دیر بالا کے ایک سرکاری سکول کی حالت زار۔۔محمد حسین آزاد

دیر بالا کے علاقے نہاگ درہ کے یونین کونسل بانڈے میں گورنمنٹ پرائمری سکول ماتاڑ نمبر 1پانچ سال پہلے 2015 کے زلزلے میں مکمل طور پر گر تباہ ہو گیا تھا۔ سکول میں دو کمرے تھے جو دونوں کی دیواریں مکمل گرگئی تھی اور دونوں کمرے استعمال کے قابل نہیں رہے تھے۔ اب سکول کے سب بچے کھلے آسمان تلے بیٹھ کر تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ چونکہ یہاں سردی کا موسم طویل ہوتا ہے’ اکتوبر سے اپریل تک سخت سردی ہوتی ہے۔ سردی میں بچے زیادہ ٹھنڈ کی وجہ سے ٹھٹھرتے ہوئے سکول آتے ہیں اور زیادہ تر بچے شدید سردی کی وجہ سے سکول آتے بھی نہیں۔ سکول کا مذکورہ عمارت کسی بھی وقت کسی بھی قسم کے خطرے کا سبب بھی بن سکتا ہے۔ خدانخواستہ اگر دوران سکول’ سکول کا باقی حصہ گرگیا تو جانی نقصان بھی ہوسکتا ہے’ اب سوال یہ ہے کہ اگر اس کی وجہ سے کسی بچے کی زندگی ضائع ہوئی تو اس کا زمہ دار کون ہوگا؟
سکول کے اساتذہ کرام نے بتایا کہ پانچ سال گزر گئے’ آئی ایم یو والے ہر ماہ سکول کا ویزٹ کرتے ہیں۔ سکول کا جائزہ لیتے ہیں’ سکول کی خراب صورت حال ان کے سامنے ہوتی ہے لیکن آج تک محکمہ تعکیم سے کوئی پوچھنے نہیں آیا۔ ہیڈ ٹیچر صاحب نے بتایا” ہم نے محکمہ تعلیم کے ساتھ ساتھ اپنی فریاد ڈپٹی کمشنر دیر بالا تک بھی پہنچائی لیکن جب انہوں نے متعلقہ ادارے یعنی ڈی ای او صاحب سے وضاحت طلب کی تو ڈی ای او صاحب نے مجھ سے وضاحت طلب کی کہ میں نے ڈی سی صاحب سے شکایت کیوں کی؟ “۔
سکول اب بھی جیسے کہ تیسا ہے’ بچے کھلے آسمان تلے بیٹھتے ہیں۔اور تبدیلی سرکار سے سوال کر رہے ہیں کہ آیا اسلام آباد میں بھی ایسے سکولز ہیں؟ میاں والی اور ایبٹ آباد میں بھی ویران سکولز موجود ہیں؟ پشاور اور سوات میں بھی بچے کھلے آسمان تلے خاک پر بیٹھ کر تعلیم حاصل کر رہے ہیں؟ یا ہمارا کوئی حق نہیں بنتا کہ ہمیں بھی تعلیم حاصل کرنے کے لئے کوئی چت مل سکے’ بیٹھنے کے لئے کرسی نہ سہی’ کوئی ٹاٹ مل سکے۔ موجودہ حکومت نے تو ” دو نہیں ایک پاکستان” کا نعرہ لگایا تھا اب یہ کیسا ایک پاکستان ہوا؟
قارئین’ پاکستان کے ہر بچے کو تعلیم دینا پاکستان کے ریاست کی زمہ داری ہے۔اقتدار میں آنے سے پہلے حکمران جماعت کے لیڈروں اور خاص کر عمران خان نے اس وقت کے حکمرانوں پر الزامات لگا لگا کر نہیں تھکتےکہ دہائیوں سے یہ لوگ پاکستان پر قابض ہیں لیکن حالات خراب سے خراب تر بنتے جارہے ہیں۔ چونکہ حقیقت میں ایسا تھا بھی تو لوگوں نے ان حکمرانوں سے بیزار ہوکر خان صاحب پر یقین کیا اور ان سے بہت سارے امیدیں وابستہ کردی۔ لیکن خان صاحب کی حکومت آنے کے بعد ان بےچارے اور معصوم لوگوں کی وہ ساری امیدیں خاک میں مل گئی۔ وزیر اعظم بننے سے پہلے خان صاحب نے کہا تھا کہ وہ سب سے زیادہ توجہ تعلیم پر دیں گے۔ ملک کی تعلیمی صورت حال بہتر کرے گے۔ لیکن اقتدار میں آنے کے بعد شاید وہ اپنی پرانی باتیں بھول چکے ہوں گے! کیونکہ موجودہ دور میں تعلیم کے ساتھ بہت نا انصافی ہوئی۔ غیروں کے احکام مان کر اپنے ملک کی تعلیمی معیار گرایا گیا۔
پاکستان میں تعلیم کی شرح بہت کم ہے’ اس میں کوئی بہتری نہیں آرہی۔ اس کی بہت ساری وجوہات ہیں لیکن میرے خیال میں سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ حکومت اس طرف کوئی توجہ نہیں دے رہی۔ یہاں پر جو غیر معمولی ذہن کے قابل لوگ ہیں وہ پاکستان کی بجائے ترقی یافتہ ممالک کا رخ کرتے ہیں۔ کیونکہ پاکستان میں انہیں اپنی محنت اور قابلیت کا وہ صلہ نہیں ملتا جو انہیں ملنی چاہیئے۔ تعلیم کی پسماندگی کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ جی پی ایس ماتاڑ کی طرح ویران سکولوں میں اساتذہ کرام آؤٹ پٹ نہیں دے سکتے۔ کیونکہ ایسے ویران سکولوں میں انسان کا دل “مردہ” ہوجاتا ہے’ پڑھانے کا بلکل بھی من نہیں کر رہا۔ وہ بچوں کی بہتر رہنمائی کی ہر ممکن کوشش تو کرتے ہیں لیکن کر نہیں پاتے۔ کیونکہ جب انسان بیزار ہوجائے تو پھر کچھ بھی ڈیلیور نہیں کر سکتے۔
حکومت سے درخواست ہے کہ دیر بالا واڑی کے پسماندہ علاقہ ماتاڑ کے اس ویران سکول کا نوٹس لے لیں اور اس سکول کی تعمیر نو کرائے۔ اور محکمہ تعلیم کے آفیسرز کے ہاتھوں اس سکول کے اساتذہ کو بےجا تنگ نہ کیا جائے۔ اگر اس سکول کو ری کنسٹرٹ نہیں کیا تو سینکڑوں بچوں کی مستقبل برباد ہوجائے گی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply