ملّائیت کے 73 سال۔۔محمد فاتح ملک

پاکستان کو بنے 73 سال بیت گئے ہیں۔ ان 73 سالوں میں بحث ہمیشہ یہی رہی کہ پاکستان میں کونسا نظام ہونا چاہیے۔ پارلیمانی یا صدارتی؟۔ جوں جوں پاکستان کی عمر بڑھتی گئی یہ بحث بھی بڑھتی گئی۔ پچھلی دو دہائیوں سے بحث کا زور اس بات پر رہا کہ پاکستان کو تباہ کس نے کیا۔ جمہوریت نے یا آمریت نے۔ سیاسی جماعتیں آمریت کو جی بھر کر گالیاں دیتی ہیں لیکن اقتدار کی خواہش ان سب سیاسی جماعتوں کو ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کے دروازے پر ہی لے جاتی ہے۔ دوسری طرف آمریت کے حامی، سیاسی جماعتوں کی ناکامیوں کے ساتھ ساتھ ان میں حکومت کرنے کی صلاحیت کے فقدان کے بھی طعنے دیتے  ہیں۔

جب ہم پاکستان کی 73 سالہ تاریخ کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ پاکستان میں نہ تو جمہوریت رہی نہ ہی آمریت۔ آپ لوگ سوچیں گے کہ یہ کیسے ممکن ہے؟ لیکن حقیقت یہی ہے۔ 73 سال میں پاکستان پر حکومت صرف ’’ملائیت‘‘ نے کی ہے۔ یہ ’’مُلا گردی‘‘ ہے جس نے اس ملک کو یہاں پہنچا دیا ہے۔ آئیے آپ کو اس 73 سالہ مُلائی دور کی سیر کرواؤں۔

قائد اعظم کی قیادت میں جب پاکستان کے حصول کی جدو جہد کا آغاز ہوا تو اس وقت مسلم لیگ کے ساتھ کتنی دینی جماعتیں تھیں؟ کیا جماعت اسلامی نے قائد اعظم کا ساتھ دیا؟ کیا جمیعت علماء ہند نے ساتھ دیا؟ کیا احرار نے ساتھ دیا؟ جی نہیں ہندوستان کی زیادہ تر دینی جماعتیں مسلم لیگ اور قائد اعظم کے مخالف رہیں۔ 1947 میں پاکستان بن گیا۔ قائد اعظم کی 11 اگست کی تقریر بالکل واضح تھی۔ قائد اعظم نے اپنی کابینہ میں بھی جن لوگوں کو شامل کیا وہ کوئی ’’مولوی‘‘ نہیں تھے۔ بلکہ پہلے وزیر خارجہ کے انتخاب پر بھی ان دینی جماعتوں نے بہت واویلا کیا ۔ پہلے وزیر قانون کو تو کسی طور ہضم کر ہی لیا گیا۔

قائد اعظم کی وفات کے بعد 1949 میں قرارداد مقاصد پیش ہوئی تو اس وقت اس ملائیت نے اپنی راہ ہموار کرنا شروع کی۔ اور یوں قائد اعظم کی محنت پر پانی ڈالنے کا آغاز ہوا۔
1953 میں پاکستان کے پہلے وزیر خارجہ کو ، جس کو قائد اعظم نے خود پاکستان کا وزیر خارجہ بنایا، جس کو قائد اعظم نے مسلم لیگ کی طرف سے پاکستان کا کیس لڑنے کے لئے خود منتخب کیا، جس کو قائد اعظم نے کشمیر کا کیس لڑنے کے لئے مقرر کیا اور جس کو قائد اعظم اپنا سیاسی بیٹا کہا کرتے تھے، اس کے خلاف اسی ملائیت نے ملک گیر تحریک شروع کی۔ یہ ملک گیر تحریک بالآخر پنجاب میں پہلا مارشل لاء لگنے پر ختم ہوئی۔ اب بتائیں کون فوج کو سیاست میں لایا؟ ظاہر ہے ملائیت ہی اس کارخیر میں بنیاد تھی۔

اس کے بعد کے سالوں میں یہی دینی جماعتیں تھیں جنہوں نے آہستہ آہستہ اقتدار میں موجود لوگوں سے تعلقات استوار کیے ۔ 1960 کی دہائی میں وہی مذہبی جماعتیں جو پاکستان کے مخالف تھیں وہ اقتدار کی راہداریوں میں چکر لگانا شروع ہوئیں۔ پھر سیاسی جمہوری لوگ ہوں یا آمر، یہ طبقہ اپنی جڑیں مضبوط سے مضبوط تر ہی کرتا گیا۔

ذو الفقار علی بھٹو نے ملک کو متفقہ آئین دیا اور ایک مضبوط حکمران کے طور پر اُبھرے ۔ لیکن ملائیت نے پھر دوسری ترمیم کے لئے انہیں مجبور کیا۔ 1974 میں ہونے والی دوسری ترمیم خود کو زیادہ مسلمان ثابت کرنے اور اپنے اقتدار کو مولویوں کی شورش سے دور کرنے کے لئے ہی تھی۔ کون نہیں جانتا کہ اس ایک طبقہ کو خوش کرنے اور اقتدار پر قدم مزید جمانے کے لئے یہ ترمیم آئین کا حصہ بنائی گئی۔ ورنہ دنیا کی کونسی پارلیمنٹ یا حکومت ہے جس کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ کسی کے کفر و اسلام کا فیصلہ کرے۔ یہ دراصل ملائیت ہی تھی۔

پھر ضیاء ا لحق کا وہ شاندار دور آیا جو آمریت سے زیادہ ملائیت کا دور کہلانے کے لائق ہے۔ کون ہے جو واقف نہیں کہ اس دور میں کیا ہوا۔ شریعت بل، شرعی عدالتیں، اسلامی دفعات، جہاد ، توہین رسالت دفعات، آرڈیننس وغیرہ کیا کچھ تھا جو اس ملائی دور میں نہ ہوا۔ اسلام کے نام پر جو کچھ اس دور میں ہوا اس کا خمیازہ آج تک پاکستان بھگت رہا ہے۔
1990 کی دہائی بظاہر جمہوری تھا لیکن اس دور میں بھی ملائیت ہی دراصل اقتدار میں رہی۔ ایک عورت کے حکمران ہونے سے بحث شروع ہوئی اور امیر المومنین بننے کے بل پر اس کی انتہا ہوئی۔ اسلام کو اس دور میں کبھی عورت سے خطرہ رہا تو کبھی ڈاکٹر عبد السلام کے جنازے سے۔ کیا تھا جو اس دہائی میں اسلام کا نام لے کر نہ کیا گیا ہو؟

اس کے بعد پرویز مشرف کا دور تھا ۔ کہنے کو تو لبرل دور تھا لیکن کیا اس دور میں بھی اسلام کے نام پر دہشت گردی غالب نہ رہی؟ اسلام آباد کے دل میں جو کچھ اسلام کے نام پر ہوتا رہا اس سے ساری دنیا واقف ہے۔ بلکہ آج بھی لال مسجد سے دھمکیوں واالی آوازیں اٹھتی رہتی ہیں اور تا حال اسلام آباد انتظامیہ ان کے سامنے بے بس ہے۔ کس طرح پورا پاکستان روز دھماکوں سے گونجتا رہا اور کسی مذہبی جماعت کو یہ توفیق نہ ہوئی کہ وہ ان خود کش دھماکوں کو حرام کہہ سکیں۔ بلکہ مذہبی جماعتیں خودکش دھماکوں کی مذمت کرنے کی بجائے اس کو حکمرانوں کی پالیسیوں کا رد عمل ٹھہراتی رہیں اور عام شہری روزانہ کی بنیاد پر مرتے رہے۔

اب حالیہ دور میں دیکھ لیں۔ کیا ملائیت غالب نہیں؟ کیا سلمان تاثیر کا قتل اور ممتاز قادری کا غازی بن جانا اسی ملائیت کی حکمرانی کی دلیل نہیں؟ نواز شریف کے خلاف ہونے والا فیض آباد دھرنا کیا اسلام کی آڑ میں مُلا گردی نہ تھی؟ کیا ہم ہر مہینے ہم توہین مذہب اور توہین رسالت کی آواز نہیں سنتے؟ کیا روئیت ہلال کمیٹی کا قضیہ ملائیت کا آئینہ نہیں دکھاتا؟ کیا تحفظ بنیاد اسلام بل اس کی عکاس نہیں؟ اگر صاحب اقتدار اور طاقتور طبقہ بھی اس ملائیت کے آگے سر تسلم خم کر دیتا ہے تو پھر آسیہ بی بی ، مشعال خان اور جنید جیسے لوگ تو کیڑے مکوڑے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یہ 73 سالہ تاریخ کی جھلکیاں ہیں۔ اگر طائرانہ نظر یہ دکھا رہا ہے کہ اس ملک کو ملائیت نے کیسے تباہ کیا ہے تو اس کی تفصیل کتنی  بھیانک ہوگی۔ اس لئے خدارا لوگوں کو گمراہ نہ کریں۔ ان کو یہ نہ بتائیں کہ اس ملک پر کتنے سال جمہوریت رہی یا کتنے سال آمریت۔ ان کو سیدھا اور صاف بتائیں کہ اس ملک پر 73 سال ملائیت نے حکومت کی۔ یہ قائد اعظم کا پاکستان نہیں یہ ُملا کا پاکستان ہے۔ یہاں عوام نہیں مذہبی گروہ کی حکمرانی ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply