یزید پر لعنت کرنا کیسا ہے؟۔۔ڈاکٹر محمد شہباز منج

ہم نے گذشتہ روز پوسٹ کردہ اپنے اشعار کے ایک مصرعے میں ” لعنت ہی صح و شام ہے قسمت یزید کی ” کیا کہہ دیا کہ کئی یزیدی (جی ہاں یہ لقب جن کے لیے ہم استعمال کر رہے ان کے نزدیک گالی نہیں، ان میں کئی لوگ اسے خود پسند کرتے ہیں ، مثلاً اس قبیلے کے ایک فرد  نے انھی اشعار سے متعلق پوسٹ میں مجھ سے گفت گو میں اس پر اتفاق کیا ہے کہ مجھے خود کو یزیدی کہلانے پر کوئی اعتراض نہیں) یوں بھڑکے کہ جیسا میں نے کوئی گستاخی کر دی ہو، حالانکہ یہ حضرات اس مصرعے پر غور فرماتے تو انھیں معلوم ہوتا کہ اس معاملے میں پہلی بات تو یہ ہے کہ میں یزید پر لعنت کر نہیں رہا بلکہ اس پر پڑنے والی لعنت جو شیعہ ہی نہیں سنیوں کی طرف سے، بلکہ سنیوں کے کبار اماموں کی طرف سے بھی مسلسل جاری ہے،اس کو بیان کر رہا ہوں، دوسرے لفظوں میں یہ ایک حقیقتِ واقعہ کا بیان ہے، اور دوسری بات یہ کہ اگر لعنت کبھی کر بھی دی جائے تو یہ کوئی بدعت نہیں، ائمہ سلف میں بڑے بڑے ، علما، محدثین، مفسرین، آئمۂ فقہ نے یزید پر لعنت کا جواز ثابت کرنے کے ساتھ ساتھ خود بھی اس پر لعنت کی ہے۔
ہمارا مشرب اس معاملے میں امام غزالی سے ملتا جلتا ہی ہے کہ یہ ایک بے کار کام ہے۔اس لیے اس پر وقت صرف کرنے کی ضرورت نہیں ، لیکن جب لوگ یزید کی شان میں اس طرح قصیدے پڑھنے لگیں، جیسے آج کل کے یزیدی پڑھ رہے ہیں تو یہ واضح کرنا بھی ضروری ہو جاتا ہے کہ نواسۂ رسول کے قاتل کو یوں بھی معصوم بنا کر نہ پیش کرو کہ پوری امت اور اس کے بڑے بڑے علما بھی کٹہرے میں کھڑے ہو جائیں۔ ستم ظریفی دیکھیے کہ غزالی اور ابن عربی وغیرہ صوفیوں پر دن رات لعن طعن کرنے والے یہ یزیدی یزید پر لعنت کے عدم جواز کے لیے امام غزالی ایسے صوفیوں کو پیش کرتے ہیں؛ ابن عربی کے لیے ان کو ذہبی کام دیتا ہے، اور یزید کے لیے غزالی ۔ کہتے ہیں کہ ذہبی نے کہا کہ ابن عربی کی کتابوں میں کفر نہیں تو کہیں کفر پایا ہی نہیں جاتا، لیکن یہ نہیں بتاتے کہ ذہبی یہ بھی کہتا ہے کہ یزید ناصبی، غلیظ ، شرابی اور منکرات کا مرتکب تھا، جس نے اپنی سلطنت کا آغاز قتلِ حسین سے کیا اور اختتام واقعہ حرہ پر اور جس کی عمر میں اللہ نے برکت نہ دی۔او بھئ! کسی صوفی سے آپ سوال کروگے تو وہی جواب دے گا جو غزالی نے دیا اس لیے کہ یزید بظاہر مسلمان تھا (اگرچہ بہت سے سنی آئمہ اس کا کفر بھی ثابت کرتے ہیں، مثلاً علامہ آلوسی کے مطابق یزید حضورﷺ کی رسالت کی تصدیق کرنے والا نہیں ہو سکتا؛ اس کے ایمان کے امکانات بہت ہی کم ہیں) اور ایک مسلمان کے بارے میں لعن طعن کا کہنا غزالی نے مناسب نہ سمجھا۔ ہم بھی یہی کہیں گے کہ لعن طعن کے ایسے کام سے اچھے اور بہت کام ہیں، لیکن اگر کوئی اس پر لعنت کو گناہ باور کرائے گا تو ہم اس کی  بھرپور مخالفت کریں گے ورنہ اس گناہ کی زد میں امام احمد بن حنبل ، امام ابو حنیفہ ،امام مالک اور امام شافعی ایسے فقہا کے علاوہ عقائد کے معاملے میں اہلِ سنت کا امام سعد الدین تفتازانی بھی آئے گا جس نے نہ صرف یزید پر لعنت کو جائز قرار دیا بلکہ خود اس پر لعنت کرتے ہوئے کہا کہ اس پر اور اس کے اعوان وانصار پر اللہ کی لعنت؛ ابن جوزی بھی آئے گا جس نے یزید پر لعنت کے جواز میں پوری کتاب لکھی؛ امام ابو بکر جصاص بھی آئے گا ، جس نے یزید کو فاسق اور لعنتی لکھا؛قاضی شوکانی بھی آئے گا جس نے کہا کہ یزید نے شریعت مطہرہ کی توہین کی ، اس پر اللہ کی لعنت؛ جلال الدین سیوطی بھی آئے گا جس نے کہا کہ یزید اور ابن زیاد پر اللہ کی لعنت ہو؛ عمرو الجاحظ بھی آئے گا ، جس نے یزید کے کرتوت گنوا کر نہ صرف اس پر لعنت کی بلکہ اس پر لعنت سے روکنے والے کو بھی لعنتی قرار دیا۔ وقس علی ھذا، ائمہ کی ایک لمبی فہرست ہے۔
آخر میں اپنی سوچی سمجھی رائے مکرر عرض کیے دیتا ہوں کہ میرے نزدیک کسی کو لعنت ملامت کرتے رہنا، چاہے وہ یزید ہی کیوں نہ ہو وقت کا کوئی اچھا مصرف نہیں، نہ ہی یہ کوئی فرض واجب ہے کہ ایسا ضرور ہی کیا جائے۔البتہ کربلا یزید کا وہ جرم ہے ، جس نے اس کی قسمت میں لعنت لکھ دی ہے۔ اس لیے مجھے تو یہ لگتا ہے کہ کہیں یہ انھی لوگوں میں نہ آتا ہو، جن پر قرآن میں اللہ ، رسول ، مومنین ، فرشتوں اور عام انسانوں کی لعنت کا ذکر ہے۔ (یہاں یہ بھی واضح کر دوں کہ میں تو اس بات کو بہ طورِ قیاس عرض کر رہا ہوں لیکن امام احمد حنبل جیسے آئمہ نے تو باقاعدہ ایسی آیات کو بطور دلیل پیش کر کےیزید پر لعنت کے موقف کو ثابت کیا ہے) لہذا میرے نزدیک یزید پر لعنت بھی آدمی کا وتیرہ نہیں ہونا چاہیے، لیکن جب کوئی یزید کی عدالت ثابت کرنے پر اتر آئے ، اس کی محبت کے راگ الاپے اور یوں تمام آئمۂ اسلام کے اجماعی نظریے کو ردی کی ٹوکری میں پھینکنا چاہے تو یہ عرض کرنا پڑتا ہے کہ یہ عقیدہ فاسد ہے ، بقول ابن تیمیہ اللہ اور رسول پر ایمان لانے والا کوئی شخص یزید جیسے غیر عادل بادشاہ کے ساتھ نہیں ہوسکتا اور ابن حجر عسقلانی کے مطابق یزید سے محبت کوئی فاسد عقیدے والا شخص ہی رکھ سکتا ہے، کیوں کہ اس میں ایسی صفات پائی جاتی ہیں جو سلب ایمان کو مستلزم ہیں۔

Facebook Comments

ڈاکٹر شہباز منج
استاذ (شعبۂ علومِ اسلامیہ) یونی ورسٹی آف سرگودھا،سرگودھا، پاکستان۔ دل چسپی کے موضوعات: اسلام ، استشراق، ادبیات ، فرقہ ورانہ ہم آہنگی اور اس سے متعلق مسائل،سماجی حرکیات اور ان کا اسلامی تناظر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply