متوازی کائناتوں کا نظریہ اور موت۔۔ادریس آزاد

ہیوایورٹ کی تشریح کو جس قدر شہرت ملی کسی اور کو نہ ملی۔ شہرت میں دوسرے نمبر پر کوپن ہیگن تشریح ہے۔ ہیوایورٹ نے فقط ایک سوال سے ہی سارا کچھ بدل کر رکھ دیا تھا۔ اس نے پوچھا تھا،

’’وٹ اِف ویو فنکشن نیور کولیپسز؟‘‘

ہیوایورٹ کی تھیوری پر ان گنت فلمیں بن چکی ہیں۔ ہزاروں کہانیاں لکھی جاچکی ہیں اور مزید کئی فلسفی اور ماہرینِ طبیعات ایسے پیدا ہوچکے ہیں جو اِس تشریح میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مزید سے مزید رنگ بھرتے چلے جارہے ہیں۔ اگرچہ سٹرنگ تھیوری میں بھی متوازی کائناتوں کو کافی وسیع جگہ دی گئی ہے لیکن وہ بھی فی الاصل ہیوایورٹ کی ہی میتھ ہے۔

اس تشریح پر بننے والی فلموں نے جہاں انسانی تجسس کی حس سے فائدہ اُٹھا کر اِس بزنس میں موجود لوگوں کو بے پناہ منافع بہم پہنچایا وہاں عام آدمی کے لیے فزکس کے ایک بہت بڑے حصہ کو نہایت دلچسپ بنادیا۔ یہ ایک ایسی تشریح ہے کہ آپ جس طرف سے آئیں، آپ کے لیے آسانی ہے۔ جو کوئی بھی اس تھیوری کا مطالعہ کرتاہے اس کی متخیلہ عجیب و غریب امکانات تصور میں لانا شروع کردیتی ہے۔ اب تک کتنے ہی چونکا دینے والے اور دلچسپ امکانات فقط اس تھیوری کے بطن سے برآمد ہوئے ہیں۔ مذہبی لوگوں نے اِسے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا جن میں سب سے زیادہ فائدہ ہندومت کے آواگون کو ہوا۔ لیکن اگر ہیوایورٹ کی انٹرپریٹیشن کو مذہب کی بجائے فقط ایک سائنسی تھیوری کے طورپر بھی لیا جائے تب بھی اس میں سے حیات بعدالموت کا ایک عجیب و غریب اور سائنسی قسم کا تصور برآمد ہونے لگتا ہے۔ یہ تصور کسی مذہب کے تصور سے نہیں ملتا اور ہے بھی نہایت دلچسپ۔اِسے حیات بعدالموت کے تصور سے زیادہ لافانیت کا تصور کہنا چاہیے۔ کیونکہ اس میں کوئی سرے سے کبھی مرتا ہی نہیں۔

اگر میں ابھی مرجاؤں۔ فرض کریں۔ میں آپ کے سامنے ایک کرسی پر بیٹھا بیٹھا مرگیاہوں تو مجھے پتہ نہیں چلے گا کہ میں مر گیا ہوں۔ فرض کریں مجھے ہارٹ اٹیک ہوا اور چند منٹ میں ہی میری جان چلی گئی تو یہ آپ کے لیے ہوگا۔ آپ جس کائنات کا حصہ ہیں اور جس کائنات کا مشاہدہ کررہے ہیں، اس میں آپ کے سامنے میں نے اچانک سینے پر ہاتھ رکھا۔ اُوئی، آہ کی آوازنکالی اور فوت ہوگیا جبکہ مجھے خود معلوم نہیں کہ میں فوت ہوگیا کیونکہ میری جو طبیعت خراب ہورہی تھی، اور جس کی وجہ سے میں اُوئی آہ کررہاتھا وہ تھوڑی دیر میں ٹھیک ہوگئی۔ ایک ڈکار آئی اور میں پھر سے کام میں مصروف ہوگیا۔ آپ میرے سامنے بیٹھے تھے۔ آپ نے بھی کچھ خاص نوٹس نہ لیا کیونکہ میں نے ساتھ ہی کہہ دیا، گیسٹرک پرابلم بڑھتی جارہی ہے یار! آپ ہنس دیے۔ لیکن یہ نئی کائنات ہے جس میں میں آپ سے یہ بات کررہاہوں کہ گیسٹرک پرابلم بڑھ گئی ہے۔ یہ متوازی کائنات ہے۔ اس کائنات کے متوازی جس میں میں مرگیا ہوں۔ متوازی یا پیرالل یونیورس کا لفظ اس لیے استعمال کیا جاتاہے کہ جس میتھمیٹکل نمائندگی کی طرف اشارہ ہے وہ متوازی رکھی ہوئی چیزوں جیسی تصور میں لائی جاسکتی ہے۔ ایک بند کتاب کے تمام اوراق ایک دوسرے کے متوازی ہوتے ہیں۔ یاد رہے، بند کتاب کے، کھلی کے نہیں۔ بند کتاب کا ورق نمبر انیس اور ورق نمبر بیس بہت زیادہ نزدیک ہیں جبکہ کتاب کا وررق نمبر نو اور ایک سو پچاس بہت زیادہ دُور واقع ہیں لیکن جس پوزیشن میں ایک بند کتاب کے اندر دونوں موجود ہیں وہ متوازی ہے۔ جیسے ورق نمبر انیس بیس نزدیک ترین ہیں اور ہم جیسے محاورۃً کہتے ہیں، ’’انیس بیس کا فرق ہے‘‘ ویسے ہی متوازی کائناتوں میں نزدیک ترین کائناتوں کا فرق پہچاننا ناممکن حدتک مشکل یعنی انیس بیس کا فرق ہے۔ میں جس کائنات میں مرگیا اور دوبارہ جس میں خود کو پایا ان دونوں کےپیرالل ہونے میں انیس بیس کا ہی فرق ہے۔

اچھا اب پھر فرض کریں کہ آپ اور میں ساتھ ساتھ ایک ہی معاشرے میں زندگی گزارتے ہوئے دس سال مزید کاٹ دیتے ہیں۔ دس سال بعد ایک دن ہم دونوں کہیں جارہے ہیں کہ ہمارا ایکسیڈنٹ ہوجاتاہے۔ آپ بچ جاتے ہیں جبکہ میں مرجاتاہوں۔ اب بھی میں فقط آپ کے لیے مرا ہوں۔ کیونکہ ایک نئی کائنات میں مجھے ریسکیووالے اُٹھا کر لے گئے ہیں اور میں ٹھیک ہوکر آپ کےساتھ ویسے ہی معاشرتی زندگی گزارنے لگا ہوں۔ اب پھر نئی کائنات میں ہم روز ملتے ہیں۔ شطرنج کھیلتے، باتیں کرتے، اِنٹیلکچول گفتگو کے ذریعے خوب ذہنی عیاشی کرتے ہوئے مزے سے جی رہے ہیں۔ چھ مہینے بعد مجھے کوئی ایسی موذی بیماری لاحق ہوجاتی ہے کہ آپریشن کروانا پڑتاہے۔ آپریشن کامیاب نہیں ہوتا اور میں پھر مر جاتاہوں۔ لیکن یاد رہے کہ فقط آپ کے سامنے۔ کیونکہ ایک نئی کائنات میں میرا آپریشن کامیاب ہوجاتاہے اور آنکھ کھلتی ہے تو سب مجھے مبارکباد دے رہے ہوتے ہیں۔ علیٰ ھذالقیاس

ہیو ایورٹ کی تشریح ہو یا سٹرنگ تھیوری کی ریاضیاتی تشکیل ہردونوں میں پیرالل رئیلٹی اتنی پیرالل ہے کہ فرق کرنا فی الحال ناممکن ہے۔ ہاں اگر کسی وجہ سے کوئی شخص دُور کی کائنات میں جاگرے۔ وہ متوازی تو ہوگی لیکن فرق اتنا زیادہ ہوگا کہ شاید اسے شدید حیرت ہو۔ شاید اس کا کوئی دوست جو بس کنڈیکٹر تھا، وہاں ایم بی بی ایس ڈاکٹر ہو۔ یہ گویا صفحہ نمبر نو سے صفحہ پچاس کا متوازی ہوناہے۔

اچھا پھر فرض کرتے ہیں۔ فرض کریں ہم دونوں دوست بوڑھے ہوجاتے ہیں اور پھر ایک دن میں فوت ہوجاتاہوں تو وہ آپ کے لیے ہے۔ میں ابھی بھی زندہ ہوں۔ میں مسلسل بوڑھاہوتا جاؤنگا تو گویا مجھے آہستہ آہستہ اٹلی والا ماحول محسوس ہونے لگے گا۔ جہاں مجھے اپنے جیسے لوگ زیادہ دکھائی دیتے ہیں۔ جہاں میرے آس پاس میرے جیسے بوڑھے لوگ کم نہیں۔ اس لیے مجھے عجیب محسوس نہیں ہوگا۔ کیونکہ میری رئیلٹی میں ضروری تو نہیں کہ میرےآس پاس کے سارے ہی ضرور میرے سامنے مرکر دکھائیں۔ ہوسکتاہے، آپ بھی میرے ساتھ ہی بوڑھے ہوتے چلے جائیں۔ آپ کی طرح اور بھی بے شمار بوڑھے ہوتے جائیں گے۔ سو کسی کو عجیب محسوس ہی نہیں ہوگا۔غرض دنیا ہمیشہ نارمل ہی لگتی رہے گی۔ اگر میں دوسوسال کا ہوگیاہوں تو تب تک اتنا کچھ مجھ پر کھُل چکاہوگا کہ گویا میں اس وقت اپنی پچھلی زندگی کی کائناتی حقیقت سے ویسے بھی واقف ہوچکاہونگا، کہ پیچھے کیا ہوتا آیا ہے۔ بالکل ویسے جیسے بدھ مت کے اَسوراؤں اور دیوتاؤں کے بارے میں کہاجاتاہے کہ وہ سینکڑوں سال کی زندگیاں جینے والے ارتقأ یافتہ انسان ہی ہوتے ہیں۔ اتنی لمبی زندگی اور پھر بغیر خوف کے، تو ان میں سے اکثر عیاشی میں وقت گزارنے لگتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ان کی اچھائیاں کم ہونے لگتی ہیں اور طبیعت میں خامیاں بڑھتی جاتی ہیں۔ یہاں تک کہ انہی بڑھتی ہوئی خرابیوں کے ساتھ ہزاروں بلکہ لاکھوں سال کی لمبی زندگی گزارنے کے بعد وہ خودبخود تباہ ہوکر گویا جہنم میں جاگرتےہیں جہاں معدنیات کی شکل اختیار کرلیتے ہیں اورپھر نئے سرے سے ان کا ارتقا شروع ہوجاتاہے۔

چونکہ ہر امکان حقیقی ہے اس لیے ایسے امکانات جو بالکل ہی بیوقوفانہ ہیں وہ بھی حقیقی ہیں کیونکہ بند کتاب کے اوراق میں بہت دُور کا فرق بھی ہوسکتاہے۔ جیسا کہ ورق نمبر نو اور ورق نمبر پندرہ سو(1500) کا فرق۔ اتنا زیادہ فرق صرف بیوقوفانہ امکانات سوچنے سے ممکن ہے۔ مثلاً ایسا سوچنا کہ ایک کائنات تو ایسی بھی ہوگی جس میں شیخ رشید امریکہ کا صدر ہونگا۔ ہیوایورٹ کی تشریح کے مطابق ایسی کائنات کا حقیقی وجود اب بھی ہے۔ آپ کے پاس اگر گریوٹی بس ہو تو آپ ایسی کائنات تک سفر کرسکتے ہیں۔

متوازی کائناتوں کی تھیوری میں کوئی مرتا ہی نہیں ہے۔ کوئی انسان، کوئی جانور، کوئی چرند پرند۔ کیونکہ اپنے آپ کے لیے تو وہ اسی ویوفنکشن کا ہی حصہ رہتے ہیں جس کے ساتھ شروڈنگر کی ٹائم ڈپنڈنٹ اِکویشن کے مدد سے وہ خود چلا آتاہے۔ یعنی اگر کوپن ہیگن کی انٹرپریٹیشن درست نہ ہو اور فقط ہیوایورٹ کی ہی درست ہو تو بات کچھ یوں ہوگی کہ کسی بھی ویو کا ویو فنکشن کولیپس ہی نہیں ہوتا۔ کوپن ہیگن انٹرپریٹیشن کا کہناہے کہ جب کوئی آبزرور کسی رئیلٹی کو دیکھتاہے تو اس کا ویو فنکشن کولیپس ہو جاتاہے اور وہ شئے پارٹیکل کی شکل میں دکھائی دینے لگی ہے۔ لیکن اگر ہیوایورٹ کی تشریح کو دیکھیں تو وہ کہتی ہے آبزور کون ہے؟ آبزرور تو خود بھی ویو فنکشن کا حصہ ہے۔ وہ ٹائم کے اس لمحے میں اس رئیلٹی کے ساتھ ہی سلِپ ہوجاتاہے جس رئیلٹی میں اس کا شعور (کانشس پوائنٹ مومنٹ اِن سپیس ٹائم) آگے کو سلِپ ہوگیا۔ ویو ، ویو ہی رہی لیکن جبکہ آبزور خود بھی اس کا حصہ بن کر اس میں بہتا ہوا آگے نکلتا چلاگیا۔ چونکہ اس کا شعور ایک ہی رئیلٹی میں وجود رکھ سکتاہے، اوراس کی عقل ویو فنکشن کو محسوس نہیں کرسکتی اس لیے وہ اپنے آپ کو ایک ہی رئیلٹی میں دیکھ پاتاہے۔ بالکل ویسے جیسے کمپیوٹر کی کسی فائل کو ایک ہی فولڈر کے اندر ایک جیسے ناموں کےساتھ سیو نہیں کیا جاسکتا۔

چنانچہ اس تھیوری کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ہم سب زندہ رہتے ہیں۔ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے۔ کوانٹم پرابیبلٹی کی تھیوریز میں ہرایک تھیوری منفر د ہے لیکن متوازی کائناتوں کی تھیوری منفرد ترین ہے۔ ایک پارٹیکل کا ویوفنکشن کولیپس ہوتا ہی نہیں ہے۔ چاہے اسے کوئی شاہد دیکھے یا نہ دیکھے۔ کوپن ہیگن نظریہ ، متوازی کائناتوں کے نظریہ سے زیادہ مذہب کے لوگوں کو پسند ہے۔ کیونکہ اس میں اصل اہمیت مشاہدہ کرنے والے کی ہے نہ کہ رئیلٹی کی۔ اگر کوئی ناظر نہیں ہوگا تو گویا شئے ہی نہیں ہوگی۔ نیلز بوھر تو یہاں تک کہا کرتاتھا کہ ہم جب آنکھیں بند کرتے ہیں تو کائنات غائب ہوجاتی ہے۔ کوپن ہیگن تشریح میں ناظر یا شاہد کی اتنی اہمیت ہے کہ باقاعدہ کہا جاتاہے، ’’آبزروراَفیکٹس دہ رئیلٹی‘‘۔ لیکن ہیوایورٹ کے مطابق ویو فنکشن کبھی کولیپس ہوتا ہی نہیں ہے۔ ہمیں جب وہ کولیپس ہوتا ہوا محسوس ہوتاہے تو بطور ناظر ہماری کمزوری ہے یعنی ہماری حد مقرر ہے کہ ہم حقیقت کی تمام تہیں ایک ساتھ نہیں دیکھ سکتے ورنہ فی الاصل پارٹیکل کا ویوفنکشن موجود رہا اور جس قدر بھی امکانات تصور میں لائے جاسکتے ہیں وہ سب کے سب اپنا حقیقی وجود رکھتے ہیں کیونکہ پارٹیکل کی ویو اپنا فنکشن برقرار رکھے ہوئے ہے تو پارٹیکل کا وجود ہرجگہ مستقل ہے۔ مثلاً کوانٹم ٹنلنگ میں کہاجاتا ہے کہ کسی نیوکلیس میں موجود پارٹیکل کا ویو فنکشن زمین سے چاند تک پھیلا ہوا بھی ہوسکتاہے جو کہ بہت ہی بیوقوفانہ سی بات ہے لیکن کوانٹم کے لیے یہ ناممکن نہیں ہے بلکہ عین ممکن ہے۔ متوازی کائناتوں کے نظریہ میں بار بار سمجھایا جاتاہے کہ ایک تو وہ متوازی کائناتیں جو ہماری کائنات کے جیسی ہیں لیکن وہ بھی اوراق ہیں جو بہت دور بہت دور کے اوراق ہیں، کسی بند کتاب کے۔ جیسا کہ کسی کتاب کا ورق نمبر پانچ بمقابلہ ورق نمبر پچاسی کھرب۔ اتنے فرق کے ساتھ متوازی کائناتیں ہماری کائنات سے ملتی جلتی نہیں ہوسکتیں۔ وہاں سیّاروں اور ستاروں کی بجائے کچھ اور ہوسکتاہے یا کچھ بھی نہیں ہوسکتا۔ ایک بالکل تاریک خالی کائنات جس میں کچھ بھی نہیں، وہ بھی ممکن ہے۔

پیچھے میں نے جو اپنے مرنے کی مثال دی۔ یہ ہیوایورٹ کے نظریہ سے فِکشن (افسانوی تخیل) برآمد کرنے والوں کا بیان کیا گیا فقط ایک لاجیکل امکان ہے۔ اچھا سوسال کی عمر میں بھی تم نہیں مروگے، جیسے سوال کا جواب کہ چونکہ ویوفنکشن میں پارٹیکل ہرجگہ مستقل موجود ہے سو ہروہ امکان جو سوچ میں آسکتاہے حقیقی وجود رکھتاہے۔ایک شخص جو سوسال کی عمر میں مرا اور اُسے پتہ ہی نہ چلا کہ وہ فوت ہوا ہے یا نہیں وہ ضرور اپنے زندہ ہونے کی لاجک جانتاہوگا۔ فرض کریں جسمانی اعضأ عام بدلے جانے لگے ہیں سو اس لیے وہ زندہ ہے۔ ایک شخص جو پانچ سوسال کی عمر میں بھی نہیں مرا اُس کے پاس اپنے عہد کی منطق ہوگی۔ غرض ہرفوت ہونےوالا دراصل جانتاہی نہیں ہے کہ وہ فوت ہوگیا۔ وہ ہمیشہ دوسروں کے سامنے فوت ہوجاتاہے لیکن خود عین اُسی لمحے میں ایک اور متوازی کائنات کے اند زندہ موجود ہوتاہے۔ کینسر کا مریض نئی کائنات میں بھی بستر پر پڑا ہے اور کینسر کا علاج دریافت ہونے کا انتظار کررہاہے۔ یہاں تک کہ ایک کائنات میں علاج دریافت ہوجاتاہے۔ حالانکہ وہ بار بار فوت ہوگیا، مختلف کائناتوں میں اپنے دوستوں کےسامنے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

آج چونکہ متوازی کائناتوں پر نہیں بلکہ زندگی اور موت پر بات ہورہی ہے اس لیے میں نے سائنس اتنی زیادہ نہیں لکھی جتنا فکشن لکھ دیاہے ۔اس بات کے لیے معذرت۔ لیکن یہ بات بھی سچ ہے کہ ہیوایورٹ کی تشریح کے مطابق یہ فِکشن عین سائنسی اور لاجیکل ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply