مکہ کی روایتی سنہری صراحیوں کی تاریخ۔۔منصور ندیم

سعودی عرب میں رہنے والے یا جو لوگ یا کسی نہ کسی واسطے مقیم یا کبھی سفر پر آئے ہوں ،انہوں نے یہاں بڑے پنج ستارہ ہوٹلوں یا کسی مخصوص روایتی میلوں میں سنہری رنگ کی منقش قد آدم اور لمبی گردن والی صراحیوں میں خدام یا ویٹرز کو شرپت پیش کرتے ہوئے دیکھا ہوگا، یہ صراحیاں تقریبا ًایک آدمی کے قد کے قریب ہوتی ہیں جنہیں یہ خدام مخصوص لباس میں اپنی پیٹھ پر لٹکائے ہوتے ہیں اور اس کی گردن آگے کو جھکی ہوتی ہے۔ یہ پانی پلانے کا رواج مکہ کی روایت کا ایک تہذیبی مظہر ہے جسے آج بھی اپنی روایتی تہذیب کے احیاء کے لئے انہوں نے زندہ رکھا ہوا ہے ۔

سعودی عرب آج جس قدر ترقی یافتہ ملک نظر آرہا ہے، جیسے سارے ملک میں انتہائی چوڑی چوڑی سڑکیں، خوبصورت جدیدترین عمارتیں قائم ہیں، ہر قسم کے نئے ماڈلز کی بھاری بھر کم کاریں، حرمین شریفین کی خوبصورتی نے باقی تمام خوبصورتیوں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے، دولت کا جیسے وہاں دریا بہہ رہا ہو اور ریگستان جیسے وہاں سے بالکل نابود ہو گئے ہوں، آج سے کم از کم ۸۰ سال پہلے تک بھی یہ ملک ہرگز ایسا نہیں تھا۔ بلکہ ایک انتہائی پس ماندہ، ترقی سے کوسوں دور، جدید تہذیب سے قطعی ناواقف اور غربت کا مارا ہوا ملک تھا۔ اور وہاں اس وقت بھی پانی کی ترسیل اور دستیابی نایاب تھی۔

چونکہ زمانہ قدیم سے ہی خطہ عرب میں پانی نایاب رہا ہے، خطہ حجاز میں چونکہ مکہ کو ایک مرکزی حیثیت حاصل رہی ہے، اور ابتداء میں جو لوگ یہاں آکر آباد ہوئے، ان کی خواہش یہی تھی کہ آب زمزم کے کنویں کے قریب انہیں رہائش حاصل ہوجائے۔ یہ وہ زمانے تھے جب آبادیاں آبی ذخائر کے اطراف ہی بسا کرتی تھیں۔ اس لئے زمانہ قدیم سے ہی پانی کی ترسیل اور دستیابی کو ایک پیشے کی اہمیت حاصل تھی، مکہ میں اس کام سے وابستہ افراد کو ’سقایہ‘ یعنی پانی کا انتظام کرنے والا کہا جاتا تھا۔ یہ پیشہ ورانہ رواج ہے جس سے خصوصا وہاں پر پانی سے وابستہ افراد 14 صدیوں سے زیادہ عرصے سے کاربند ہیں۔

اس کی تاریخ اسلام سے ما قبل بھی ملتی ہے۔ اْس وقت پانی پلانے کا کام پیغمبرِاسلام کے دادا جناب عبدالمطلب کی نسل تک محدود تھا۔ فتح مکہ کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ذمہ  داری اپنے چچا حضرت عباس بن عبدالمطلب کو سونپ دی جو طویل عرصے تک ان کی نسل کے پاس رہی، بعد ازاں یہ آلِ زبیر کے ہاتھوں میں منتقل ہو کر کچھ عرصہ ان کے پاس رہی۔ اس دوران حجاج کی کثیر تعداد کے پیشِ نظر دیگر لوگ بھی اْن کے ساتھ اس کام میں شریک ہوئے۔ مکہ میں چونکہ پانی کی قلت تھی اور خصوصاً  حج کے موقع پر ہزاروں حاجیوں کے لیے پانی کا خاص انتظام کیا جاتا تھا۔ اس کے لیے چمڑے کے حوض بنوا کر اُنہیں صحنِ کعبہ میں رکھا جاتا اور آس پاس کے چشموں سے پانی منگوا کر اُنہیں بھر دیا جاتا تھا۔

بعد ازاں حجاج کرام کو پانی پلانے کا اعزاز مکے کے بہت سے خاندانوں کو حاصل ہوا جو اب “زمازمہ” کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ الزمازمہ کا ادارہ 10افراد پر مشتمل ہوتا تھا۔ ان کا تقرر انتخاب سے ہوتا تھا۔ یہ لوگ شیخ الزمازمہ کے معاون و مددگار ہوا کرتے تھے۔ شیخ الزمازمہ زمزم کے کنوئیں پر پانی نکالنے والوں کے شیخ کا تقرر کرتا تھا۔ اسے شیخ السقاۃ کہا جاتا تھا۔ شیخ الزمازمہ کو اس کنبہ کا بزرگ تصور کیا جاتاتھا۔ یہ لوگ وقتاً فوقتاً ملاقاتیں کرتے اور ایک دوسرے کے احوال و کوائف دریافت کرتے اور ایک دوسرے کے مسائل حل کرنے میں تعاون پیش کرتے تھے۔ شادی بیاہ، عیدین اور مختلف سماجی خوشیوں میں جمع ہوتے اور شیخ الزمازمہ جھگڑے بھی طے کیا کرتا تھا۔

حرم مکی آب زمزم کے کْولروں اور تھرماسوں سے قبل زمازمہ خاندان مسجد حرام میں پھیلے ہوتے تھے۔ یہاں ہر خاندان یا گھرانے کے لیے الخلوہ کے نام سے ایک جگہ ہوتی تھی جہاں وہ زائرین اور طواف کرنے والوں کو پانی پلانے میں استعمال ہونے والے مختلف قسم کے برتنوں کو رکھتے تھے۔ جہاں سَقّوں کے ذریعے آبِ زمزم منتقل کیا کرتے تھے۔ اس کے بعد پانی کو ٹنکیوں جیسے بڑے برتنوں میں ڈال دیتے تھے۔۔ پہلے زمانے میں ’’سقے‘‘ یعنی پانی پلانے والے کھال سے بنی مشکوں میں پانی بھر کرحجاج اور معتمرین کو پیش کرتے تھے۔

مکہ مکرمہ میں ابھی 3 دہائیاں قبل تک اہل مکہ مخصوص لباس پہن کر مٹی کی لمبی گردن والی صراحی میں آب زمزم بھر کر چاندی کی مخصوص کٹوریوں میں زائرین حرم کو پیش کیا کرتے تھے۔ ان صراحیوں کو وہ دھونی بھی دیا کرتے تھے تا کہ پانی میں خوشبو آ جائے۔ اس کے بعد ان صراحیوں کو پانی سے بھر دیا جاتا تھا اور زمازمہ کے فرزندان اپنے روایتی مخصوص لباس اور حلیے کے ساتھ حجاج کو آب زمزم پیش کیا کرتے تھے، ان کٹوروں پر قرآنی آیات منقش ہوتی تھیں۔ زمزم سقے لایا کرتے تھے۔ زمزم کے کنوئیں سے مشک کے ذریعے زمزمی کے کمرہ پر پہنچایا کرتے تھے۔ یہ کام حج کے وقت فجر کی نماز کے بعد انجام دیا جاتا تھا، پانی ڈول سے نکالاجاتا تھا۔

مسجد الحرام میں ہر زمزمی کی ایک جگہ مخصوص تھی جہاں وہ فرش بچھاکر بیٹھتا تھا اور اس کے بچے حاجیوں کو مخصوص قسم کے کٹوروں میں زمزم پیش کیا کرتے تھے۔ ہر زمزمی کٹورہ پہ اپنا نشان لگایا کرتا تھا کہ اس کے کٹورے دوسرے زمزمی کے کٹورے سے جدا رہیں۔ زمزمی صراحیاں بھی رکھا کرتے تھے جن سے حاجی ، زائرین اور معتمرین زمزم پیا کرتے تھے ۔ صراحی پر کپڑا پڑا رہتا تھا۔ زمزم کا پانی حاجیوں کو ان کی قیام گاہ پر بھی پہنچایا جاتا تھا۔ حاجیوں کو ایک صراحی روزانہ پیش کی جاتی تھی ۔ پورے حج موسم میں یہ سلسلہ چلتا تھا۔ رمضان المبارک میں بھی زمازمہ کا کام بڑھ جاتا تھا۔ زمزمی، فجر کے بعد سے تیاریاں شروع کردیتے تھے۔ زمزمی غسل کعبہ میں بھی حصہ لیا کرتے تھے یعنی جہاں ملک کا فرمانروا اور متوالیان کعبہ، (اغوات) اور خدام خانہ کعبہ کو غسل دیا کرتے تھے ۔

یہ رواج کئی برسوں تک جاری رہا یہاں تک  سنہء ء1982 میں سعودی حکومت نے مکہ مکرمہ میں “زمازمہ” کا ادارہ قائم کیا اور ایک شاہی فرمان جاری کیا گیا کہ حرم مکی میں حجاج کو پانی پلانا حرمین شریفین کی پریذیڈنسی کی ذمے داری ہے۔ ساتھ ہی پانی پلانے کی ذمے داری سر انجام دینے والے تمام گھرانوں اور خاندانوں کو ایک چھتری کے نیچے جمع کر کے اْسے “الزمازمہ یونیفائیڈ بیورو” کا نام دے دیا گیا۔

آب زمزم کا ادارہ شروع میں مختصر تھا، رفتہ رفتہ اسکا دائرہ کار وسیع ہوتا گیا۔ واٹر کولر کی صفائی کی نگرانی، مقررہ مقامات پر واٹر کولرز رکھوانا، ان میں پانی بھروانا، نئے گلاس رکھوانا، پرانے اٹھوانا سبیلوں کی صفائی، زمزم کی فراہمی میں حفظان صحت کے ضوابط کی پابندی پر امور ہے۔ زمزم کی تعقیم، مسجد نبوی کو آب زمزم کی فراہمی ، ٹینکوں کی صفائی اس کے فرائض میں شامل ہے۔ اس سے قبل آب زمزم، برف کی سل سے ٹھنڈا کیا جاتا تھا۔ 1405 ھجری میں جنرل پریذیڈنسی نے آب زمزم کے معائنے کیلئے مکمل لیباریٹری قائم کی۔ 1424ھجری میں آب زمزم کے تہ خانے پر چھت ڈالی گئی ۔ تہ خانہ میں موجود زمزم کی ٹونٹیاں صحن حرم میں منتقل کر دی گئیں۔ اس کی وجہ سے مطاف میں اچھا خاصا اضافہ ہوگیا۔ زمزم کا پانی اب پورے حرم میں ہر تھوڑے فاصلے پر سبیلوں یا کولروں میں باآسانی میسر ہے جبکہ زمزم کا کنواں بھی آج مسجد الحرام میں شامل ہوگیا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

لیکن عربوں نے اپنی منقش لمبی صراحیوں کو آج بھی روایت کے طور پر زندہ رکھا ہوا ہے ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply