چودھری اصغر خادم ایڈووکیٹ (موحوم)۔۔ثنا اللہ گوندل

جب والد صاحب کی ایک حادثے میں 1971 میں وفات ہوئی تو ہم پانچ بھائیوں اور ایک بہن میں میں سب سے بڑے بھائی صاحب پانچویں جماعت میں پڑھتے تھے۔ ہمارے چاچا جی جو لاہور میں سرکاری ملازم تھے۔ وہ ان کو اپنے پاس لے گئے۔ انھوں نے لاہور سے میٹرک کیا۔ پھر مغلپورہ ریلوے ورکشاپ سے مکینک کا کورس کیا۔ مزدوری کے لیے ایران جانا چاہتے تھے۔ کچھ مسائل اور ایران میں مولوی انقلاب کی وجہ سے جا نہ سکے۔ تو ایک سیمنٹ فیکٹری میں بطور مکینک بھرتی ہوگئے۔ اس کے بعد ہم سب کی شادیوں اور نوکریوں تک ہمارے سرپرست اور فنانسر رہے اور دادا کے چھے بیٹوں کی اولادوں میں سے سب سے بڑی نرینہ اولاد ہونے کی وجہ سے اور اپنی فطری شرافت، بے غرضی، مثبت رویے اور حکمت عملی کی وجہ سے چاچے تایوں کی موجودگی میں بھی اور ان کے بعد بھی خاندان کے مسائل اور اختلافات میں اکثر معاملات میں مشورے یا صلح کے لیے بلائے جاتے ہیں۔
تو بھائی صاحب اگرچہ بھرتی بطور مکینک ہوئے لیکن اپنی چودھراہٹ کا شوق انھوں نے ٹریڈ یونین کے ذریعے پورا کیا۔ لیکن اس میں کبھی اپنے لیے کوئی مالی یا کسی اور طرح کا فائدہ نہیں لیا۔ اگرچہ ان پر خاکسار کی اور ان کے بچوں کی میرٹ پر کامیابی پر بھی یونین مخالفین نے گھٹیا الزام لگانے کی کوشش کی۔
خیر ٹریڈ یونین کی وجہ سے بھائی صاحب کا پاکستان میں بائیں بازو کے سیاستدانوں اور دانشوروں سے میل جول ہوا۔ ہمارے تمام نامعقول خیالات اسی وجہ سے ہیں کہ وہ جب بھی یونین کے کسی کیس کی وجہ سے لاہور آتے تو اپنی ملاقاتوں میں خاکسار کو بھی ساتھ لے جاتے۔
اسی عرصے میں انھیں کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے دوستوں نے کسی مقدمے میں چودھری اصغر خادم ایڈووکیٹ کے پاس بھیجا۔
ہم جب قانون کی تعلیم حاصل کرنے لگے تو بھائی صاحب کے ساتھ کئی دفعہ چودھری صاحب کے پاس بھی گپ شپ لگانے چلے جاتے۔
چودھری صاحب ایک باکمال انسان اور وکیل تھے۔ لدھیانہ میں اسی کالج سے پڑھے ہوئے تھے جہاں سے ساحر لدھیانوی پڑھے تھے۔ ہم نے پوچھا کہ پیشہ وکالت میں لوگ ڈراتے ہیں کہ پہلے ہی وکیلوں کی تعداد ضرورت سے زیادہ ہے۔ آپ آکے کیا کریں گے؟ تو بولے جب میں وکالت میں آیا تھا تو ایک باریش بزرگ وکیل نے مجھے بھی یہی بتایا تھا۔
ایک دفعہ انھوں نے بتایا کہ جب انھوں نے قانون کی ڈگری لی تو ان کے کریمنل لا میں 94 نمبر آئے جو اس وقت تک ریکارڈ تھے۔ تو ڈگری کے بعد وہ خود کو وکیل سمجھ کر کچہری جاکر بیٹھ گئے۔ پہلے چھ ماہ تک کسی نے ان کو منہ نہیں لگایا۔ پھر ایک شخص ضمانت کروانے ان کے پاس آیا۔ تو انھیں معلوم ہوا کہ انھیں تو ضمانت کی درخواست بھی لکھنی نہیں آتی۔ تھوڑے پریشان ہوئے تو کچہری کے ایک ٹائپسٹ نے مدد کی اور ضمانت کی درخواست لکھ کر دی۔ فرماتے تھے کہ انھوں نے ملزمان کی طرف سے پانچ سال کریمنل پریکٹس کی اور اپنے تمام کلائنٹس کو بری کروایا۔ صرف ایک ملزم کو سزا ہوئی وہ ہائی کورٹ سے بری ہوگیا۔
پھر کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان میں شامل ہوئے اور پارٹی کے حکم پر لیبر کی وکالت شروع کی۔ تمام عمر صرف ایمپلائیز کی طرف سے وکالت کی۔ فیس ملی یا نہیں ملی۔ کئی دفعہ کلائنٹ کے پاس کرایہ بھی نہیں ہوتا تھا تو رکشے کا کرایہ بھی جیب سے ادا کرتے۔ ایک دفعہ بھائی صاحب نے پوچھا کہ کبھی ایمپلائرز یعنی مالکان کی طرف سے پیش نہیں ہوئے تو بولے پہلے ہم نے نظریات کے چکر میں بھگا دیا۔ اب کوئی آتا ہی نہیں۔
تقسیم کے بعد انھیں سیالکوٹ میں کلیم کی کچھ زمین ملی۔ بیگم صاحبہ دیہاتی خاتون تھیں ان سے بنی نہیں تو علیحدگی اختیار کر کے لاہور آنے کا فیصلہ کیا۔ بیگم صاحبہ نے درخواست کی کہ طلاق نہ دیں۔ انھوں نے طلاق نہیں دی اور اپنی زمین بیگم صاحبہ اور بچوں کے لیے چھوڑ کر لاہور آگئے۔ تمام عمر زمین سے کوئی واسطہ نہ رکھا۔
لاہور میں آکر پھر شادی کی۔ بھائی صاحب بتاتے تھے کہ چودھری صاحب ہم سے برائے نام فیس لیتے تھے جبکہ مقابلے میں مالکان کی طرف سے اکثر نامور وکلا ہوتے تھے۔ لیکن ہمیں کبھی یہ نہیں لگا کہ ہم کوئی کیس کمزور وکالت کی وجہ سے ہارے ہیں۔
یہ خاکسار ایک مقدمے میں لاہور ہائیکورٹ میں بھائی صاحب کے ساتھ موجود تھا۔ مالکان کی طرف سے ڈاکٹر عبدالباسط پیش ہوئے۔ اور فرمایا کہ یہ یونین بڑی بدمعاش ہے اور کارخانہ نہیں چلنے دے رہی۔ بنچ میں جسٹس احسان الحق چودھری بھی موجود تھے۔ انھوں نے فرمایا کہ ڈاکٹر صاحب آپ کیا کہہ رہے ہیں؟ ان کی طرف سے تو چودھری اصغر خادم آئے ہوئے ہیں۔
ڈاکٹر باسط نے فرمایا کہ جناب عالی یہ کبھی مظلوموں کی طرف سے آتے تھے۔ اب یہ ظالموں سے مل گئے ہیں۔ چودھری اصغر خادم وہ کیس ایک قانونی نقطے پر ہار گئے۔
ایک دفعہ بتانے لگے کہ ان کے والد اہلحدیث تھے اور والدہ شیعہ۔ محرم کے دس دن گھر میں مجالس ہوتیں اور والد صاحب بڑ بڑ کرتے رہتے لیکن گھر کے اندر آنے کی بجائے باہر بیٹھک یا ڈیوڑھی میں قیام فرماتے۔ کسی نے سوال کیا کہ یہ آگ اور پانی کا ملاپ کیسے ہوا؟
چودھری صاحب بولے یہ تو مجھے معلوم نہیں لیکن نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔

چودھری صاحب کا گھر دو منزلہ تھا۔ نیچے والے مین گھر میں ان کا کرسچئیین منشی اپنے خاندان کے ساتھ بلا کرایہ رہتا تھا۔ اوپر کے فلیٹ نما پورشن میں وہ خود رہتے تھے۔ منشی بیچارہ بھی اپنی نوکری کے کسی کیس میں سیالکوٹ سے ان کے پاس آیا۔ یہ تو یاد نہیں کہ کیسر کا کیا بنا۔ لیکن وہ کلائنٹ سے منشی میں تبدیل ہو کر چودھری صاحب کے ساتھ ہی رہنے لگا۔

Advertisements
julia rana solicitors

کلائنٹ کے ساتھ بیٹھک میں بیٹھے ہوتے۔ اچانک آٹھ کر اندر جاتے اور اپنا چائے کا مگ لاتے اور آکر سگریٹ کے ساتھ پینا شروع کر دیتے۔ بھائی صاحب کی ان سے دوستی بڑھی تو ایک دن پوچھ ہی لیا کہ چودھری صاحب آپ نے کبھی فیس پر تکرار نہیں کی۔ اس لیے ہم آپ کو کنجوس یا لالچی نہیں کہہ سکتے لیکن آپ نے ہمیں کبھی چائے کی دعوت نہیں دی۔
چودھری صاحب بولے یار عطاء اللہ میری عمر پنجھتر سال اے میری بیوی وی اتنی عمر دی ای اے تقریباً۔ اوہ میرے لئی ہک کپ وی مشکل نال بناوندی اے. میں اوہدے کولو مہمان داری نہیں کرا سکدا. باقی اتھے ہوٹل نیڑے ہے کوئی ناں ورنہ میں چاہ دی دیگ ناں منگوا دیندا؟؟
ایک دفعہ بھائی صاحب نے کسی اور ادارے کی یونین کے لیے چودھری صاحب کو وکیل کروایا. چودھری صاحب دو تاریخوں پر پنڈی کی عدالت میں نہیں گئے. دوستوں نے بھائی صاحب سے درخواست کی کہ آپ ان سے ملیں. وہ کیوں نہیں آرہے؟. بھائی صاحب لاہور آئے اور ان سے غیر حاضری کی وجہ دریافت کی. انھوں نے فرمایا کہ یونین نے میرے بعد میرے ساتھ فلاں مشہور وکیل کو بھی ہائر کیا ہے. مزدوروں کی فیس میرے پاس امانت ہے جب چاہے لے جاؤ۔ لیکن عدالت میں اگر میں گیا تو مجھے پیچھے کھڑا ہونا پڑے گا اور وہ مشہور وکیل صاحب دلائل دیں گے۔ میں نے پوری زندگی اچھا کیا یا برا کیا میں کسی وکیل کے جونئیر کے طور پر کبھی عدالت میں پیش نہیں ہوا۔ محمود علی قصوری دعویٰ کرتے تھے کہ میں ان کا شاگرد ہوں جو کسی حد تک درست بھی تھا۔ لیکن میں ان کے کسی کیس میں بھی بطور جونئیر کبھی پیش نہیں ہوا۔ اب اس بڑھاپے میں میرا یہ مان تو نہ توڑو۔
بھائی صاحب نے ایک دن پوچھا کہ آپ نے اپنے نام کے ساتھ خادم کب لگایا تو بولے یہ میرے چچا کا نام ہے۔ جن کی کوئی اولاد نہ تھی۔ مجھ سے بہت پیار کرتے تھے اور مجھے کندھوں پر بٹھا کر سکول چھوڑنے جاتے تھے۔ تو سوچا کہ میں ان کا نام زندہ رکھنے کے علاوہ انھیں اور کیا صلہ دے سکوں گا؟؟
چودھری صاحب اور ان کی بیگم صاحبہ پندرہ بیس دن کے وقفے سے گزر گئے۔ یہ ہمیں ان کے بیٹے کے اور ہمارے ایک مشترکہ دوست سے کافی عرصہ بعد معلوم ہوا۔
بھائی صاحب کسی کیس کے لیے لاہور ہائیکورٹ انھیں ملنے آئے تو عدالت کے احاطے میں بوڑھ کے درخت کے نیچے کسی سے چودھری صاحب کا پوچھا۔ اس نے بتایا کہ وہ تو سال بھر پہلے گزر گئے تھے۔ بھائی صاحب افسردہ اور شرمندہ احاطہ عدالت سے نکل آئے۔
کیا خوبصورت اور آن بان والے انسان تھے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply