یہ ایلچی گری لفظوں کی۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

یہ ایلچی گری لفظوں کی (ایک)

یہ ایلچی گری مجھ سے نہیں ہوتی، مولا

یہ ایلچی گری لفظوں کی جلتی مشعل سی

میں کتنے برسوں سے اس کو اٹھائے پھرتا ہوں

شروع ِ عمر سے اب تک بلند و بالا رکھے

میں تھک گیا ہوں اس بار ِ گراں کو ڈھوتے ہوئے

یہ بوجھ اب نہیں مجھ سے اٹھایا جائے گا

کہاں یہ شعر و سخن اور کہاں مقدمۃالجیش

کہاں تکلّم و گفتار، ، لحن ِ داؤدی

کہاں یہ جنگ و جدل، حرب و ضرب، بمباری

کہاں صنائع ، بدائع، امیجری، تمثیل

کہاں یہ بم کے دھماکے، کہاں سپاہ گری!

کہاں میں کونے میں بیٹھا ہوا قلم مزدور

’کہاں “دماغ دھُلے” یہ چراغ پا بمبار

اگر تھی شاعری ہم وضعِ لفظِ خیرِ بشر

اگر تھی شاعری بر حق پیمبری تو مجھے

قبول تھی یہ منادی، وقائع برداری

مگر یہ بار ِ گراں مجھ سے اب نہیں اٹھتا

یہ ایلچی گری ہوتی نہیں ہے اب، مولا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ ایلچی گری لفظوں کی . (دو)

​یہ ایلچی گری مجھ سے نہیں ہوتی، مولا

کہ اس وبا کے دنوں میں کہاں ہے ہم سخنی؟

یہ ایلچی گری لفظوں کی ، کلمہ جنبانی

مباحثہ کوئی محفل میں ،تو تو میَں میَں ہی

یہ کج زبانی ہے اب، صم بکم سی بے صو تی

نہ کوئی گفتگوئے باہمی، نہ کوئی “مونولاگ”

نہ قیل و قال کوئی، اور نہ کوئی گفت و شنید

یہ اجتماع ہی ممکن ہے چار یاروں کا

نہ طائفہ، نہ جماعت، نہ جمگھٹا، نہ جلوس!

ضرورتاً بھی نہیں بات چیت ، لفظی جنگ!

اکیلا بیٹھے ہوئے بولتا ہوں خود سے کبھی

ہزار وقفوں سے، وقتاً فوقتاً، رک رک کر

ہے انتشدار بھی، بکھراؤ بھی، اکھاڑ پچھاڑ

رواں دواں نہیں کچھ بھی، مداومت ہو کہاں؟

خدایا، رحم! مجھے بخش دو کہ اب مجھ سے

Advertisements
julia rana solicitors

یہ ایلچی گر ی لفظوں کی غیر ممکن ہے!

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply