ہسٹیریا کی ہسٹری۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

وہ نیک لڑکی تھی ۔۔
صلح کُل، پاکباز، بے داغ، بھولی بھالی
وہ اپنی معصوم نیک چلنی میں لپٹی،لپٹائی، باکرہ تھی
غریب گھر کی کنواری کنیا
نجانے کیسے
ذرا سے اونچے، امیر گھرمیں
بیاہی آئی تو اپنےشوہر کے لڑ لگی ۔۔۔
اس کی ہم سفر، اس کی نصف بہتر
یہ رشتہ ء ازدواج بھی اک عجیب شے ہے
کہ آمنے سامنے کا ر شتہ
تو مرد عورت کا ہے مگر اس
کے آگے پیچھے
کچھ اور رشتے بھی ہیں نمایاں
سسر بھی ہے، ساس بھی ہے ، دیور بھی۔۔۔
بھاوجیں بھی ہیں اور بچے بھی

غریب گھر سے لوائی آئی یہ نئی دلہن؟
کہاں کی بیگم تھی، شاہزادی؟
جونہی یہ بیت العروس سے پہلے پندھرواڑے کے بعد نکلی
تو اس نے دیکھا
وہ سب کی نوکر تھی، “ہاؤس وائف”
کہ فرض تھا اس کا مشفقانہ سلوک سب سے
یہ ایسا حق ِ نمک تھا جس کی
ادائی میں کچھ ذرا سی غفلت بھی سرکشی تھی

وہ منہ اندھیرے سے رات تک ۔۔۔
گھر کے چولہے چوکے میں غرق رہتی
ہر ایک شب اپنا ٹوٹتا جسم اس خدا کے سپرد کرتی
جو اس کا خاوند تھا، مستبد، سخت گیر، آمر

جب آٹھ نو سال یونہی گزرے
تو ایک کے بعد دوسری کے پیچھے تیسری،
یوں قطار اندر قطار تین اور بیٹیوں نے جنم لیا۔۔۔
پانچ بیٹیاں؟ ہائے! اس ابھاگن
کے بھاگ میں کیا نرینہ اولاد ہی نہیں ہے؟
کہا سبھی نے
وقار، ساکھ اور دبدبہ تو نہیں تھے پہلے بھی۔۔۔
بیسی کھیسی سی کل کی دلہن پہ دورے پڑنے لگے۔۔
سراسیمگی کے ،وحشت کے
خبط کے ، رونے، چیخنے کے

Advertisements
julia rana solicitors

یہ کل کی دلہن
جو آج ہسٹیریا کی ماری ہوئی ہے بڑھیا
یہ ایک رفت و گزشت سی ۔ عام سی کہانی ہے! ہے نہیں کیا؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(ایک خاتون دوست کے ایما پر لکھی گئی کہانی)

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply