لبرل ازم ۔۔ایک جائزہ/منصور ندیم

لبرل Liberal :

’لبرل‘، Liberalism   قدیم روم کی لاطینی زبان کے لفظ ’لائیبر‘ (Liber) اور پھر ’لائبرالس‘ (Liberalis) سے ماخوذ ہے، جس کا مطلب ہے”آزاد، جو غلام نہ ہو”۔ یہ دو لفظوں پر بنیاد  رکھتا ہے ، Liberty, آزادی اور Equality ، مساوات ۔اس سے مراد   Equality   before   the  Law , یعنی ریاست میں ہر شہری برابری کی بنیاد پر قانونی اور سیاسی حق رکھتا ہو،( بلا مذہب و خاندانی پس منظر کے)، اور Liberty کی تعریف یہاں مراد لی جاتی ہے کہ ہر فرد قانون کے دائرہ کار میں رہ کر اپنے  فکری افعال میں آزاد ہو ۔اسی کو انفرادی آزادی ( Individual   Liberty )  بھی کہا جاتا ہے۔آٹھویں صدی عیسوی تک اس لفظ کے معنی ایک آزاد آدمی ہی تھا۔بعد میں یہ لفظ ایک ایسے شخص کے لیے بولا جانے لگا جو فکری طور پر آزاد، تعلیم یافتہ اور کشادہ ذہن کا مالک ہو۔ یہ تبدیلی یورپ سے چودھویں صدی عیسوی میں شروع ہونے والی تحریکِ احیاے علوم (یعنیRebirth of Renaissance) کے اثرات یورپ میں پھیلنے سے آئی۔یورپ کی نشاتہ  ثانیہ کی سب سے نمایاں خصوصیت یہ بیان کی جاتی ہے کہ اس سے افکارو نظریات میں بہت زبردست انقلاب رونما ہوا۔’لبرل ازم‘ اور ‘ سیکولرازم،  نے  بیک وقت  آغاز کیا اور یہ  ابتدا ، بادشاہت اور پاپائیت کی جنگ سے  ہوئی  تھا۔  یہ انقلاب اس قدر ہمہ گیر اور ہمہ جہت تھا، جس نے انسانیت کوہراعتبارسے   فکری و عملی  طور پر تبدیل کر دیا اور اس  انقلاب کا دائرہ اور اثرات انقلاب فرانس اور انقلاب امریکہ  کا بھی سبب بنے۔ اسی طرح مذہب ، سیاست، معیشت، معاشرت پر نئے افکارونظریات نے تبدیلیوں کے راستے کھولے۔اگر لبرل تحریک کا جائزہ لیا جائے تو ابتدائی دور میں یہ اس وقت کے جاگیردارانہ معاشرہ، بادشاہت اور موروثیت اور پاپائیت کے خلاف تھی. آغاز سے ہی مذہب کو چونکہ مذکورہ بالا اداروں کے تحفظ کے لیے ایک آلہ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے اور چرچ نے ہمیشہ ان اداروں کا تحفظ کیا تھا اس لئے عموماً  اکثر لبرل ازم کے ناقدین اس کو مذہب کے خلاف ایک تحریک مانتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں : لبرل ازم ، دوسرا روسی انقلاب1991۔۔عمیر فاروق

برطانوی فلسفی جان لاک (۱۶۲۰۔۱۷۰۴ء) پہلا شخص ہے جس نے لبرل اِزم کو باقاعدہ ایک فلسفہ اور طرزِ فکر کی شکل دی۔جان لاک ایک مفکر، فزیشن اور سیاسیات کا طالبعلم تھا، جان لاک کو ہم ماڈرن لبرل ازم کا بانی کہہ سکتے ہیں۔ ورنہ اس سے پہلے لفظ لبرل صرف لبرل آرٹ یعنی فنون لطیفہ میں استعمال ہوتا تھا ۔ ایک رائے یہ ہے کہ یہ شخص عیسائیت کے مروّجہ عقیدے کو نہیں مانتا تھا کیونکہ وہ کہتا تھا کہ بنی نوعِ انسان کو آدم کے اس گناہ کی سزا ایک منصف خدا کیوں کر دے سکتا ہے جو انھوں نے کیا ہی نہیں۔عیسائیت کے ایسے عقائد سے اس کی آزادی اس کی ساری فکر پر غالب آگئی اور خدا اور مذہب پیچھے رہ گئے۔لیکن دوسری رائے  جو لبرل ازم کے حامیان کی ہے کہ لبرل ازم میں فرد کی اہمیت، خدا کے ہر جگہ موجود ہونے کا یقین، انسانی اقدار اور ذہانت پر اعتماد، اخلاقیات کا احترام اور فطرت انسانی میں ارتقاء  پذیری کا یقین ہی وہ ستون ہیں جن پر لبرل ازم کی عمارت کھڑی ہے. ان کے مطابق جان لاک کبھی بھی مذہب اور خدا کا باغی نہیں رہا، بلکہ آج بھی اس کا جسد خاکی ایک چرچ میں دفن ہے.انقلابِ فرانس کے فکری رہنما والٹئیر (۱۶۹۴۔۱۷۷۸ء) اور روسو (۱۷۱۲۔۱۷۷۸ء) اگرچہ رسمی طور پر عیسائی تھے مگر فکری طور پر جان لاک سے متاثر تھے۔ انہی لوگوں کی فکر کی روشنی میں انقلابِ فرانس کے بعدفرانس کے قوانین میں مذہبی اقدار سے آزادی کے اختیار کو قانونی تحفّظ دیا گیا اور اسے ریاستی اْمور کی صورت گری کے لیے بنیاد بنا دیا گیا۔جان لاک کے نظریاتی ساتھیوں نے امریکی آزادی کی تحریک کو آگے بڑھایا. والٹیئر اور روسو کے خیالات پر لاک کے نظریات کی چھاپ واضح طور پر نظر آتی ہے. یہی وجہ ہے کہ  انقلاب برطانیہ (Revolution Glorious )، امریکی انقلاب ،اور انقلاب فرانس کو لبرل ازم نے علمی و فکری تحریک دی – اور تاریخ میں پہلی بار انیسویں صدی میں یورپ اور شمالی و جنوبی امریکہ میں لبرل حکومتیں قائم ہوئیں -اور انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا، وکی پیڈیا اور اوکسفرڈ ڈکشنری کے مطابق امریکہ  کے اعلانِ آزادی میں بھی شخصی آزادی کی ضمانت جان لاک کی فکر سے متاثر ہو کر دی گئی ہے۔

لبرل ازم کی   تعریف   :

‘ لبرل ازم’  ایک فرد کا  سیاسی، یا معاشرتی  نظریہ ہے، جو فرد کے ذاتی خیالات، افکار و نظریات پر منحصر ہے ۔ یہ مذہب، اعتقاد یا ایمان سے مختلف ہے۔ اس نظریے یا فلسفے کی بنیاد دو اصولوں پر رکھی گئی ہے:پہلا اصول آزادی ہے اور دوسرا اصول مساوات۔ جس کام، کردار، عمل، رویے، فکر یا عقیدے میں یہ دو اصول موجود نہیں، یا ایک ہے اور دوسرا نہیں، اسے ’لبرل ازم‘ نہیں کہا جاسکتا۔

لبرل ازم آپ کو آزادی اظہار بھی دیتا ہے۔ پریس کی آزادی بھی دیتا ہے۔ اپنے مذہب پر چلنے کا تحفظ بھی دیتا ہے۔ فری مارکیٹ کو بھی یقینی بناتا ہے۔ شہری اور نجی حقوق بھی دیتا ہے۔لبرل ازم کا تصور ان پانچ بنیادی اصولوں پر ہے۔ لیکن یہاں ایک بات بہت اہمیت کی حامل ہے کہ لبرل ازم بالاصل ،  فرد یا افراد کا ذاتی تصور حیات ہے اور جب یہ ریاست پر Apply ہوتا ہے تو سیکولرازم  کہلاتا ہے، یعنی لبرل افکار کے حامی جس تصور ریاست کا تقاضا کرتے ہیں  وہ سیکولر ریاست کے  خدوخال ہیں۔ یعنی  ایک درخت کی دو شاخیں ہیں سیکولر ازم اور لبرل ازم  یہاں لبرل ازم،  فرد  کے خیالات و افکار کا ترجمان ہوتا ہے اور سیکولرازم ریاست کا تصور ہے۔

۱-شہری حقوق :  ریاست میں تمام شہری رنگ و نسل،  زبان و  مذہب اور ہر قسم کے تعصبات و تفرئق  سے بالاتر ہو کر بالکل برابر ہیں – ریاست   شہری انتظام میں تمام افراد  سے مساوی برتاو  کرے گی ۔

۲-  اظہار رائے  کی آزادی : ہر طرح کا میڈیا   آزاد ہو گا اور کسی بھی موقف کا جاندارنہ پاسدار نہیں ہوگا، ہر  شہری  کی شخصی آزادی کا احترام کرتے ہوئے سیاست معیشت و سماج سچائی یا غیر جانبداری پر رائے دے گا ۔ عام  شہری کو بھی یہ حق حاصل ہے کہ وہ جس رائے کو بہتر سمجھے گا اس کا اظہار کرسکے۔

۳- مذہبی عقائد و رسومات کی  آزادی: ریاست کا ہر فرد  کو اپنے مذہب اور عقائد پر اپنی فہم و بصیرت کے مطابق رائے رکھنے اور اس پر عمل کرنے کا حق حاصل ہوگا۔لبرل ازم  مذہبی آزادی کو ہر فرد کے لئے انتہائی مقدم مانتا ہے ۔

۴-  سیاسی یا اجتماعی حقوق : ریاست کا ہر فرد قابو  ضابطوں کو مد نظر رکھ کر اپنی  سیاسی   سماجی رائے کا استعمال کرسکتا ہے، ایسی تقریبات اور کمیونٹی سے وابستگی رکھ سکتا ہے جو ریاست کے قوانین کے خلاف نہ ہوں۔ بلکہ سیاسی ، سماجی، اور معاشرتی اجتماعات کی  بنیاد پر ہو۔

۵- فری  مارکیٹ :   اس کے مطابق ہر شہری کو کاروبار کرنے کی مکمل آزادی ہے، فرد اپنی آمدنی سے  املاک اور جائیداد رکھ سکتا ہے ،ریاست کے وضح کردہ قوانین کے تحت ریاستی و انتظامی معاملات سے فائدہ لے سکتا ہے جس کے بدلے وہ ریاست کو ٹیکس ادا کرے گا۔

یہ بھی پڑھیں : ہیجڑے : روایت،نوآبادیات اور لبرل ازم ۔سالار کوکب

لبرل ازم کا تنقیدی جائزہ: 

بظاہر لبرل ازم پر تنقید مذہبی حلقوں کی طرف سے آتی ہے، ان کے خیال میں لبرل ازم کے بعد مغرب میں یہ تبدیلیاں تعمیر و تخریب کی دہری صفات کی حامل تھیں۔ فرد کی سطح پر تعلیم، تربیت، شخصیت اور کردار متاثر ہوئے تو رویوں میں بھی کشمکش ، نئے پن اور پرانے پن میں فاصلوں، مخالفت، حتیٰ  کہ ان ہمہ گیر تبدیلیوں کو جس انقلاب نے جنم دیا، صورت دی یا وہ ان تبدیلیوں کا جواز بنا، وہ ’لبرل ازم‘ کا ابھرنا اور براہ راست مذہب و معاشرت کو چیلنج کرنا تھا۔اس طرح جنگ ، کشمکش، تصادم اور تبدیلی اس کی پیدائشی صفات تھیں۔ سب کچھ تبدیل کرنے والا ’لبرل ازم‘ اپنی ان صفات سے کبھی بھی پیچھا نہیں چھڑا سکا۔ آج بھی لبرل حکومتوں کا ریکارڈ انہی صفات سے بھرا پڑا ہے۔لبرل ازم فقط ایک اصول کے طور پر ہے، اور اس کی ایک تعریف یہ بھی ہے  کہ کسی بھی تصور یا بے لچک نظریے کو اپنے ذہن یا دنیا پر غالب نہ ہونے دینا ہے۔ان کے نزدیک کوئی بھی Meta  Narrative کی قبولیت کسی بھی صورت نہیں ہے۔ حقیقت فقط ایک معنی ہے جو لغت میں ہے، کوئی  Narrative  نہیں، کوئی بائنڈنگ آئیڈیا نہیں، کوئی مستقل نظریہ نہیں ۔ یہ مادر پدر آزادی کا راستہ کھولتا ہے اور سرمایہ دارانہ نظام کو کسی نہ کسی درجے میں بہر حال قبول کرتا ہے۔

لیکن جب ہم دیکھتے ہیں کہ مغرب ، بادشاہت، پاپائیت  اور  موروثیت کے مفادات کا تثلیث بنا ہواتھا اس وقت کلاسیکل لبرل ازم نے ماڈرن لبرل ازم کی شکل اختیار کی تو اس میں معاشرتی اصلاحات بھی شامل ہوتی گئیں، معاشرتی انصاف، مساوات، اور سماجی جکڑبندیوں کے خلاف جدوجہد بھی اس کا حصہ بنتی گئیں۔دنیا بھر کے  تمام نقاد  اس بات پر متفق ہیں کہ لبرل ازم نے ہر میدان خواہ وہ سیاست کا ہو، سماجیات کا، یا مذہب کا، روایتی بیانیے سے ہٹ کر سوچنے اور کسی بھی نئے خیال کو قبول یا مسترد کرنے کا نہ صرف  تصور دیا ، بلکہ اسی’  لبرل ازم‘ نے یورپ کو تاریک دور سے نکالا اور آج مغرب   میں ایسی حکومتیں قائم ہیں جہاں  شہریوں کی آزادی کا تحفظ ہے، انصاف ہے ،اور افراد کے حقوق کی مساوات بلا رنگ و نسل و بلا مذہب کی تخصیص کی بنیاد پر ہیں ۔بلکہ  ریاست کی سطح پر غربت ، بیماری ،امتیازات ،اور جہالت جیسی رکاوٹوں کا عمومی طور پر خاتمہ ہوچکا ہے ۔ مزید یہ کہ  موجود ہ  جمہوری نظام تصور بھی    لبرل نظریات اور تحریک کا نتیجہ ہے -تمام افراد کو بلا تفریق یہ حق حاصل ہے کہ وہ ریاست کے سیاسی انتظام کے لئے اہل قیادت منتخب کر سکیں ۔اور آج لبرل ازم یا سیکولرازم نےتبدیلی کی صفت سے انسانیت اور معاشرے کو ہمہ گیر طور پر متاثر کیا ہے۔ یہ اعتراف کرنا ناانصافی ہوگی کہ ’لبرل ازم‘ نے مغرب میں  خوشحالی اور روشن خیالی کا ایک نیا باب تحریر کیا ہوا ہے۔

لبرل ازم پاکستان میں : 

مشرقی اور خاص کر مسلم دنیا، اور پاکستان  کے تناظر میں لبرلازم کی تفہیم میں خاصا ابہام اور اختلاف ہے،  ہر ملک کا لبرل ازم اپنی اپنی تشریحات میں مختلف ہے مگر  اس کا بنیادی تصور ، شخصی آزادی ،انصاف ،اور مساوات کی بنیادیں ہر جگہ مشترک ہیں ، اس میں ہر عہد  اور جغرافیہ کے اعتبار سے  ارتقاء  ضرور رہے گا۔ مثلاً   امریکہ میں لبرل قوتیں ویلفیئر  سٹیٹ کی حامی ہیں تو یورپ میں لبرل قوتوں کا موقف یہ ہے کہ حکومت محض ادارہ جاتی انتظامات قائم کرے گی ، پاکستان میں بھی لبرل ازم یہاں کی تاریخ ثقافت اور  مذہبی اقدار کے مطابق  عملی و فکری بنیادوں پر قائم کیا جا سکتا ہے جن کی بنیاد ہر صورت میں شخصی آزادی ،انصاف، اور مساوات پر قائم ہو گی ۔ضروری نہیں ہے کہ اسے لبرل ازم کے اسی تصور پر ہی قائم کیا جائے۔

یہ بھی پڑھیں : لبرل ازم کی ناکامی

ویسے  یہ نقطہ بھی قابل غور ہے کہ نہ تو لبرل ازم کوئی آسمانی مذہب ہے اور نہ کوئی مسلک کہ اس کے تمام اصولوں کو ماننا ہم پر فرض ہے. لیکن اس کی جو چیزیں ہماری معاشرتی اقدار اور مذہبی روایات کے ساتھ متصادم نہیں، اگر وہ اصطلاحاحات موجود ہ دور میں پاکستانی عوام کے لئے خوشحالی اور مساوات  لا سکیں تو ان کو ماننے میں آخر کیا امر مانع ہےلیکن مسئلہ  تب ہوتا ہے جب ہم لبرل ازم کو مغرب کے تناظر میں دیکھ کر دوسرے موجود نظریات یا مذاہب یا نظریات کے مقابل  دیکھتے ہیں۔ہر معاشرے کی اپنی اقدار اور روایات ہوتی ہیں ۔ ہمیں یہ بات سمجھنا ہوگی کہ مغرب میں ہمیں جو جنسیت یا مادر پدر آزادی نظر آتی ہے وہ لبرل ازم کی پیداوار نہیں  ہے۔وہ وہاں کی معاشرتی وجوہات کی بنیاد پر ہے۔علاوہ ازیں ہمارا اصل مسئلہ  شدت پسندی ہے جو عموماً  ہر طبقے میں پایا جاتا ہے اور   پاکستان میں  سوائے چندے معدودے افراد  کے جو لبرل ازم کی بنیادی اساس کو سمجھتے ہیں ، ان کے علاوہ اکثرجو افراد  لبرل ازم کا دعوی  تو ضرور  کرتے ہیں لیکن اپنی اساس میں فقط  شدت پسند ہی واقع ہوئے ہیں۔ انہیں کبھی ہمارے روایتی سیاستدانوں میں لبرل ازم نظر آنے لگ جاتا ہے، اور کبھی مذہبی حلقوں پر بے جا تنقید کا مظاہرہ اپنے من چاہے لبرل ازم کی بنیاد  پر کرتے ییں۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

نوٹ :یہ مضمون میرے ذاتی  فہم کی بنیاد پر  ہے  ضروری نہیں کہ اس سے سب اتفاق کریں ، میں ذاتی طور پر لبرل ازم کا مکمل حامی نہیں ہوں، لیکن  اس نظام کی بہت ساری خوبیاں ایسی ہیں جو نہ ہماری روایات واقدار سے متصادم ہیں اور نہ ہی مذہب سے، ایسی صورت میں ان تمام سیاسی،  سماجی اور معاشرتی  تصورات کو قبول کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، جو کم از کم مثبت تبدیلی کی طرف جائیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply