اور اب علامہ ضمیر اختر بھی۔۔سعید چیمہ

سفاک رُت مشرق و مغرب کے درمیان فاصلے ایسی طویل ہوتی جا رہی ہے،کسی کے عالمِ بالا جانے کی خبر دل پر ایسا زخم لگاتی ہے کہ جس کے رفو ہونے کی کوئی امید نہیں ہوتی۔اتوار کے روز دیوار پہ ٹک ٹک کرتی گھڑی پر دس بج رہے تھے اور آفتابی گولے کی شعاؤں نے ابھی فضا میں حدت بڑھانا شروع کی تھی کہ موبائل پر بجنے والی رِنگ نے مژدہ سنایا کہ کسی کا پیغام موصول ہوا ہے،موصول ہونے والے پیغام میں دوست نے خبر دی تھی کہ علامہ ضمیر اختر نقوی راہی عدم ہو گئے ہیں،علامہ کے انتقال کی خبر پڑھ کر ایسا لگا کہ جسم کا کوئی حصہ کٹ گیا ہے جس کی پیوند کاری اب ممکن نہیں ہو سکے گی،بے چینی کی کیفیت تھی اور پھر جون ایلیا یاد آ گئے۔۔
یہ مجھے چین کیوں نہیں پڑتا
ایک ہی شخص تھا جہان میں کیا

Advertisements
julia rana solicitors

علم کی دنیا کے مکین جانتے ہیں کہ ایک عالم کے اٹھ جانے سے کتنا نقصان ہوتا ہے اور علامہ ضمیر اختر تو علم کا بحرِ عمیق تھے۔پہلے مفتی محمد نعیم اور علامہ طالب جوہری ایسی نابغہ روزگار شخصیات نے عالمِ ارواح کی طرف رختِ سفر باندھا اور اب علامہ ضمیر بھی ایسے سفر پر چلے گئے ہیں جہاں سے کوئی بھی وآپس نہیں لوٹتا،امت میں فرقہ واریت کا سرطان بڑھتا جا رہا تھا،معمولی واقعات پہ دوسرے فرقے کے لوگوں کو قتل کر کے بہت سے لوگ جنت کے اعلیٰ درجوں میں پہنچنے کی کوشش میں تھے،ایسے میں مفتی نعیم،علامہ جوہری،مفتی تقی،مولانا طارق جمیل،علامہ ثاقب رضا،سید جواد نقوی اور علامہ ضمیر اختر ایسے علما نے فرقہ واریت کے سرطان کے علاج کے لیے دن رات ایک کیا،جس کے نتائج اب معاشرے میں دیکھے جا سکتے ہیں کہ فرقہ واریت دن بدن کم ہو رہی ہے،مگر دل ڈرتا ہے کہ اگر معتدل علما نے ایسے ہی عالمِ بالا کا سفر جاری رکھا تو کہیں پھر امت میں فرقہ واریت کے سرطان کا پھوڑا نمودار نہ ہو جائے”میرے وارث میری امت کے علما ہیں” خاتم النبینﷺ علما کو اپنا وارث کہتے تھے،علامہ ضمیر ایسے عالم کو دیکھ کے گمان ہوتا تھا کہ شاید یہی وہ عالم ہے جس کو عالی جنابؐ نے اپنا وارث کہا تھا۔اچھی تقریروں سے کوئی عالم نہیں بن جاتا یہ تو اُس کی تصنیفات طے کرتی ہیں کہ وہ کتنا بڑا عالم ہے،علامہ ضمیر کی شہرہ آفاق تصنیفات نے ان کے بلند مقام کا فیصلہ کر دیا ہوا ہے،اردو ادب سے تعلق رکھنے والے یا جو بھی اردو ادب سے تعلق استوار کرنا چاہتے ہیں ان کو علامہ کی تصنیفات کے بحر میں ڈوبنا ہو گا۔علامہ ضمیر اختر 1947ء میں لکھنو (لکھنو کا علمی تعارف کروانے کی ضرورت نہیں) میں پیدا ہوئے،ابتدائی تعلیم لکھنو سے ہی حاصل کی اور بعد ازاں خاندان کے ساتھ ہندوستان سے ہجرت کر کے 1967ء میں کراچی آباد ہو گئے،علامہ ضمیر جب بھی تقریر کرتے تو اردو ادب کا خوب تڑکا لگاتے،الفاظ کا چناؤ بہت شاندار ہوتا اور لہجے سے معلوم پڑتا تھا کہ موصوف کا تعلق کبھی لکھنو سے بھی تھا۔علامہ نے اپنی مختلف تقریروں میں چند مافوق الفطرت واقعات بھی بیان کر دئیے جن میں سرِ فہرست نیپال کے لڑکوں کا واقعہ تھا جو انتقال کے بعد زندہ ہو گئے جس کی وجہ سے سوشل میڈیا کے دانشور سپاہیوں نے علامہ پر خوب زہر آلود نشتر چلائے،ایک واقعے کی وجہ سے عوام ان کو اوجِ ثریا سے تخت الثریٰ تک لے آئی،شاعر نے جب کہا تھا کہ ایک نقطہ محرم سے مجرم بنا دیتا ہے تو شاید اس نے مبالغہ آرائی سے کام نہیں لیا تھا۔کتنے ہی نامور علما ہیں جن کو شیعہ سُنی کی تقسیم کھا گئی اور ان کی تصنیفات تاریخ کی گرد تلے دبی پڑی ہیں،شیعہ سُنی دونوں گرہوں میں ہیروں ایسے علما نے کندن ایسی کتابیں لکھیں مگر مخالف گروہ نے ایسی کتابوں سے ہمیشہ اعراض برتا۔اختلاف کس سے نہیں کیا جا سکتا،علامہ ضمیر سے بھی اختلاف ممکن تھا مگر اختلاف کا لبادہ اوڑھ کر ان کی تضحیک کی گئی،مجال ہے جوعلامہ کے چہرے پر کبھی کوئی شکن نمودار ہوئی ہو۔تکریم کی جس مسند پر علامہ کو بٹھانا چاہیئے تھا وہ ہم نے نہیں بٹھایا،اگر وہ اپنی قابلیت کی بدولت مسند پر براجمان بھی ہونے لگے تو ہم نے مسند کو ڈھانا شروع کر دیا،مگر علامہ خوش دلی کا چلتا پھرتا پیکرِ مجسم تھے،دلفریب سی مسکراہٹ ہر وقت چہرے پر سجائے رکھتے گویا گمان ہونے لگتا کہ مسکراہٹ تو شاید ان کے گھر کی باندی ہے۔علامہ نے اپنا معاملہ اب اللہ کے سپرد کر دیا ہے،تو ان پر بے جا تنقید کرنے والوں کو باز آنا چاہیئے یہ نا ہو کہ علامہ ضمیر اللہ کی بارگاہ میں ایسوں کے خلاف شکایت درج کروا دیں اور شکایت کا فیصلہ قیامت کے دن کیا جائے جس دن حاملاؤں کے حمل گر جائیں گے۔دعا ہے کہ رب تعالیٰ علامہ کی غلطیوں سے درگزر فرما کر ان کو جنتوں کے اعلیٰ مقام میں لے جائے اور سوشل میڈیا کے افلاطونوں کو ہدایت دے کے وہ لوگوں کی تضحیک کے سلسلے کو بند کر دیں

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply