• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • ریاست بہاول پور کا شاہ جہاں”نواب صبح صادق خان عباسیؒ”/ڈاکٹر سید محمد عظیم شاہ بُخاری

ریاست بہاول پور کا شاہ جہاں”نواب صبح صادق خان عباسیؒ”/ڈاکٹر سید محمد عظیم شاہ بُخاری

آج جس خطے میں ریاست بہاولپور موجود تھی یہ علاقہ تاریخ کے آغاز سے ہی انسانی آمدورفت کا اہم راستہ رہا ہے۔
ریاست بہاول پور اس عظیم جغرافیائی و ثقافتی خطے کا اہم حصہ ہے جسے ہم وادی سندھ کی تہذیب کہتے ہیں۔
ماہرین آثارِ قدیمہ نے یہاں دفن تاریخ کے کئی قیمتی خزانے دریافت کر کے  اِس خطے کے ہڑپہ و موہنجودڑو سے ثقافتی و تہذیبی روابط کا کھوج لگایا ہے۔ آج اس خطے کا بیشتر حصہ صحرا پر مشتمل ہے جہاں دور دور تک ریت کے ٹیلے ہیں لیکن کسی زمانے میں یہ دریائے ہاکڑہ کا سرسبز خطہ تھا۔ یہاں موجود ہاکڑہ کی تہذیب زمانہ قدیم سے ہی تجارت کا مرکز رہی ہے جہاں آریاؤں نے اپنے تجربات کو ویدوں کی صورت مرتب کیا۔ بہتے دریاؤں نے رخ بدلا تو یہ علاقہ ویران ہو گیا اور پانی کے ساتھ ساتھ یہاں کی رونقیں بھی ختم ہو گئیں۔
ماہرین کے بقول ”رگ وید” کی جلد اوّل کی تکمیل کا علاقہ بھی یہی ہے (بشمول سندھ و ملتان) جس کی تاریخی شہادت اس امر سے ملتی ہے کہ خطہ بہاولپور کے دریاؤں سرسوتی (ہاکڑہ)، شتادرو (ستلج) اور سپت (سندھ) کا تذکرہ ویدوں میں بارہا ملتا ہے۔
گنویری والا، سوئی وہار، پتن مینارہ اور سرواہی جیسے قدیم ترین ثقافتی مراکز کی دریافت نے اس علاقے کی زرخیز تاریخی میراث پر مہر ثبت کر دی ہے۔

کچھ آگے چلیں تو پتہ  چلتا ہے کہ یہ ریاست تیرہویں صدی عیسوی سے لے کر 18 ویں صدی کے اوائل تک کسی نہ کسی شکل میں ملتان کی عملداری میں رہی یہاں تک کہ سندھ کے عباسی حکمرانوں کی شاخ داؤدپوترہ عباسی، اپنی رنجشوں کی بدولت سندھ سے اس علاقے میں منتقل ہو گئے۔ عباسی خاندان نے اوچ شریف کے مخادیم سے اپنے تعلقات کی بدولت خان پور کا دریائی علاقہ حاصل کیا اور اس ریاست کی بنیاد رکھی جو آج بہاول پور کی صورت ہمارے سامنے ہے۔
اِس ریاست کا سیاسی و انتظامی قیام 1727 میں عمل میں آیا اور امیر صادق محمد خان اول اس کے پہلے نواب بنے۔
یہاں ہمارا موضوع ریاست کا وہ نواب ہے جس کی گامن سے محبت نے اسے امر کر دیا۔ اور آج اس کی کہانی ایک ڈرامے کی صورت لکھی جا رہی ہے۔

پیدائش و تخت نشینی ؛
برطانوی ہند کی عظیم الشان ریاست بہاول پور کے نواب محمد بہاول خان عباسی (چہارم) کے ہاں 11 نومبر 1861 کو ایک لڑکا پیدا ہوا جس کا نام ”صبح صادق عباسی” رکھا گیا۔
یہی لڑکا آگے چل کر ریاست کا دسواں نواب، صادق محمد خان عباسی (چہارم) بنا جنہیں ان کی عظیم الشان اور منفرد تعمیرات کی بدولت ریاست بہاول پور کا ”شاہ جہاں” قرار دیا جاتا ہے۔ یاد رہے کہ ریاست بہاولپور کے عباسی نوابین کا شجرہ حضرت محمدؐ کے چچا حضرت عباس رض سے جا ملتا ہے۔
نواب صبح صادق عباسی کی پیدائش کے قریباً ساڑھے چار سال بعد آپ کے والد کا انتقال ہو گیا سو چھوٹی عمر میں آپ کو بہاولپور کا نواب نامزد کر دیا گیا۔ اگرچہ آپ کی دستار بندی 26 مارچ 1866 کو کر دی گئی تھی لیکن آپ کی بلوغت تک ریاست کے معاملات ایجنسی یعنی برطانوی نمائندوں کے سپرد رہے۔ سو اس دور کو ”ایجنسی دور” کا نام دیا گیا۔ 1879 میں سر رابرٹ ایجرٹن کے ہاتھوں آپ کی باقاعدہ تاج پوشی نور محل میں کی گئی۔

عہدِ نواب صبح صادق عباسیؒ ؛
نواب صبح صادق عباسی کی دستار بندی کے بعد بہاول پور میں کرنل چارلس چیری منچن کو انگریز سرکار کی جانب سے ریاست کا پولیٹیکل ایجنٹ و سپرنٹنڈنٹ تعینات کیا گیا جس کے بعد اس ریاست کے ایک شاندار دور کا آغاز ہوا۔ مدراس میں پیدا ہونے والے کرنل منچن اس سے پہلے بھی بنوں اور ڈیرہ اسماعیل خان کے اضلاع میں اسسٹنٹ کمشنر کے فرائض سر انجام دے چکے تھے۔
نواب صاحب کی زیرنگرانی کرنل منچن نے ریاست میں مروجہ کارداری نظام کو ختم کر کے  نظامتوں کو رائج کیا، تربیت یافتہ پٹواری بھرتی کر کے  نمبرداری کا نظام رائج کیا۔ ریاست کے مشرق میں پڑی غیر آباد زمین پر کاشتکاری شروع کروائی اور نہری نظام کو وسیع کیا۔ انہی کے دور میں فورڈ واہ نہر نکالی گئی۔ ریاست میں آثارِ قدیمہ کی کھدائی، چھاپہ خانہ، ڈاک کی بہترین ترسیل، فوج کی جدید خطوط پر تربیت، ریسٹ ہاؤسز کا قیام اور نواب صاحب کے لیئے نور محل کی تعمیر جیسے تمام اہم معاملات کا کریڈٹ کرنل منچن اور ان کی نواب صاحب کے ساتھ ذہنی ہم آہنگی کو جاتا ہے۔
نواب صاحب کے تخت نشیں ہونے کے بعد بھی اصلاحات کا یہ سلسلہ جاری رہا اور ریاست نے ترقی کا ایک نیا دور دیکھا۔

عہدِ صادق کی تعمیرات ؛
نواب صادق محمد خان عباسی چہارم کا عہد ریاست کا خوشحال دور قرار دیا جاتا ہے خصوصاً تعمیرات کے حوالے سے۔ اِس دور میں تعمیر ہونے والی عمارتیں طرزِ تعمیر میں منفرد تھیں۔ یہ نہ صرف بہاولپور کی شان بڑھاتی رہیں ہیں بلکہ آج بھی یہ ریاست کے تاج میں دمکتے نگینوں کی طرح جڑی ہیں۔
آئیں فرداً فرداً ان پر نظر ڈالتے ہیں۔

نور محل ؛
نور محل کی تعمیر کا کام 1872ء سے 1875 تک جاری رہا۔ اس کی تعمیر میں دال ماش اور چاول کی آمیزش سے بنا ہوا مصالحہ استعمال کیا گیا۔ اس کی تعمیر پر اس وقت کی خطیر رقم خرچ ہوئی جو ایک اندازے کے مطابق 12 لاکھ روپے بنتی تھی۔ یہ محل دو منزلوں پر مشتمل ہے جس کے لیے فرنیچر اور تین فانوس اٹلی سے منگوائے گئے تھے۔ بد قسمتی یہ کہ جس بیگم کے لیئے یہ محل تعمیر کیا گیا تھا وہ یہاں محض ایک دن رکی تھیں کیونکہ انہیں محل کے پاس موجود قبرستان کے ساتھ رہنا گوارا نہیں تھا۔
آج یہ محل پاک فوج کے زیر نگرانی ہے۔

دولت خانہ ؛
دولت محل بہاولپور یا دولت خانہ کی تعمیر نواب صاحب نے گلزار محل کے سامنے 1881 میں شروع کروائی جو 1886 میں تکمیل کو پہنچی۔
محل کی چار دیواری کے اندر ایک خوبصورت باغ تھا۔ دولت خانہ محل کی تعمیر کے دوران بگھی خانہ، توشہ خانہ اور رتھ خانہ کی عمارتیں بھی تیار کی گئیں۔ یہاں ایک تالاب اور اس کے سامنے ایک خوبصورت مسجد بھی تیار کی گئی تھی۔

کہا جاتا ہے کہ دولت خانہ کے مرکزی دروازے کے سامنے ایک بڑا بکس رکھا گیا تھا جس میں عوام الناس اپنی شکایتیں اور درخواستیں لکھ کہ ڈال جایا کرتے تھے۔ اس بکسے کو روزانہ صبح کھولا جاتا اور درخواستوں پر غور کیا جاتا تھا۔
یہ محل اب کھنڈرات میں بدلنے کو ہے۔

صادق گڑھ پیلس ؛
بلاشبہ ریاست کے تمام محلات میں سب سے حسین محل صادق گڑھ پیلس ہے جسے ریاست کا تاج محل یا وائٹ پیلس بھی کہا جاتا ہے۔ احمد پور شرقیہ کے پاس ڈیرہ نواب صاحب میں واقع یہ محل نواب صبح صادق عباسی نے 1882 میں تعمیر کروایا تھا۔ اس کی تعمیر دس سال کے عرصے میں ہوئی۔
محل کی بیرونی دیواریں کلومیٹر کے حساب سے طویل ہیں۔ ان دیواروں کے اندر کئی سو کنال کی اراضی ہے جس میں محل کی عمارت، باغ، مسجد و بارہ دری شامل ہیں ۔
محل کے اندر ایک بڑا حال ہے جہاں نواب صاحب اپنا دربار لگایا کرتے تھے۔ اسی ہال میں آپ کا تخت رکھا ہوتا تھا۔ ہال کے علاوہ یہاں بیسیوں رہائشی کمرے، کانفرنس روم، ڈائننگ روم، غسل خانے اور خواتین کا حرم دیکھا جا سکتا ہے۔ یہاں کا ہر کمرہ ایک الگ طرز سے بنایا گیا تھا جس میں اطالوی و فرنچ طرزِ تعمیر کی واضح چھاپ نظر آتی ہے۔ محل کا فرش بیش قیمت سنگِ مرمر کا بنا ہے جبکہ سفیدی میں نہائے گنبد اس کی شان میں اور اضافہ کرتے ہیں۔
محل کے بیرونی دروازے کی سیدھ میں ایک بارہ دری بھی بنائی گئی ہے۔
اس محل کی ایک خوش بختی یہ بھی ہے کہ حضرت خواجہ غلام فریدؒ کافی عرصہ صادق گڑھ پیلس میں رہے جہاں نواب صبح صادق عباسی صاحب کا اپنے پیر و مرشد سے جو احترام، عقیدت اور محبت کا رشتہ استوار ہوا وہ مثال بن گیا۔

صادق ایجرٹن سکول ؛
نواب صبح صادق عباسی نے بہاول پور میں اعلیٰ تعلیم کی فراہمی کے لیئے اپریل 1886 میں گورنر پنجاب سر رابرٹ ایجرٹن کے ساتھ مل کہ ایک کالج کی بنیاد رکھی تھی جسے دونوں کہ نام پہ ”صادق ایجرٹن کالج” کا نام دیا گیا جو بہاول پور میں یونیورسٹی چوک پر واقع ہے۔
یہ دراصل سر رابرٹ ایجرٹن اسکول کے طور پہ وجود میں آیا تھا جسے نواب صاحب کی طرف سے بطور کالج اپ گریڈ کیا گیا۔ آج یہ خوبصورت عمارت ایک وسیع و عریض درسگاہ ہے جو نواب صاحب کی روح کے لیئے باعثِ ثواب بھی ہے۔
اس کے علاوہ نواب صادق خان عباسی چہارم نے ریاست میں متعدد باغات، نہریں، ریسٹ ہاؤس اور سرکاری عماروت تعمیر کروائیں جن کا مفصل ذکر بہت سی سطور نگل لے گا۔

حضرت خواجہ غلام فریدؒ سے عقیدت مندی ؛
ریاست میں ایک مقولہ مشہور ہے کہ ؛

”پیر ہو تو غلام فرید جیسا اور مرید ہو تو صادق جیسا”

1261 ہجری (1845) بروز منگل چاچڑاں شریف (خان پور) میں پیدا ہونے والے حضرت خواجہ غلام فریدؒ نہ صرف ریاست بہاولپور بلکہ اِس خطے کے عظیم صوفی شاعر گزرے ہیں جن کا تعلق سلسلہ چشتیہ نظامیہ سے تھا۔ آپ نسباً قریشی فاروقی تھے۔ آپ کی شناخت شاعری کی صنف”کافی” ہے۔ اس کے علاوہ آپ نے روحانیت و محبت سے بھرپور لاجواب کلام اپنی میراث میں چھوڑا ہے جس سے مٹی کی خوشبو دور تلک محسوس کی جا سکتی ہے۔ سرائیکی کے علاوہ آپ نے سندھی، فارسی، اردو، عربی اور پوربی زبان میں بھی شعر کہے ہیں۔
چونکہ نواب آف بہاول پور فتح محمد خان عباسی (ریاست کے آٹھویں حکمران) خواجہ صاحب کے والد کے مریدِ خاص تھے سو والد کی وفات کے بعد حضرت خواجہؒ صاحب نے اپنی اوائل عمری کا کچھ عرصہ نواب صاحب کی خواہش پر ریاست بہاولپور کے قلعہ ڈیراور میں گزارا تھا جہاں آپ حضرت کی تعلیم کے لیئے اساتذۃ کرام کا بندوبست بھی کیا گیا تھا۔ اس کے بعد آپؒ روہی (چولستان) تشریف لے گئے جہاں لگ بھگ اٹھارہ سال آپ نے ریاضت کی۔
والد کی میراث کہہ لیں یا خون کا اثر، اس دوران آپ سے سولہ برس چھوٹے نواب صادق محمد خان عباسی چہارم آپ کے مریدِ خاص بن گئے اور  خواجہ صاحب سے بھر پور فیض پایا۔ یہ فیض پھر ریاست کے انتظامی معاملات میں رہنمائی تک محدود نہ رہا بلکہ روحانیت و عشقِ حقیقی کی منزل تک جا پہنچا تھا۔ اگر یوں کہیں کہ نواب صبح صادق عباسی کی طبیعت و شخصیت پر خواجہ صاحبؒ کی صحبت اور مریدی کا پھر پور اثر نظر آتا تھا تو بے جا نہ ہو گا۔

ایک موقع پر نواب صاحب نے اپنے ایک ملازم کو پانی دیر سے پلانے پر نوکری سے برطرف کر دیا۔ یہ شخص ایک روز کوٹ مٹھن حضرت خواجہ غلام فرید ؒ کی خدمت میں حاضر ہوا اور تمام ماجرا ان کے گوش گزار کیا۔ ملازم نے سفارش کی التجا کی ۔ کیونکہ نواب بہاولپور خواجہ صاحب کے حلقہ ارادت میں تھے سو حضرت خواجہؒ نے اسے نواب صاحب کے نام ایک نہایت مختصر خط دے کر روانہ کیا جس کا متن درج ذیل ہے؛

صادق

” زیر تھی، زبر نہ بن، متاں پیش پووی”

غلام فرید

(یعنی نرمی اختیار کرو، سختی نہ کیا کرو، ورنہ اللہ تعالیٰ  تم پر بھی سختی کر سکتے ہیں)۔

یہ نصیحت نواب صاحب کے دل پر اثر کر گئی اور اس ملازم کو نوکری پر بحال کر دیا۔
پھر نواب صبح صادق عباسی کی تخت نشینی کے موقع پر خواجہ غلام فریدؒ نے ایک خوبصورت قصیدہ لکھ کر پیش کیا تھا جو ذیل میں دیا جا رہا ہے۔

صبح صادق خاں صاحبی مانڑے
پا سہرے گانے گاہنڑے
۔۔
سہجوں پھلوں سیج سہا توں
بخت تے تخت کوں جوڑ چھکا توں
آپنڑے ملک کوں آپ وسا توں
پٹ انگریزی تھانڑے
۔۔
سنڑ اقبال تیڈا پے ڈر دے
راجے دہشت کھا کر مردے
میر نواب تھاے آ بردے
بے زر مفت وکانڑے
۔۔
پیر فقیر سب تیکوں چہندے
صوبےدار ملازم رہندے
گردا گرد کچہری بہندے
افلاطون سیانڑے
۔۔
فیض تیڈے دے جگ وچ قصے
زالاں مرد گاے گھن حصے
نینگر تکڑے بڈھرے لسے
ننڈھڑے بال ایانڑے
۔۔
خوب ہنڈاہیں جند جوانی
ہر دم کول وسیں دل جانی
یار پیارا یوسف ثانی
ناز تیڈے من بھانڑے
۔۔
کرے فرید ہمیش دعاہیں
سانول جیویں چر چگ تاہیں
تیڈے ساڈے سوہنڑا ساہیں
لگڑے نین پورانڑے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(منقول از دیوانِ فرید)

غور کریں تو اِس ایک قصیدے میں حضرت خواجہؒ کی نواب صاحب کے لیئے محبت، نصیحت، فخر اور دعائیں سمٹ آئی ہیں۔

ادھر نواب صاحب نے بھی اپنے مرشد کی خدمت میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی۔ کہا جاتا ہے کہ دعوت کے وقت نواب آف بہاولپورکی طرف سے آپ کو پچیس ہزار روپے پیش کیے جاتے تھے اور روانگی کے وقت 30سے40 ہزار روپے جو آپ غریبوں مسکینوں میں تقسیم کر دیتے تھے۔
ایک روایت کے مطابق نواب صاحب نے 1867 میں سکاٹ لینڈ سے بن کہ آنے والا اپنا بحری جہاز ستلج کوئین (جو بعد میں انڈس کوئین کہلایا) بھی حضرت خواجہ صاحبؒ کو تحفتاً پیش کر دیا تھا۔ جبکہ کچھ کتابوں میں درج ہے کہ اِسے نواب صادق خان عباسی پنجم نے فرید کی نگری (کوٹ مٹھن) اور چاچڑاں شریف کے درمیان سفر کرنے والے خواجہ صاحب کے مریدین کے لیئے وقف کر دیا تھا۔ یہ جہاز کافی عرصہ استعمال میں رہا اور اِس نے اپنا آخری سفر 1996 میں کیا۔
حضرت خواجہ غلام فریدؒ کا وصال 6 ربیع الثانی 1319ھ ، 24جولائی 1901ء بروز بدھ بوقت مغرب چاچڑاں شریف میں ہوا۔

سرمہ چشم شد بخاری را
خاکپائے غلام خواجہ فریدؒ

(سید عطا اللہ شاہ بخاریؒ)

نواب صاحب کی وفات اور مدفن ؛

Advertisements
julia rana solicitors

فروری 1899ء کو نواب صاحب بہت بیمار پڑ گئے۔ اگرچہ ہرممکن کوشش کی گئی لیکن وہ 14 فروری 1899 کو محض سینتیس سال کی عمر میں اس دنیا سے کوچ کر گئے۔
انہیں چولستان میں قلعہ ڈیراور کے پاس واقع ریاست بہاول پور کے شاہی قبرستان کے ہال میں دفن کیا گیا جہاں ان کے دیگر آباؤ اجداد کی قبریں بھی ہیں۔
ریاست پر بیس سال بلا شرکت غیرے حکمرانی کرنے والے نواب صبح صادق عباسی کا دور اس ریاست کے بہترین ادوار میں شمار ہوتا ہے۔ اِس دور میں ریاست نے نہ صرف ترقی کی بے شمار منازل طے کیں بلکہ حضرت خواجہ غلام فریدؒ کی سرکاری سرپرستی کی بدولت ریاست میں اسلام کی ترویج، علم کے پھیلاؤ، صوفی ازم کے فلسفے کا پرچار اور شاعری جیسی صنف بھی ہر ممکن حد تک پھلی پھولی۔
اللہ پاک کی رحمتیں ہوں خواجہ صاحبؒ اور نواب صاحبؒ پر۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply