نیوٹن ۔ کام کی تکمیل (37)۔۔وہاراامباکر

نیوٹن کو پانچ سال پہلے رابرٹ ہک نے ایک آئیڈیا دیا تھا۔ ہک نے تجویز کیا تھا کہ مداری گردش کو دو الگ چیزوں کی جمع کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ اگر ایک شے کسی دوسرے کے گرد گردش کر رہی ہے تو اس کا ایک رجحان سیدھا جانے کا ہے اور اس کو ریاضی میں tangential سمت کہتے ہیں۔ اور اس کا دوسرا رجحان بھی ہے جو اسے مدار کے مرکز کی طرف کھینتا ہے۔ یہ radial موشن ہے۔ ہک نے کہا تھا کہ یہ دونوں ملکر دائروی مدار پیدا کرتی ہیں۔

نیوٹن اس سے پہلے گلیلیو کے انرشیا کے قانون سے بھی واقف تھے جو ان کی نوٹ بک میں لکھا تھا۔ ایک مدار میں گردش کرنے والا پہلا رجحان اس اصول سے نکلنے والا نتیجہ تھا۔ نیوٹن کو احساس ہوا کہ اگر اس میں ایک اور فورس کا اضافہ کر دیا جائے جو اس کو مرکز کی طرف لے کر جا رہی ہے تو ہک کا پیشکردہ دوسرا ضروری جزو مل جاتا ہے۔

لیکن اس کو ریاضی میں کیسے بیان کیا جائے کہ انورس سکوائر لاء تک پہنچا جا سکے اور پھر کیپلر کے قوانین تک؟

تصور کریں کہ وقت کو چھوٹے حصوں میں تقسیم کر لیا جائے۔ پہلے یہ جسم اس میں تھوڑی سے دیر سیدھا جاتا ہے اور پھر تھوڑی سے دیر نیچے گرتا ہے اور یوں اپنے مدار پر ہی رہتا ہے۔ اس کو بار بار دہرایا جائے تو ایک دائروی مدار بن جائے گا جس کے آری کی طرح کے دندانے نکلے ہوں گے۔ اور اگر ان دورانیوں کو مختصر کرتے رہا جائے تو یہ دائروی کے قریب تر ہو جائے گا اور یہاں پر نیوٹن کا کیلکولس کام آیا جس میں یہ دورانیے infinitesimal تھے۔ اور مدار پرفیکٹ دائرہ بن جائے گا۔

نیوٹن کی نئی ریاضی نے مداروں کی وضاحت کر دی۔ اس کے ساتھ انہوں نے اس کو باتصویر سمجھایا۔ اس نظر سے، مداری حرکت کسی جسم کی حرکت تھی جو اپنے سیدھے راستے سے مسلسل پھیرا جا رہا ہو، کسی ایسی قوت سے جو اسے مرکز میں کھینچ رہی ہو۔ اور اس کا ثبوت اس سے نکلے نتیجے سے تھا جو ریاضی سے مدار کی وضاحت کر دیتا تھا۔ نیوٹن اس سے کیپلر کے تین قوانین تک پہنچ گئے تھے۔

یہ دکھایا جانا کہ نیچے گرنا اور مدار میں حرکت دراصل فورس کے ایک ہی قانون کا نتیجہ ہیں، نیوٹن کی سب سے بڑی فتح تھی۔ اس نے ارسطو کے اس خیال کو غلط ثابت کر دیا تھا کہ زمین اور آسمان الگ دنیائیں ہیں جن کے الگ قوانین ہیں۔ گلیلیو کے مشاہدات نے دکھایا تھا کہ دوسرے سیارے بھی زمین کی طرح ہیں۔ نیوٹن کے کام نے یہ دکھایا تھا کہ فطری قوانین بھی ہر سیارے پر یکساں ہیں، نہ کہ زمین پر باقی سب سے الگ۔

اور نہیں، یہ سیب گرنے سے یکایک آنے والا خیال نہیں تھا۔ نیوٹن اس تک رفتہ رفتہ پہنچے تھے، جیسے جیسے وہ پرنسپیا کے ڈرافٹ کو revise کرتے گئے تھے۔ اس سے پہلے اگر کسی سائنسدان کا خیال تھا بھی کہ کسی سیارے کا اپنے چاند سے کشش کا رشتہ ہے تو یہ گمان بھی نہ تھا کہ اس کا کوئی تعلق دوسرے سیارے کی کشش سے بھی ہو سکتا ہے۔ ہر سیارے کو الگ دنیا تصور کیا جاتا تھا جس کے الگ قوانین تھے۔ نیوٹن نے خود بھی اسی خیال سے ہی شروع کیا تھا کہ کیا سیب کو گرانے والی اور چاند کو زمین کے گرد گھمانے والی فورس ایک ہی ہے؟ اور اس انوسٹی گیشن میں سورج کی فورس شامل نہیں تھی۔

اور یہ نیوٹن کی تخلیقی صلاحیت کا کمال تھا۔ الگ ہی زاویے سے تجزیہ کر لینے کی صلاحیت، جس سے انہوں نے روایتی سوچ سے ہٹ کر سوچنا شروع کیا۔ انہوں نے ایک برطانوی ماہرِ فلکیات کو خط لکھ کر 1680 سے 1684 تک کے دمدار ستارے کے مشاہدات کا ڈیٹا منگوایا۔ مشتری اور زحل کی مداری رفتار کا ڈیٹا منگوایا۔ اس بہت ایکوریٹ ڈیٹا پر کی گئی کیلکولیشنز اور نتائج کا موازنہ بہت تھکا دینے والا کام تھا۔ لیکن اس سب تجزیے نے انہیں قائل کر دیا کہ گریویٹی کے بالکل ایک ہی قوانین ہیں جو ہر جگہ پر لاگو ہوتے ہیں۔ زمین پر بھی اور فلکیاتی اجسام کے آپس میں بھی۔ انہوں نے پرنسپیا کے متن کو ریوائز کر کے اس سب کو درست کیا۔

نیوٹن کے قوانین صرف اس کا انقلابی تصوراتی متن ہی نہیں۔ اس کی مدد سے وہ بے مثال ایکوریسی کے ساتھ پیشگوئی کر سکتے تھے اور اس کا تجرباتی نتائج سے موازنہ کر سکتے تھے۔ چاند کی مداری حرکت پر سورج کی کشش سے پڑنے والے فرق کا بھی۔ زمین کی شکل کے پرفیکٹ سفئیر سے معمولی سے ہٹ جانے کا بھی۔ نیوٹن نے کیلکولیٹ کیا کہ ایک جسم گرتے وقت پہلے سیکنڈ میں پندرہ فٹ اور ایک انچ کا آٹھواں حصہ طے کرے گا۔ نیوٹن کے تجربات نے دکھایا کہ نتیجہ یہی نکلا اور اس کی ایکوریسی تین ہزار میں سے ایک حصہ تھی۔ انہوں نے کئی میٹیریلز سے تجربات دہرائے۔ سونا، چاندی، سیسہ، شیشہ، ریت، نمک، پانی، لکڑی اور گندم۔ نتیجہ نکالا کہ ہر جسم، خواہ کسی بھی چیز سے بنا ہو اور خواہ زمین پر ہو یا آسمان میں، ہر دوسرے جسم کو کھینچتا ہے اور ہمیشہ اس کے لئے ایک ہی قانون ہے۔

نیوٹن نے ہیلے سے وعدہ کیا تھا کہ وہ معاملے کی تہہ تک پہنچ جائیں گے۔ نیوٹن معاملے کی تہہ تک پہنچ گئے تھے۔ اور ان کی اس جدوجہد نے فطرت کے بہت سے راز عیاں کر دئے تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نیوٹن کے قوانین محض تجریدی نہیں تھے۔ یہ ریاضی کے محض چند اصولوں سے دنیا کے ان گنت فینامینا کی وضاحت کے قابل کر دیتے تھے۔ مثال کے طور پر، انہوں نے دکھایا کہ گریویٹی چاند کے موشن میں بے قاعدگی کا مشاہدہ کیسے تخلیق کرتی ہے۔ انہوں نے سمندر میں لہروں کی وضاحت کی۔ ہوا میں آواز کی رفتار کیلکولیٹ کی۔ اور دکھایا کہ equinox precession زمین کے خطِ استوا پر ابھار کی وجہ سے چاند پر ہونے والے اثر کا نتیجہ ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رائل سوسائٹی نے 19 مئی 1686 کو پرنسپیا شائع کرنے کی حامی بھری لیکن اس شرط پر کہ اس کا خرچ ہیلے ادا کریں گے۔ سوسائٹی نے اس سے پچھلے سال “مچھلیوں کی تاریخ” کے عنوان سے کتاب شائع کی تھی لیکن دلچسپ عنوان ہونے کے باوجود ناکامی ہوئی تھی اور نیا تجربہ کرنے کے وسائل نہیں تھی۔ (ہیلے کو بطور کلرک کام کرنے کا معاوضہ “مچھلیوں کی تاریخ” کی کتاب کی جلدوں کی صورت میں ملا تھا)۔ ہیلے نے حامی بھر لی۔ اگلے سال کتاب شائع ہو گئی۔

ہیلے نے اس کی جلدیں اس وقت کے بڑے سائنسدانوں اور فلسفیوں کو بھجوائیں۔ اور اس نے برطانیہ میں تہلکہ مچا دیا۔ یورپ کے قہوہ خانوں میں اور علمی حلقوں میں بات پھیل گئی۔ یہ جلد ہی واضح ہو گیا کہ نیوٹن نے وہ کتاب لکھ دی ہے جو انسانی فکر کی تشکیلِ نو کرے گی۔ سائنس کی تاریخ کا سب سے بااثر کام کر دیا گیا ہے۔

کوئی اتنے گہرے اور وسیع کام کے لئے تیار نہ تھا۔ انہیں یورپ کے بڑے جرائد نے زبردست ریویو دئے، “مکینکس کی اتنی پرفیکٹ کتاب جس کا تصور کیا جا سکتا ہے”۔ یہ چونکا دینے والی کامیابیاں تھیں اور انہوں نے واقعی دنیا کو چونکا دیا۔ اس کو پڑھنے والے پہچان گئے تھے کہ نیوٹن نے ارسطو کی فزکس کا تخت الٹا دیا گیا ہے۔ اب سائنس کسی اور طریقے سے ہو گی۔

منفی ری ایکشن بھی آئے۔ جرمن فلسفی اور ریاضی دان ولہلم لیبنز، جنہوں نے آزادانہ طور پر الگ کیلکولس ایجاد کیا تھا، نے الزام لگایا کہ نیوٹن سارا کریڈٹ خود لینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ رابرٹ ہک نے پرنسپیا کو “دنیا کی تخلیق کے بعد ہونے والی سب سے اہم دریافت” کہا اور پھر تلخی سے کہا کہ نیوٹن نے ان کا انورس سکوائر کا قانون چرایا ہے۔ اس کا کچھ جواز بنتا تھا کہ بنیادی خیال ہک کا تھا تاہم اس کی ریاضی نیوٹن نے دریافت کی تھی۔

کچھ نے یہ بھی کہا کہ نیوٹن اس سے سپرنیچرل ثابت کرنا چاہ رہے ہیں۔ اس میں دور سے اثر کرنے والی اوکلٹ فورس کا ذکر ہے جس کا اثر منتقل کرنے کا کوئی طریقہ نہیں۔ (بعد میں نکتہ آئن سٹائن کر پریشان کرتا رہا کہ یہ ان کی سپیشل تھیوری آف ریلیٹیویٹی کے خلاف تھا۔ جنرل تھیوری آف ریلیٹیویٹی نے اس مسئلے کو حل کر دیا)۔ لیکن نیوٹن کے مخالفین کے پاس کوئی متبادل نہیں تھا اور چار و ناچار انہیں اسے تسلیم کرنا پڑا۔

جب بارہ سال پہلے نیوٹن کے کام پر تنقید ہوئی تھی تو انہوں نے دنیا سے ناطہ توڑ لیا تھا، اس بار ان کا ردِعمل اس سے بالکل الٹ تھا اور اس کی وجہ ان کا اعتماد تھا۔ نیوٹن نے مخالفین پر بآوازِ بلند جوابی حملے کئے۔ لیبنز اور ہک کو ان کی موت تک (اور اس کے بعد بھی) تنقید کا نشانہ بناتے رہے اور جہاں ان پر آکلٹ ازم کا الزام لگایا گیا، وہاں کہا، “جو اصول میں نے بیان کئے ہیں، یہ میرے نہیں، فطرت کے جنرل قوانین ہیں۔ یہ وہ سچ ہے جو فطری مظاہر ہم پر آشکار کرتے ہیں، خواہ ان کی وجہ ہم نے دریافت کی ہو یا نہ کی ہو”۔

Advertisements
julia rana solicitors london

(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply