• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • سیاسی صورت حال حالات پر ایک ترقی پسند اور عوامی جمہوری بیانیہ۔۔ارشد بٹ

سیاسی صورت حال حالات پر ایک ترقی پسند اور عوامی جمہوری بیانیہ۔۔ارشد بٹ

۲۰۱۸ ۔ کے متنازعہ انتخابات کے نتیجہ میں قائم ہونے والی عمران حکومت کی عالمی مالیاتی اداروں کی ہدایات پرنافذ کردہ عوام دشمن معاشی پالیسیوں نے ملک میں معاشی گراوٹ، بے روزگاری، مہنگائی اور غربت میں اضافہ کے سب گذشتہ ریکارڈ توڑ دیئے ہیں۔ بیرونی قرضوں کے بوجھ نے ملکی معیشت کا دیوالیہ نکال دیا ہے۔ حکومت اپنے دو سالہ دور اقتدارمیں غریب طبقات کی مشکلات پر قابو پانے کے لئے کوئی معاشی ریلیف دینے میں بُری طرح ناکام رہی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کی سربراہی میں قائم مخلوط حکومت کرپشن اور احتساب کے نعرے  کے پردے میں جاگیرداراور سرمایہ دار طبقوں کی معاشی لوٹ کھسوٹ اور استحصالی نظام کوتحفظ دینے والی گذشتہ حکومتوں کی اقتصادی پالیسیوں کو جاری رکھے ہوئے ہے۔جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ استحصالی نظام کی بنیاد عوام کی معاشی لوٹ کھسوٹ، معاشی و سماجی نا ہمواری اور استحصالی طبقوں کی مالی کرپشن پر استوار ہوتی ہے۔ موجودہ حکومت کا چند سابقہ حکمرانوں کے خلاف کرپشن کے مقدمات کا شوروغوغا حکومتی ناکامیوں ، جاگیرداری اور سرمایہ داری استحصالی نظام کی لو ٹ کھسوٹ پر پردہ ڈالنے کی بھونڈی کوشش کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔

آئی ایم ایف کے عوام دشمن اقتصادی ایجنڈے کے نتیجہ میں کمرتوڑ مہنگائی اورروز افزوں بڑھتی بے روزگاری کی وجہ سےعوام میں شدید غم و غصہ اور بے چینی کی لہر پائی جاتی ہے۔ مہنگائی کے ہاتھوں مجبور پورے ملک کے سرکاری ملازمین اور محنت کش اپنی تنخواہوں میں اضافے اور مہنگائی کے خاتمے کے لئے سراپا احتجاج ہیں۔ حکومتی ہدایت پر نام نہاد آزاد میڈیا ہزاروں سرکاری ملازمین کے اسلام آباد اور دیگر شہروں میں احتجاجی مظاہروں کی خبریں نشر کرنے سےقاصرہے،کیونکہ الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا پر حکومت کی اعلانیہ اور غیر اعلانیہ پابندیاں نافذ ہیں۔ میڈیا پر سنسرشپ، حکومت مخالف اینکر پرسنز کی حکومتی دباو پر الیکٹرونک میڈیا سے برطرفیاں اور صحافیوں کے دن دیہاڑے اغوا پر صحافی برادری، شہری و انسانی حقوق کی تنظیمیں احتجاج کرتی نظر آتی ہیں۔ بچوں اور خواتین پر مجرمانہ حملے، بڑھتے جرائم اورانسانی حقوق کی پامالیوں میں اضافہ انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ناکامی اور امن عامہ کی بگڑتی صورت حال کی منہ بولتی تصویر ہے۔ نظام عدل پر عوام کا بھروسہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ خارجہ محاذ پر حکومت کشمیر کا مقدمہ ہار چکی ہے اور سفارتی تنہائی کا شکار ہے۔

دوسری جانب یکطرفہ احتساب اورسیاسی انتقام کےالزامات نے سیاسی عدم استحکام اور بحران میں شدت پیدا کردی ہے۔ اپوزیشن راہنماوں پر غداری، بغاوت اور بھارت کے ایجنڈے پر کاربند ہونے کے حکومتی الزامات اور مقدمات نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے۔ حکومت کی پہ در پہ ناکامیوں، انتقامی کاروائیوں اور دگرگوں معاشی حالات کی حدت کو محسوس کرتے ہوئے اپوزیشن جماعتوں نےپاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے نام سے اتحاد بنا کر حکومت کے خلاف تحریک چلانے کا اعلان کر دیا ہے۔ پی ڈی ایم نے حکومت مخالف تحریک چلانے کے اعلان کے ساتھ ۲۶ نکاتی چارٹر آف ڈیمانڈ جاری کیا ہے۔ جس کے بنیادی مطالبات میں ملک میں آزادانہ، غیر جانبدار اور شفاف انتخابات کے انعقاد کا یقینی بنانا ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لئے فی الفور ایسی انتخابی اصلاحات کی جائیں جس میں مسلح افواج اور ایجنسیز کا کوئی عمل دخل نہ ہو۔ پی ڈی ایم نے حکومت سے نجات کے لئے ملک گیر احتجاجی تحریک کو منظم اور مربوط انداز میں چلانے کا اعلان کیا ہے۔ پی ڈی ایم نے سیاست میں اسٹبلشمنٹ کے بڑھتے ہوئے عمل دخل پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسٹبلشمنٹ سیاست میں ہر قسم کی مداخلت فوری طور پر بند کرے۔ اسٹبلشمنٹ کے تمام ادارے آئین کے تحت لئے گئے حلف اور اسکی متعین کردہ حدود کی پابندی و پاسداری کرتے ہوئے سیاست سے باز رہیں۔ پی ڈی ایم نے مسنگ پرسن بنانے کا سلسلہ بند کرنے اور پہلے سے مسنگ پرسنز کو قانون کے مطابق عدلیہ کے سامنے پیش کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ان نکات میں آئین و قانون اور پارلیمان کی بالادستی، اٹھارویں آئینی ترمیم ، این ایف سی ایوارڈ اور صوبائی خودمختاری کے تحفظ کے علادہ متعد سیاسی مطالبات شامل ہیں۔

یاد رہے کہ سیاسی مطالبات سے ہٹ کر پی ڈی ایم نے عوام کو معاشی مشکلات سے نجات دلانے، مہنگائی اور بے روزگاری پر قابو پانے اور آئی ایم ایف پروگرام کے تحت زوال پذیر معیشت کو بحرانی کیفیت سے نکالنے کے لئے کوئی موقف اختیار نہیں کیا۔ اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ، انسانی حقوق کی پامالی، آئے روزبچوں اور خواتین پرمجرمانہ حملوں میں اضافے پر پی ڈی ایم کا اعلامیہ خاموش ہے۔ واضع رہے کہ پی ڈی ایم میں شامل اکثرسیاسی جماعتیں ماضی قریب میں ملک میں حکمران رہی ہیں۔ انکا حکمرانی کا ٹریک ریکارڈ قابل رشک نہیں کہا جا سکتا۔ پی پی پی اور ن لیگ نے اپنے اپنے دور اقتدار میں عوامی حقوق سے روگردانی کی، معاشی لوٹ کھسوٹ کے نظام کو سہارا دیا اورکرپشن کا بازار گرم کئے رکھا۔ جس کی وجہ سے ان جماعتوں پر عوامی اعتماد ابھی تک متزلزل ہے۔ مگر ملک کے موجودہ سیاسی پس منظر کی روشنی میں اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم کے سیاسی مطالبات سے کوئی جمہوریت پسند اور ترقی پسند سوچ رکھنے والا کارکن اختلاف نہیں کر سکتا۔

ترقی پسند جماعتوں، گروپوں اور دانشوروں نے ہمیشہ عوام کے معاشی، جمہوری اور بنیادی شہری حقوق کے لئے ہر سطح پر آواز بلند کی ہے۔ پاکستان کے نامور ترقی پسند سوشلسٹ راہنما معراج محمد خاں مرحوم نے پوری زندگی فوجی اور سول آمرانہ حکومتوں کے جبر کے خلاف احتجاجی تحریکوں میں قائدانہ کردار ادا کیا۔ معراج محمد خاں ساری زندگی عوام کے معاشی اور جمہوری حقوق کی جنگ لڑتے رہے۔پاکستان کے ممتاز ترقی پسند سوشلسٹ راہنماؤں  میجر محمد اسحاق، افضل بنگش، اعزاز نظیر، جام ساقی، رسول بخش پلیجو، فتحیاب علی خان، سی آر اسلم اور انکے ہزاروں ساتھیوں نے ملک بھر میں جنرل ایوب، جنرل یحیٰ اور جنرل ضیا کی آمرانہ حکومتوں کے جبر کے خلاف بھرپور مزاحمت کی اور قید و بند کی صعبوبتیں برداشت کرتے رہے۔ملک کے پسے ہوئے عوام کے معاشی و جمہوری حقوق کے لئے ان ترقی پسند راہنماؤں کی بے مثال قربانیاں پاکستانی سیاسی تاریخ کا سنہری اور انمٹ باب ہے۔ آج ترقی پسند سیاسی جماعتیں تنظیمی، نظریاتی اور سیاسی بحرانی دور سے گزر رہی ہیں۔ چھوٹی چھوٹی ترقی پسند سیاسی جماعتیں عوام کے سامنے ایک ترقی پسند جمہوری نکتہ نظر اور بیانیہ موثر انداز میں پیش نہیں کر سکتیں۔ مشکل تنظیمی صورت حا ل کے باوجود ترقی پسند جماعتیں عوامی حقوق کے حصول کے لئے ترقی پسند جمہوری نکتہ نظر اور عوامی بیانیہ عوام کے سامنے لانے کی کوشش کر تی رہتی ہیں۔

پی ڈی ایم کے سیاسی مطالبات کے ساتھ حقیقی عوامی مسائل پر واضع نکتہ نظر پیش کرنا ترقی پسند تحریک کے کارکنوں کا تاریخی فریضہ ہے ۔ پی ڈی ایم کے چارٹر آف ڈیمانڈز کے ساتھ مندرجہ ذیل نکات عوام اور ملک کے مسائل کا عوامی جمہوری حل پیش کرتے ہیں۔

۱۔ مہنگائی یعنی افراط زرکی نسبت سے سرکاری و غیر سرکاری ملازمین ، محنت کشوں اور دہاڑی دار مزدوروں کی آمدن میں اضافہ کیا جائے۔

۲۔ آئی ایم ایف ، دیگر عالمی مالیاتی اداروں اور بیرونی ممالک کے قرضوں کی محتاجی سے نجات پانے اورخود انحصار معیشت کی جانب بڑھنے کے لئے تمام غیر ضروری اشیا کی برآمدات پر پابندی لگائی جائے، وفاقی اور صوبائی غیر ترقیاتی اخراجات، اور غیر جنگی دفاعی اخراجات میں کمی کی جائے۔ غریب طبقوں پر ٹیکس کا بوجھ کم کرکے ٹیکس نیٹ کو وسیع کیا جائے اور زرعی آمدن پر ٹیکس لگایا جائے۔

۳۔ غیر پڑھے لکھے، کم پڑھے لکھے اور اعلیٰ تعلیم یافتہ مرد اور خواتین، اور دیگر غریب طبقوں کو باعزت روزگار کی فراہمی کے لئے خصوصی بجٹ مختص اور پروگرام مرتب کیا جائے۔ چھوٹے کاروباری اور نیا کاروبار شروع کرنے والے افراد کو بلا سود طویل مدتی قرضے دیے جائیں۔

۴۔ بلا معاوضہ تعلیم اور طبی سہولت کا حصول ہر شہری کا قانونی حق تسلیم کیا جائے۔ تعلیم اور صحت کے بجٹ میں آبادی کی ضروریات کی مطابق اضافہ کیا جائے۔

Advertisements
julia rana solicitors

۴۔ اقلیتوں، عورتوں اور انسانی حقوق کا تحفظ یقینی بنایا جائے۔ اقلیتوں، بچوں اور خواتین کے خلاف کاروائیوں میں ملوث افراد کو جلد از جلد انصاف کے کٹہرے میں لا کر قرار واقعی سزا دی جائے۔
۵۔ سیاسی مقاصد کے لئے مذہب کا ا ستعمال ممنوع قرار دیا جائے۔ مذہبی شدت پسندی، منافرت اور فرقہ پرستی کے انسداد کے لئے موثر اور ضرورت کے مطابق قانون سازی کی جائے اور خلاف ورزی کرنے والوں کو قرار واقعی سزا دی جائے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply