اور اگر میں تب ریپ ہوجاتی تو۔۔سلمیٰ اعوان

موٹر وے گینگ ریپ حادثے کو ہفتہ بھر سے زیادہ ہونے کو آیا ہے پر دل سے ویرانی اور طبیعت پرچھایا ڈپریشن ختم ہونے میں نہیں آ رہا۔تین بچوں کی ماں جو فرانس جیسے آزاد اور ترقی یافتہ ماحول میں سانس لینے والی کم ظرف حکومتی عہدہ داروں کے بھونڈے اعتراضات کی سان پر چڑھی ہے۔
رات کے ایک بجے اکیلی عورت کو گھر سے نکلنے کی ضرورت؟ پیٹرول کیوں نہیں چیک کیا گیا؟سنسان راستے پر کیوں چڑھی؟

ابھی حادثے کا پہلا دوسرا دن تھا۔مظلوم خاتون کے بارے میں کچھ تفصیل سامنے نہیں آئی تھی۔ ہاں گوہر تاج نے میری ٹائم لائن پر اپنا نوحہ لکھا تھا۔”سُنتی ہو ان محافظوں کی باتوں کو،دیکھتی ہوں اِن کے کاموں کو۔“اور بوجھل روح سے میں نے اُسے مخاطب کیا تھا۔”گوہر میری جان ہوگی کوئی میرے جیسی جنونی، آوارہ گرد، من موجی سی عورت جو ایڈونچر اور تھرل کے شوق میں کچھ زیادہ سوچتی نہیں اور کتنی سر پھری لڑکیاں ہیں جو گواچی گاں کی طرح منہ اٹھا کر چل پڑتی ہیں۔ ریاست تو ماں کی طرح ہوتی ہے۔تحفظ دینے والی۔مگر کیا کریں؟کہاں جائیں؟ساری زندگی میرے تو اپنے لچھن بس ایسے ہی رہے۔

کہیں بھول سکتی ہوں زندگی کے وہ ماہ و سال جب بیاہ نے مجھ جیسی اڑتی چڑیا کو پنجرے میں قید کردیاتھا۔سسرال نے ناک میں نتھ نہیں نکیل ڈال دی تھی۔جس نے ناک کے نتھنے چھوڑ براچھیں بھی چیر دی تھیں۔سارے عزائم اور خواب چولھے پر پکتی ہنڈیا سے نکلتی بھاپ کی مانند فضا میں تحلیل ہورہے تھے۔”صبر میری بچی صبر اِس کڑے وقت نے گزر جانا ہے۔ماں کا یہ ہدایت نامہ امید کی جھلک ضرور دکھاتا۔مگر میرے تو اور بہت سارے مرنے تھے۔ پہلا اور اہم یہ ہی تھا کہ بی کلاس کی اس پڑھی لکھی عورت جس کے اندر اپنے آپ کو منوانے اور شہرت حاصل کرنے کے جراثیم گو کڑے حالات کی اینٹی بائیوٹک دواؤں سے نڈھال ضرور ہوگئے تھے۔پر مرے نہیں تھے۔بچوں کے ذرا سے سراٹھانے کے ساتھ ہی اب پوری توانائیوں سے دوبارہ زندہ ہورہے تھے۔
دوسرا بڑا مرنا لڑ لگنے والے کی امن پسند ی کا تھا کہ جسے زندگی کی رواں دواں ندی میں طغیانی چھوڑ ہلکے سے بھنور بھی پسند نہ تھے۔

ایک بار دورے پر کوئٹہ جا رہا تھا۔ میں نے بریف کیس تیار کیا۔ اسے پکڑایا اور کہا
”مجھے بھی ساتھ لے چلتے۔ کوئٹہ نہیں دیکھا۔ دیکھ لیتی اسی بہانے“۔ اپنے آپ پر پرفیوم کی بارش کرتے ہوئے لڑلگنے والے نے گھوم کر یوں دیکھا جیسے میں پاگل ہو گئی ہوں۔
”لو تمہیں کہاں گھسیٹتا پھروں گا۔ میں تو وہاں کام بھی ڈھنگ سے نہ کر سکوں گا۔دھیان تم میں ہی اٹکا رہے گا کہ کہیں کوئی رکشہ‘ ٹیکسی والا ہیر پھیر نہ کر جائے“۔
میں نے دھیرے سے کہا۔
”میں انجانی جگہوں‘ انجانے شہروں‘ ناواقف راستوں اور اجنبی لوگوں سے کبھی نہیں گھبراتی۔ ہمیشہ راستے نکال لیتی ہوں اور میرے ساتھ کبھی کوئی ہیرا پھیری نہیں ہوئی“۔
اور بریف کیس کو زور دار جھٹکا دیتے ہوئے اس نے طنزاً کہا۔
”عجیب عورت ہو۔ یہاں اجنبی جگہ پر سونا مشکل ہو جاتاہے۔ میں دوروں سے جان بچاتا پھرتا ہوں۔میرا سارا سکون غارت ہو جاتا ہے“۔
بڑی ٹھنڈی سانس بھر کر خود سے کہا تھا۔”یہاں تو بھینس کے آگے بین بجانے والا معاملہ ہے۔“

شمالی علاقہ جات پر لکھنے کا منصوبہ ذہن میں سالوں سے بند پڑا تھا۔ ڈھیٹ بن کر خدمتِ عالیہ میں عرضی پیش کی۔
”میں شمالی علاقوں کی سیاحت کے لئے جانا چاہتی ہوں۔ مجھے کچھ لکھنا ہے۔“
ہونٹوں اور آنکھوں میں طنزیہ ہنسی ابھری تھی۔
کچھ عرصے بعد مدعا پھر گوش گزار کیا۔ اس بار لہجے کے ساتھ ساتھ چہرے پر بھی جھلاہٹ تھی۔

میں کونسا کم تھی۔1985ء میں گھر کے ایک حصّے کی تعمیر کا کام شروع ہوا۔ساتھ ہی ذہن میں پکتے منصوبوں نے عمل کی راہ ڈھونڈی۔اسلام آبادچھوٹی خالہ کے پاس جانے کا اجازت نامہ لیا۔
تو پھر یہ طے تھاکہ میں نے ان علاقوں میں جانا ہی جانا ہے۔

اپنے تینوں بچوں کے ہمراہ جن کی عمریں نو،چھ اور چار سال تھیں اسلام آباد پہنچ کرچھوٹی خالہ کے سامنے ہاتھ جوڑدیئے۔آپ کا تعاون درکار ہے۔ان علاقوں پر لکھنا میرا خواب ہے۔اور میرا یہ خواب مجھے بے کل کیے ہوئے ہے۔
چھوٹی خالہ بہت جزبز ہورہی تھیں۔
”کمبخت ابھی تو آئی ہو اور ابھی نئے محاذ پر نکل رہی ہو۔وہ بھی تن تنہا،کوئی چھری تلے گردن آئی ہے تیری۔کوئی بازو بیلنے میں آگیا ہے۔
میں ہنسی۔
”بازو ہی تو بیلنے میں آ گیا ہے۔ ارے کیا کروں چھوٹی خالہ؟ ایک تو اس جذبہ حب الوطنی نے مار ڈالا۔ دوسرے خود نمائی اور منفرد بننے کے جذبات نچلا نہیں بیٹھنے دیتے۔ دھوبی کا کتا گھر کا نہ گھاٹ کا والی بات ہو رہی ہے۔ رہی بات تنہا گھومنے پھرنے کی۔ ان پڑھ والدین کا یہی فائدہ تو ہواہے مجھے کہ اپنی ذات پر اعتماد سیکھا۔ اپنے کام خود کرنے کی عادت ڈالی۔ سہارے ڈھونڈنے اور ان کی محتاجی سے نفرت کی۔“
ان کے چہرے پر پرانی یادوں کے چراغ جل اُٹھے تھے۔جب وہ باپ مانند اپنے بھائی جو گلگت ایجنسی کا بڑا افسر رہا تھاقیام پاکستان کے بعد اُڑن کھٹولے پر بیٹھ کر ہر سال اُن کے پاس جاتی تھیں۔وہاں کے قصّے کہانیوں اور سوغاتوں کی نمک خوار تھیں۔
”سدا کی ہٹیلی اور ضدی ہو۔جا اللہ کی حفاظت میں۔“ میں دو جوڑے کپڑوں اور واقف مقامی لوگوں کے ایڈرسوں کے ساتھ نیٹکو بس سروس میں جا بیٹھی۔مقامی لوگوں سے بھری بس جس میں صرف دو عورتیں ایک میں اور دوسری ممتاز مفتی کی بھانجی عروج جو ہنی مون منانے گلگت جا رہی تھی۔

اٹھارہ گھنٹے کا طویل سفر۔ پہلا پڑاؤ چلاس۔ خوش قسمتی کہ واقف فیملی اگلے دن بابو سر ٹاپ اپنے گرمائی مستقر جارہی تھی۔ساتھ لے گئی۔ وہاں رہنے مقامی کلچر کے رنگوں سے آشنائی کرتے دو دن بعد گلگت پہنچی۔وہاں سے ہنزہ، نگر، وادی یاسین، پنیال، سنگل اور ملحقہ چھوٹی موٹی وادیاں۔ہر نئے دن ایک نئی مہم۔اکیلی عورت دشوار گزار راستوں پر اڑتی پھر رہی تھی۔

آج سوچتی ہوں کہ میرے لچھن تو سارے کے سارے اپنا ریپ کروانے والے تھے۔کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی میں نے۔وادی چلاس میں سندھ کے پار کی وادی تھلپن کے ویران میدان جہاں ستھین دور کے چٹانی کتبے اس عہد کی پوری داستان سنتاتے تھے اور جسے دیکھنے اور جاننے کے لیے مری جارہی تھی۔ظہر اور عصر کے درمیان کا سارا وقت تن تنہا وہاں گزارا تھا جہاں دور دور تک کوئی ذی نفس نہیں تھا۔سوزوکی والا ہی بد نیت ہوجاتا تو کیا کرتی؟چلاس جلکوٹ جیسے قبائلی علاقے کا ہمسایہ ہے جس کے لوگ لوٹ مار اور قتل کرنے کو کھیل تماشا سمجھتے ہیں۔ہنزہ کے لیے بھی ایسی ہی حماقتیں تھیں۔ منہ اٹھا کر وہاں پہنچ گئی۔
نہ کسی ہوٹل کی بکنگ،نہ کوئی واقف کار۔سچی بات ہے اوپر والے کا احسان کہ مجھ جیسی جنونی اللّی بللّی عورت کے بھرم کا خیال کیا۔ میں نے بھی اوپر والے کو مدد گار کرلیا تھا۔ہونٹوں پر رکھ لیا تھا۔ آنکھوں میں بسا لیا تھااور اس نے بھی لاج رکھ لی۔

مضمون کی دم تقاضا کرتی ہے کہ اختتامیہ سین لکھ دوں۔
میرے چھوٹے بیٹے نے بھانڈا پھوڑ دیا تھا۔نویں دن جب وہ قریبی گھر میں باپ کا فون سننے اپنے دونوں بہن بھائی کے ساتھ گیا تو پھٹ پڑا۔ صدقے جاؤں اُداس ہوگیا تھا۔ دونوں بڑے تو ماں کا پردہ رکھتے تھے۔

تاہم لاہور گھر آکرمیں نے بھی میاں کے پیر پکڑ لیئے تھے۔میرا اندر تو ٹھنڈا ہوا پڑا تھا۔سرور میں ڈوبا ہوا تھا۔ہدف حاصل کر بیٹھی تھی۔لتّر بھی کھانے کو ملتے تو خوشی سے کھا لیتی۔

ہاں یہ ضرور ہوا میری رندھی آواز اور چھم چھم بہتے آنسووں کے درمیان میرا یہ کہنا کہ ڈر کی وجہ سے میرا تو کام بھی پورا نہیں ہوا۔بلتستان تو گئی ہی نہیں شاید اُسے گھائل کرگیا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors

ٹھیک ایک ماہ بعد میں اپنی دوست کے ساتھ بلتستان جا رہی تھی،بچے میاں نے سنبھالے اور انتظام بھی اسی نے کیا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply