واماندگئِ شوق تراشے ہے پناہیں۔۔عاصم کلیار

عمرِ رفتہ کے اوراق پلٹنے کی زندگی نے کبھی مہلت ہی نہیں دی، خود سے ہمکلام ہونے کی کبھی فرصت ملی بھی تو ہمسفروں سے بچھڑ جانے کا خوف،راستہ بھٹکنے کا اندیشہ،بغیر زادِ راہ کے اَن دیکھی منزلوں کے سفر کا وہم اور سب سے بڑھ کر خود سے سوال و جواب کے عذاب کی وجہ سے مدتوں پہلے کتابِ عشق و دل کو طاقِ نسیاں کے اندھیروں میں گم کر کے برسوں بھولنے کی اک بے سود کوشش میں خود کو مصروف رکھا۔
آج کس چہرہ شاداب کو دیکھا کہ ہمیں
طاقِ نسیاں میں جو رکھے تھے وہ گُل یاد آۓ

کچھ لمحے ایسے موسموں میں بھی تو بسر کیے  تھے جب کتاب سے بھٹک کر جو چراغ ہاتھوں میں تھا اسے خود ہی پھونک سے بجھا کر بزمِ ماہ و انجم میں آفتاب چہروں کو ڈھونڈنے کی جستجو حاصلِ حیات لگتی تھی اپنی ذات کا حساب ایک امرِ محال سہی مگر اب برسوں بعد بھی تنہائی کے دلگداز لمحموں میں ماضی کے جھرکوں سے صرف وہی مہتاب چہرے یاد آتے ہیں۔

یاد رکھنے کے لئے  تو اک عمر بھی تھوڑی ہوتی ہے وہ جن کے تصور سے ہی خوابوں کو خیال سے معاملہ رہتا تھا، اب ان کے نام کے ساتھ شبیہہ بھی دھندلانے لگی ہے مگر کچھ ایسے بھی تو تھے کہ جن کا نام معلوم ہی نہ تھا مگر رتجگوں میں صرف وہی یاد کے ساتھی تھے صرف ایک نظر دیکھنے کے بعد خواب وخیال کے بے نام جزیروں کی سب رتُوں کے وہ ہمنوا تھے وہ شہر جو میرے لیے تو فردوس بریں کا درجہ رکھتا ہے اسی شہر کی ایک معروف دوکان کے شیشے کے دروازے سے نکلتے ہوۓ میری اسی سے صرف آنکھیں چار ہوئی تھیں۔ اس نے خود کو سنبھالتے ہوۓ نظریں ہی پھیر لیں تھیں اس چہرے کی پرچھائی آج بھی تنہائی کے لمحوں میں یاد کے زینوں پر ابھرتی رہتی ہے دو دہائیوں کے عرصے میں اس دوکان نے کئی  روپ بدلے، مجھ سے وہ شہر ہی چھوٹ گیا پھر دیکھنا کیسے نصیب ہوتا ۔۔اب جب بھی اس شہرِ  خو ش جمال جاتا ہوں تو کسی بے آس تمنا کی نامکمل تکمیل مجھے اس دوکان کی طرف لے جاتی ہے۔

میں عمر کے اُس حصے میں تھا جب سکونِ دل کے واسطے کچھ بے سکونی درکار ہوتی ہے space age ہمارے ہاں قدم جما رہی تھی orkut chat room میں بات ہاۓ سے شروع ہوئی گھنٹے لمحموں میں بدلنے لگے، میرے اور اس کے دیس میں وقت کے فرق کی وجہ سے میرے لیے  دن رات اور رات دن میں ڈھلنے لگی دور بہت دور ان دیکھے  جزیروں کے ایک بہت بڑے شہر کی ساتویں منزل کے فلیٹ میں بیٹھے ہوۓ اس نے ہوا کی لہروں پر مجھے ایک بوسہ ارسال کیا تھا میں اب بھی گاہے گاہے ہوا کی لہروں سے اس بوسہ بیکراں کی لذت کو کشید کرنے کی کوشش کرتا ہوں وہ شام ڈھلے کسی ہوٹل میں دلگداز دُھنیں بجا کر شکم کی آگ بجھاتی میری سالگرہ کے دن اس نے مجھے بتایا تھا کہ آج شام میں نے دھُن تمھارے لیے  بھی بجائی تھی۔۔۔ میرے پاس خاموشی کے سوا بھلا کیا جواب ہو سکتا تھا ایک رات اس نے کہا مجھے اپنا کمرہ دکھاؤ ،میرا کمرہ دیکھنے کے بعد اس نے کیمرہ  اپنی الماری کی طرف موڑا میری ایک تصویر کا بڑا پرنٹ اس کی الماری پر آویزاں تھا اس کا اصل نام پوچھنے کا مجھے خیال ہی نہ آیا orkut پر اس کا نام –firefor تھا جو دریا دل میں صحرا ہوا اسے مکانی و مالی اسباب نے مزید ویران کیا مجھے اسے بھولنے میں کچھ وقت لگا اور وہ شاید بڑے شہر کے بیکراں ہجوم میں مجھ سے غافل ہو کے فوراً ہی کسی اور کے ساتھ ۔۔۔۔

وہ جس کی ہمراہی میں بوسہ اولیں کے کیف سے آشنا ہوا تھا اس کی یاد جسم میں اب بھی سرسراہٹ سی پیدا کر دیتی ہے وہ اپنی ذات میں مگن میں اس کی یاد کا اسیر تھا ،وہ سامنے بیٹھے ہوۓ بھی مجھ سے غافل اور میں سراپا اس کے لیے  دلگیر رہتا ۔۔۔وہ سننے کے لیے راضی نہ تھی اور مجھ کم فہم کو اَ ن کہی باتوں کا بھلا کہاں ادراک تھا ،دید کی پیاس نے آگ کو مزید بھڑکایا ،ہوس کی لگن میں پاؤں چھالے ہوۓ ،گلابی معطر فضا میں بارہا کسی اور کی یاد میں اسے گنگناتے ہوۓ بھی دیکھا ایک ہی شہر میں رہتے ہوۓ مجھے اس کی خاطر نجومیوں اور جوگیوں کے دروازے بھی کھٹکھٹانے پڑے ۔شام کے دھندلکوں میں جب نیم مردہ زرد بلب کی روشنی میں ساۓ بھی اداس لگتے ۔۔میں ہر روز صرف اس کو دیکھنے کی خاطر ایک قد آدم دیوار کی اوٹ میں مضطرب دماغ و دل کو سنبھالتے ہوۓ تانک جھانک میں مصروف رہتا وہ بھی اور کہانیوں کا کردار ٹھہری ۔۔نئے منظروں کے شوق میں میرے لیے  بھی اس کی یاد بلا خیز نہ رہی، جب در ماندگی کے وقفے طویل ہوۓ اور درد آنکھوں میں آن بسا تو پاؤں میں پڑی سب بیڑیوں کو توڑ کر اس نے پردیس کو وطن بنا لیا جب مجھے برسوں بعد پتہ چلا کہ وہ ماں باپ کے گزرنے پر بھی وطن واپس نہ آ سکی تو میں نے اپنے دوست کالی داس سے دو چار مرتبہ کہا کہ ایک ترسے ہوۓ لمس کی بازیابی کے لیے  مجھے اٹلی لے چلو ،میں نے محل وقوع کو بدلتے ہوۓ یہ مختصر سی نظم برسوں پہلے اسی کے لیے  ہی لکھی تھی۔
ناروے سے فون آنے پر
سات سمندر پار سے
ہوا پر لہراتی آواز تیری
یہ کہہ گئی  مجھ سے جاناں
کہ ادھر بہت سردی ہے
تو مجھے وہ دن یاد آیا
جب جسم کی انگیا کو
تم نے زندگی کی تار پرلٹکایا تھا
اور میرے جذبات کے سورج نے
اس کو سکُھایا تھا

وہ ولولوں میں بےباک،کشادہ دست خوش پوشاک اس نے زندگی سے جو مانگا وہ قدرت نے اسے دان کیا وہ سب نعمتوں میں دوسروں کو شریک کر کے مسرور رہتی۔ افسری کے ساتھ وہ تمکنت کہ ملنے پر روح بھی کانپ جاۓ مگر بستر کے ساتھ جسم میں وہ سپردگی کہ فراق میں وصال بھی شرماۓ۔۔ اس کے نزدیک بھلا پہلے کون بھٹکتا ،مگر خود اس نے کئی  لوگوں کو مار رکھا تھا ۔ایک رات اس نے میرے گھر قیام کیا تھا ساری رات میں دو تھرکتے جسموں کو سانسوں کی آنچ میں پگھلتے دیکھ کر حسد کی جلن میں خوب خوار ہوا ،اور اس رات شاید چاند زمین پر ہو مگر آسمان ستاروں سے جھلملا رہا تھا جبکہ ایک عمارت کہنہ کے مختصر سے باغیچے میں میرے قریب پہنچ کر اس نے مری سے اپنی واپسی کی اطلاع دی تھی ۔میں نے کتاب سے نظریں ہٹاتے ہوۓ مذاقاً صرف یہ پوچھا تھا کہ میرے لیے مری سے کیا سوغات آئی؟۔۔ اس نے اپنے گلے میں پہنی ہوئی ایک زنجیری اتار کر میرے حوالے کرتے ہوۓ میرے ہاتھ سے کتاب لے کر اس پر اپنے دستخط کر دیے اس سے اب بھی رابطہ رہتا ہے مجھ میں بتانے کا حوصلہ نہ تھا اور وہ دل فریب مگر نرم خوُ سننے سے گریزاں ۔۔سو جو فاصلے تھے وہ بے تکلفی کے باوجود برقرار رہے ضد ایسی کہ جو جو اس کو اچھا لگا اب اپنے بچوں سے بھی ان کو ملوانے کا حوصلہ رکھتی ہے۔۔ اس کے ہاں شامیں دلچسپ پیراۓ میں رنگیں ہوتیں وہ سبو و جام کے تمام پیمانوں اور لذتوں سے آگاہ تھی ساقی گری کے علاوہ سرخ آنکھوں میں شوخ چمک لیے  وہ گرنے والوں کا تماشا دیکھتی ۔۔زندگی کی دوڑ میں ہم اس کے ساۓ کو بھی نہ چھو سکے ظرف ایسا کہ قدم قدم پر رک کر اس نے ہم کو پکارا ۔۔اس نے اپنے گھر کا نام سسی منزل رکھا، جہاں کیچ کے سوا دیس دیس کے پنوں زنجیر در کھٹکھٹانے کے منتظر رہتے ۔دیس پردیس میں اس کے کئی  منتظر رہتے ،اس نے ہر ملک سے مجھے خط لکھا اور ہر شہر سے میرے لیے  کتابیں خریدیں، وہ سب خط اور اس کی دی ہوئی وہ چین(chain) میں نے  اب تک سنبھال کر رکھی ہوئی ہے، یادوں کی شیلف کے علاوہ اس کی دستخط شدہ کتاب میری لائبریری میں شائد اب بھی موجود ہو۔

اس سے تو تعلق خاص تھا اس کے ہی بازوؤں میں اس کو ہی سوچتے ہوۓ ایک آدھ شب بھی گزری، وہ گریزپائی کے لمحوں میں بھی رفاقتوں کی قدوقامت سے آگاہ،توجہ کی طلب نہ رکھنے کے باوجود بھی مرکزنگاہ کی متلاشی رہتی مگر سرد مہری بھی تو اس کا وصفِ خاص تھا میرے کئی  خطوں کے بدلے ایک آدھ بار ہی اس نے رسمی سی دو چار سطریں لکھ بھجیں میں اس یاد رکھنے پر بضد تھا تو بھول جانے پر وہ بھی تیار نہ تھی اس سے برسوں کا ساتھ کچھ یاروں میں مجھے بدنام بھی کر گیا مگر اس کے ساتھ گزری ساعتوں کا اُجلا پن میرے دوستوں کو بھی اچھا لگتا تھا سو نہ وہ کبھی رکاؤٹ بنے اور نہ مجھے روکنے کی سبیل پیدا کی اسے میری طرف آتا دیکھ کر سب دوست چہروں پر مسکراہٹ سجاۓ مجھے تنہا چھوڑ دیتے ساتھ کے سب راستے جدائی تک تھے پہلے تو مسافتوں کے بہاؤ نے ملنے کے وقفے طویل کیے  پھر اس کی یاد بھی کم آنے لگی۔ اب بھی خلوت و جلوت میں اس کی یاد کے تصرف میں خود کو فراموش کرنا اچھا ہی لگتا ہے اسی سے سب موسموں کی رفاقت تھی اور کئی شہروں سے وابستہ یادیں تھیں جب برسوں بعد اس سے ملاقات ہوئی تو وہ ناخن تراشنے میں مصروف تھی۔ میں نے وہ ناخن بیغر مانگے طلب کیے  جو اس نے ہاتھوں میں پہنے موتیوں کے ہار سمیت دان کر دیے، اس ہار کے خشک پھول اور وہ ناخن میرے لیے تو حرزجاں ہیں ۔یاد کی دیوار پر جب بھی اس ستارے کی روشنی مدھم پڑنے لگتی ہے تو کوئی سندیسہ،فون کال یا غیر متوقع ملاقات یادوں کی لو کو پھر سے روشن کر دیتی ہے۔

ہجر میں وصال اور ملنے پر فراق کی لذتوں سے تو مجھے اس نے ہی آشنا کیا تھا۔ عمروں کا تضاد اس قدر واضح کہ ہوس کی آگ میں جلنے کے باوجود میں مودب رہتا ۔اس سے رابطے کی سبیل میں نے جھجھکتے ہوۓ خود ہی نکالی تھی۔ کچھ علاقے کے رکھ رکھاؤ اور کچھ قبیلے کے رواج نے اس کے حوالے سے میرے پاؤں میں بیڑی ڈالے رکھی، وہ وقتی خوشیوں کی تلاش میں سب کچھ فراموش کر دینے کی عادت رکھتی  تھی،میں بھی نبھاہ نہ کر سکا مگر اس کے ساتھ بیتی رفاقتیں مجھے نجانے اب بھی کیوں عزیز ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

شام کی پرچھائیاں اترنے کے بعد بڑھتی ہی جاتی ہیں۔ زندگی کا بھروسہ نہیں اور یادوں پر بھلا کون پہرہ بیٹھا سکتا ہے، سو جو نقش و نگار کاغذ پر اتار لیے شائد وہ بچ جائیں محفل ہو کہ تنہائی ۔۔۔صبح اولیں کی زرد روشنی ہو یا اترتی ہوئی شام کی گلابی، ماضی تو آپ کے ساتھ رہتا ہے مگر گزرے ہوۓ ماہ و سال کے سب لمحے کون یار رکھ پایا ہے ۔روح کے سفر میں جو بدن کے شریک تھے نم آنکھوں میں نجانے کیوں آج ان کے چہرے جھلملاتے رہے کارِ دنیا میں ان کی یاد سے پھر جلد غافل ہو جاؤں گا۔
احمد مشتاق نے کہا تھا
اتارے طاق نسیاں سے کئی  گزرے ہوۓ موسم
پھر ان کو طاق نسیاں پر اٹھا کر رکھ دیا میں نے!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply