انکل سام،چاچا ژی ،لالہ مُودی اور ہم۔۔محمد خان چوہدری

یہ ہمارے منہ بولے رشتہ دار ہیں، امریکہ انکل سام کی جگہ ٹرمپ جی براجمان ہیں، چین میں چچا ژی چن پنگ موجود اور ہمارے ازلی و ابدی دشمن لالہ نریندر مودی بھارت کے وزیراعظم ہیں، ہم ان تینوں کے لئے انکی ناک کے بال ہیں۔

امریکہ میں صدارتی انتخاب کا ہنگام شروع ہے، اس الیکشن والے سال کی آخری سہ ماہی ہمیشہ دنیا بھر کے لئے اہم ہوتی ہے، امریکہ بہادر گزشتہ دس پندرہ الیکشن میں کہیں نہ کہیں جنگ میں مصروف ہوتا تھا ، ہٹلر سے لے کر صدام، قذافی، اسامہ بن لادن جیسے بنے بنائے ولن موجود ہوتے ہیں  ، جن سے ڈرا کے امریکی عوام کو ڈسپلن میں پابند رکھا جاتا ہے۔

اس بار سب کچھ بدل گیا ہے، ایک تو ٹرمپ غیر روایتی صدر ہے، کرونا نے ملک کو اتھل پتھل  کے رکھ دیا ہے، گورے اور کالے امریکن کی تفریق پھر سے ابھر آئی  ہے، معیشت غیریقینی کا  شکار ہے۔ سب سے بڑھ کر امریکی ہیلتھ سروس اور دیگر سہولیات، سوشل سکیورٹی ، انشورنس اور بنیادی انسانی حقوق کی پاسبانی کا بھانڈا پھوٹ گیا ہے۔

خارجہ تعلقات میں اسرائیل کارڈ بھی نہیں  چل پایا، لے دے کے بس چین سے محاذ آرائی  کو ایشو بنانے کی کاوش ہے۔بھارت کو چین کے مقابل لانے کی سعی بھی ، سوائے لداخ میں بکھیڑے کے مؤثر نہیں  ہو پائی۔

تیل کی تجارت سَرنِگوں ہے، روس والے بھی سکون سے تماشا دیکھ رہے ہیں، شرق اوسط میں کوئی  ایسی مہم جوئی  نظر نہیں  آتی جو امریکہ میں الیکشن ایشو بن پائے۔

چین پر کرونا کے پھیلنے کا دباؤ بھی کم ہو گیا  ہے اور چین نے جارحانہ سفارت کاری اپنا لی ہے، وہ بھارت کو بیک فُٹ پہ  لے گئے ہیں اور خطے میں ون بیلٹ ون روڈ نظریہ چاروں طرف مقبول بنانے میں سرتوڑ کوشش  جاری ہے۔

ہم اس ساری صورتحال میں مکمل کنفیوزڈ ہیں، ملیشیا کو شرمندہ کیا، سعودیہ سے پھڈا کیا، امارات سے بھی ہم ناراض ہونے کی کوشش میں ہیں، ایران کے اپنے مسائل ہیں، ترکی پر سمندری سرحد اور گردو پیش کی ریاستوں کا پریشر ہے۔

امریکی الیکشن سے ہر ملک میں اندیشے پیدا ہوتے ہیں ، لیکن عمومی طور پہ  ہر ریاست اپنے قومی مفاد کے مطابق پیش بندی کر لیتی ہے۔ ایران نے بھارت سے معاملات حد کے اندر سنبھال لئے ہیں،ہم خود کو واحد مسلمان ایٹمی طاقت ہونے اور جغرافیائی محل وقوع کی اہمیت کو ہر وقت کیش کرنا اپنا حق مانتے ،اور جتلاتے ہیں، خارجہ امور میں یہ مسئلہ بچگانہ طور پر  پیش کیا جاتا ہے،

سب سے بڑی ٹریجڈی اس وقت یہ ہے کہ ہم کسی نظام حکومت پر نہیں  چل رہے۔
پارلیمان کب سے عضو معطل ہے تو پارلیمانی نظم مفقود ہے، نہ مارشل لا ء ہے نہ صدارتی نظام ،لیکن حکومت لگتا ہے فرد واحد چلا رہا  ہے ، وزیراعظم مرکز ،پنجاب اور کے پی کی حکومت تو چلا رہے ہیں سندھ میں بھی حکومت مفلوج ہے۔بلوچستان ویسے ہی قبائلی طرز پر ہے، شدید اندیشہ ہے کہ خدا نہ کرے کوئی  حادثہ ہو لیکن متذکرہ حالات میں یہ بعید نہیں ۔

اکیلے وزیراعظم ملک کے تمام ریاستی امور کیسے سرانجام دے سکتے ہیں جب کہ کوئی  کام ان کے نوٹس لینے بغیر نہیں  ہوتا۔وہ خود ہر مسئلے کو حل کرنے کا دعوی کرتے ہیں ذمہ لیتے ہیں، انتظامی مشینری تو ایسے مفلوج ہوتی ہے۔

فوج اور عدلیہ اپنے اپنے آئینی فرائض کے ذمہ دار ہیں حکومت سے تعاون کرتے ہیں لیکن انتظامیہ تو بذریعہ پارلیمان عوام کو جوابدہ ہے۔ ملک میں یکجہتی ہونی چاہیے، یہ نفرت، حقارت اور زعم ذات سے جان چھڑائیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اپنے ادارے پارلیمان کی عزت بحال کریں، ہر ممبر اسمبلی کا برابر استحقاق ہے، گھوڑا اپنے تھان پر سجتا ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply