عالمِ بالا سے کتابوں کا تحفہ(2،آخری حصّہ )۔۔فیصل عظیم

ہماری عمروں میں خاصا  فرق تھا مگر کبھی احساس ہی نہیں ہوا۔ وہ نواسوں، پوتوںوالے تھے مگر میں برابر کے دوست کی طرح ان سےلڑبھی لیتاتھا اور ضرورت پڑنے پر ٹوک بھی دیتا تھا۔ جو کہنا ہوتا کہہ  لیتا مگر اس سے ہمارے درمیان کبھی تلخی نہیں ہوئی۔ میں سب کے سامنے انھیں چائے میں چینی ڈالنے سے روکتا یا مرغّن کھانے پہ ٹوکتا تو بھی برا نہیں مانتے۔ چائے کے لیے تین ’’لام‘‘ کے قائل تھے کہ لب ریز ہو، لب دوزہو اور لب سوز ہو۔میرے والد کی طرح اُن کے لیے بھی چائے میں چینی کی کوئی حد نہیں تھی، جتنی ڈالیں اتنی بہتر۔ بھابھی اکثر مجھ سےکہتی تھیں کہ ان کی شوگر بڑھی رہتی ہے، ان کو شہد اور چینی سے روکا کروں۔ سو میں کوشش کرتا رہتا تھا اوروہ بھی میرے اصرارپہ اکثربغیر چینی کی چائے پی لیا کرتے تھے۔

ہم اکثر رات کوان کے بیسمنٹ میں ان کی میوزک ویب سائٹ، فیسبک،یوٹیوب چینل یا  گانوں کی ویڈیو پہ کام کیا کرتے تھے۔ اس دوران قہوے، انگور اور نمکو وغیرہ کے ساتھ دنیا جہاں کی باتیں کرنے کی ہمیں عادت، بلکہ لت ہوگئی تھی۔ ہارمونیم، الیکٹرانک  طبلہ، ساؤنڈ سسٹم اور مکسر ہمیشہ تیار رہتے۔ بعض اوقات کچھ ریکارڈ کرکے میرے حوالے کرتے اور کہتے کہ اب آپ ان آلات سے کھیلیں اور مکسنگ کریں۔ حالانکہ آتا جاتا مجھے بھی کچھ نہیں تھا۔ جب کوئی اچھی دھن ان کے ذہن میں آتی، فوراً ریکارڈ کر لیتے، یوں انھوں نے شاید سیکڑوں دھنیں بنائی ہوں گی، جن میں سے اکثر بہت عرصے التوا میں پڑی رہیں۔ آخری تین چار سال میں وہ اپنی دھُنوں پر زیادہ توجہ سے کام کررہے تھےجس کے لیے انھوں نے پیشہ ورانہ سرگرمیوں کو بھی داؤ پہ لگادیا تھا اور ریکارڈنگ کے لیے باقاعدگی سے انڈیا جانا شروع کیا تھا۔ انھوں نے مجھ سے بھی کچھ دُھنوں پہ گیت لکھوائے تھے، جن پرہم کام کر رہے تھے۔ ایک گیت کو تو انڈیا میں گانے کے  لیے تیار بھی کرلیا تھا،جبکہ واپسی پہ باقی گیتوں پہ کام کرنے کا ارادہ تھا۔ وہ اپنی موسیقی خود ترتیب دیتے، دھن بناتےاوردوسروں سے ہٹ کر کام کرنے کی کوشش کرتے تھے۔موسیقی، غزل اور گیت ان کے عشق تھے۔ یوں تو ایک خانقاہ کے لیےانھوں نے قوّالیاں بھی گائیں مگر ان کا اصل میدان غزل تھا۔

ظہیر بھائی کی کچھ باتیں ایسی بھی تھیں جو کوئی اور بتاتا تو میں نہ مانتا۔ایک دن ہم کافی شاپ سے نکلے تو ایک بوڑھے گورے نے روک کر ان کی آنکھوں کی طرف اشارہ کرکے کہا ’’تمھاری آنکھوں میں مسیحائی ہے (ہیلنگ آئز)‘‘۔ اور یہ پہلی بار نہیں تھا البتّہ اس بار میں گواہ تھا، ورنہ پہلے تو ان کی یہ باتیں مذاق میں اڑا دیا کرتا تھا۔ان کا ایک کینیڈین گورا دوست تھاجس کے ساتھ مل کر وہ ایک ناول لکھ رہے تھے۔اس دوران ان کےدوست کی زندگی میں ناول جیسےواقعات ہونے لگے تو ان لوگوں میں ان بن ہوگئی اور ظہیر بھائی نے ناول روک دیا۔یہ پُراسرار قصّہ پھر کبھی سہی۔پچھلےدنوں میں ان کے پیچھے پڑا تھا کہ ناول مکمل کرکے چھپوائیں، جس سے پہلے وہ بوجوہ احتراز کرتے رہے مگر پھر مان گئے تھے۔ اب ممکن ہوا تو ہم لوگ وہ ادھورا ناول چھپوانے کی کوشش کریں گے، انشا اللہ۔

ایک اور واقعہ جو ان کی شخصیت کا آئینہ دار بھی ہے، وہ یہ کہ ہم دونوں رات گئے ٹم ہورٹنز میں بیٹھے تھے، قریب ہی ایک نوجوان گوری بیٹھی تھی۔ لگتا تھا جیسے نیند سے یا شاید خود سےلڑ رہی ہو۔ الجھی الجھی، روئی ہوئی، کسی تکلیف میں معلوم ہوتی تھی۔ میں نے ظہیر بھائی کی توجہ دلائی تو وہ فوراً اٹھ کر لڑکی کے پاس گئے، حال پوچھا اور براہِ راست پوچھ لیا ’’کچھ کھاؤ گی‘‘۔ اس نے حامی بھری، تو اسے کھانا اور کافی خرید کردی اور واپس آکر ایسے بیٹھ گئے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں اور میں اپنی بےعملی کا نظارہ ہی کرتا رہ گیا۔ اس دن مجھے پتہ چلاکہ سوچنے کے بجائے کیسے بے دھڑک آگے بڑھ کر مدد کی جاتی ہے۔

ظہیر بھائی ایسے عاشقِ رسولؐ تھے کہ حضورؐ کا نام اکثر ان کے وردِ زبان رہتا، اٹھتے بیٹھتےسلام اور درود پڑھتےرہتے۔ حضرت عمرؓ سے انھیں خاص عقیدت تھی اوران سے روحانی قربت اور نسبت کا ذکر کرتے ہوئےبعض حیرت انگیز واقعات بھی بتاتے تھے۔وہ خود ایک صوفی کے بھانجے تھے اوردرویشوں کا بہت ذکر کرتے تھے۔میں نے ایک بار انھیں بتایا کہ ’’آخری دنوں میں ابّو مجھ سے کچھ کہنا چاہ رہے تھے، لگتا تھا وصیت کرنا چاہ رہے ہیں مگر میں نہیں چاہتا تھا کہ انھیں لگے کہ ان کا وقت آگیا ہے، اس لیے انھیں دوسری باتوں میں لگاتا رہا۔ اب ایک خلش ہے کہ کاش کہنے دیتا، جانے کیا بات ان کے دل میں رہ گئی، جی چاہتا ہے ان سے بات ہوجائے‘‘ تو کہنے لگے کہ ’’مجھے  لگتا تھا کچھ ایسا ہوگاکہ آپ کو معلوم ہو جائے گا‘‘۔وہ تو کیا ہوگا،ہم تو ظہیر بھائی سے بات کرنے سے بھی گئے۔

ظہیر بھائی کھانے، پہننے، گھومنے، پھرنے کے ایسے شوقین تھے کہ اگر کچھ کھانے کو جی چاہا تو بس وہی کھانا ہے چاہے ڈاکٹر نے منع ہی کیوں نہ کیا ہو۔ سوچتا ہوں اتنی عمر گزار کر وہ   گئے تو شایدانھوں نے پرہیز نہ کرکے اچھا ہی کیا جو زندگی کا بھرپور لطف اٹھایا۔ میں کبھی کہتا کہ تلی ہوئی چربی والی چیزیں نہ کھائیں، آپ کے لیے ٹھیک نہیں تو ہنس کر کہتے ’’لیکن مزہ بھی تو اسی میں ہے‘‘۔ اگر پھولوں والی قمیض اچھی لگی تو بیگم کچھ بھی کہیں اورجیسی بھی لگے، پہننا وہی ہے۔ ان میں یہ بچّوں والی معصومیت ان کے خلوص کا آئینہ تھی۔ ان کے ایک ناکام عشق کا قصّہ بھی بڑا دلچسپ تھا مگر بغیر اجازت نہیں لکھوں گا۔

قصّہ مختصر، وہ کووڈ کی وجہ سےانڈیا میں پھنسےہوئے تھے اور کینیڈاواپسی کی کوشش کررہے تھے،پروازیں منسوخ ہوگئی تھیں۔بمشکل ایک فلائٹ ملی جو بہت مہنگی تھی مگر غنیمت تھی۔ کئی جگہ رکتے رکاتےٹورانٹو پہنچنا تھا۔ فلائٹ سے ایک دن پہلے دوسا کھانے کو جی چاہا تو نکل پڑے۔واپسی پر کسی سے ملتے ہوئے آرہے تھے کہ تیز بارش شروع ہوگئی اور وہ بھیگ گئے جس سے نزلہ اور بخار ہوگیا۔ فلائٹ کے لیے شرط تھی کہ مسافر کو بخار نہ ہو، سو فلائٹ بھی چھوٹ گئی۔ انھوں نے بتایا کہ ڈاکٹر کہہ ر ہا ہے یہ کووڈ نہیں،بس بارش میں بھیگنے کا اثر ہے۔اس پہ میں نے انھیں چھیڑا کہ وہاں کوئی بڑا سا پنجرہ ہے۔ کہنے لگے ’’ہاں، یہاں ہے نا گھر میں‘‘ تو میں نے کہا ’’ظہیر بھائی اگلی فلائٹ بک کرائیں تو اس کے اندر بیٹھ کر باہر تالا ڈلوا لیجیے گاتاکہ آپ فلائٹ سے ایک دن پہلے دوسےکے لیے نہ نکل سکیں‘‘ اس پر ان کی کمزور ہنسی سے اندازہ ہوا کہ طبیعت زیادہ خراب ہے۔انھیں شاید کچھ دن پہلے ہی یہ مرض لگ چکا تھا۔ وہاں لوگ ان سے کہتے تھے ’’یہاں خطرہ کم ہے، خبروں میں بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا ہے، قریبی لوگوں سے ملنے سےکچھ نہیں ہوتا، ہم محفوظ ہیں، وغیرہ وغیرہ‘‘مگر وبا کہاں سنتی ہے۔ ان کی طرح خاندان کے اور لوگ بھی اس کا شکار ہوگئے۔ جب ان کی طبیعت زیادہ بگڑی تو ٹیسٹ کرانے پہ نمونیا اور کووڈ کا پتہ چلا مگر تب تک علامات شدید ہوچکی تھیں توہسپتال انھیں لینے سے انکار کرنے لگے۔ آخرخاندان کے ڈاکٹر کی سفارش اور لاکھوں روپے پیشگی جمع کرانے پر ایک ہسپتال میں بمشکل داخلہ ملا۔ ہسپتال جانے سے پہلے ان سے مختصر سی آخری بات بمشکل ہوئی تھی، پھر ان سے میرا رابطہ نہ ہو سکا بلکہ پھرتو ان سے گھر والوں کی بات بھی بڑی مشکل سے ہوپاتی تھی۔

Advertisements
julia rana solicitors

اب کہ انھیں بچھڑے ایک سال ہونے کو آیا ہے مگر لگتا ہے جیسے زمانہ بیت گیا ہو۔ بڑا جی چاہتا ہے کہ پھر سے فون آئے اور ظہیر بھائی اپنی میٹھی آواز میں کہیں ’’کہاں ہیں فیصل بھائی، چائے نہیں پی بہت دن سے‘‘۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply