب تم کسی کو یہ بتا نہیں سکتے کہ میں تمھاری بیوی ہوں تو کوئی فائدہ نہیں اس شادی کا”۔ زریاب ہکا بکا اس کا منہ دیکھنے لگا۔ کہ دونوں کا مشترکہ فیصلہ تھا کہ ہم ساتھ رہیں گے مگر مناسب حالات دیکھ کر اپنی شادی کا اعلان کریں گے۔

“دیکھو عالی۔۔۔ حالات اچانک قابو سے باہر نکل جائیں گے تجھے نہیں معلوم کہ گل مینہ کتنی جاہل عورت ہے۔۔۔ وہ ہم دونوں کا جینا دوبھر کردیں گی”۔ زریاب نے آخری کوشش کی۔

“بات گل مینہ کی نہیں زریاب تم ہیجڑے ہو۔۔ تیرے جیسے مردوں کو میں منہ تک نہیں لگاتی تھی ورنہ میرا شوہر تم سے اچھا تھا۔ کتے کی طرح رکھا ہوا  تھا مگر اس کی ماں ایک نمبر کی رنڈی تھی۔۔۔ تجھے دیکھ کر مجھے افسوس ہورہا ہے ورنہ کشمیر کا وہ عباس جو مجھ سے پیار کرتا تھا۔ میں نے تم کو اس پر ترجیح دی۔۔۔۔۔ بہت غلط کیا”۔
پٹاخ کی آواز آئی اور زریاب نے علینہ کے گال سرخ کرڈالے۔ “بے غیرت عورت تجھے پتہ ہے تم کیا بکواس کررہی ہو؟”۔
علینہ زخمی شیرنی کی طرح اس پر چڑھ دوڑی اور اپنے لمبے ناخن اس کے چہرے پر گاڑ دیئے۔

زریاب کو دوسرا جھٹکا اس وقت لگا جب علینہ کے موبائل میں اس کو عباس راجہ کا محبت نامہ ملا جس میں دونوں نے عہدوپیمان کیے  تھے۔ زریاب کو یہ بھی معلوم ہوا کہ علینہ پہلے سے ہی بدکردار تھی حالانکہ اس کا پہلا شوہر جو کسی بینک کا مینجر تھا اس کو اتنا مجبور کیا کہ اس نے بالآخر طلاق دیدی اور علینہ شہر آکر اپنے سے دوگنی عمر کے مرد کیساتھ رہنے لگی۔ زریاب سے شادی کے بعد بھی ابھی بھی اس کا پرانے عاشقوں سے رابطہ ٹوٹا نہیں تھا بلکہ پہلے سے زیادہ بڑھ گیا تھا۔

زریاب نے فوری طور پر  علینہ کو طلاق دینے کا فیصلہ کیا۔ مگر اس سے پہلے علینہ اپنے پتے کھیل چکی تھی۔

Advertisements
julia rana solicitors

علینہ نے اپنے فوٹوز اور رومانٹک لمحات کی کچھ تصویری ثبوت گل مینہ کو بھیج دیئے۔ اور زریاب کو فقط اتنا معلوم ہوا کہ گل مینہ نے اپنے ہاتھوں کی  رگیں کاٹ ڈالیں ہیں۔۔

Facebook Comments

عارف خٹک
بے باک مگر باحیا لکھاری، لالہ عارف خٹک