• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • محترم ڈاکٹر عمار ناصر صاحب !غیر کشفی یا ظاہر ی علوم کے استنباطات کی توسیع کا نمونہ بھی ملاحظہ ہو۔۔ڈاکٹر محمد شہباز منج

محترم ڈاکٹر عمار ناصر صاحب !غیر کشفی یا ظاہر ی علوم کے استنباطات کی توسیع کا نمونہ بھی ملاحظہ ہو۔۔ڈاکٹر محمد شہباز منج

برادر محترم عمار خان ناصر نے اپنی ایک پوسٹ میں ابن عربی کے حوالے سے کشفی علوم کی ” کرامات” کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ یہ علوم قرآنی معارف و استنباطات کو بہت وسیع کر دیتے ہیں۔ اس ضمن میں انھوں نے “کشفی علوم، قرآنی معارف واستنباطات کے دائرے کو کتنا وسیع کر سکتے ہیں، اس کا ایک نمونہ ملاحظہ ہو۔” کا عنوان کا قائم کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ :”سورۃ الروم کی ابتدائی آیات (غلبت الروم فی ادنی الارض وھم من بعد غلبھم سیغلبون) ایک قراءت کے مطابق یوں پڑھی گئی ہیں کہ ان کا مطلب یہ بنتا ہے کہ رومی غالب آ گئے ہیں اور عنقریب مغلوب ہو جائیں گے۔ (عہد رسالت میں جو واقعہ ہوا، وہ اس کے برعکس تھا۔) ابن عربی اس غیر معروف قراءت سے 583 ہجری میں صلاح الدین ایوبی کی فتح بیت المقدس کیسے اخذ کرتے ہیں (اور ظاہر ہے، یہ استنباط فتح ہو جانے کے بعد ہی کیا جا سکتا تھا)، ملاحظہ ہو۔بضع سنین سے مراد آٹھ کا عدد ہے۔ سورۃ کے شروع میں الم کے اعداد کا مجموعہ بھی آٹھ ہے۔ دونوں ملا کر سولہ ہوئے۔ اس میں سے ’’الم’’ کے الف کا ایک عدد جو اساس کے طور پر ہے، کم کر دیں۔ باقی پندرہ بچے۔ ان کو اپنے پاس سنبھال لیں۔ اب ’’جمل کبیر’’ کے عمل کے تحت (جو خدا جانے کیا بلا ہے) آٹھ کے عدد کو اکہتر سے ضرب دیں۔ یہ 568 ہو جائیں گے۔ اب جو پندرہ آپ نے سنبھالے ہوئے تھے، ان کو اس میں جمع کریں تو یہ ہو گئے 583۔ اور اسی سال میں رومی غالب آنے کے بعد دوبارہ مغلوب ہوئے تھے۔ فبای حدیث بعد اللہ وآیاتہ یومنون”

ہم نے اس پوسٹ پر مختصر کمنٹ کیا کہ”یہ تو قیاس و استنباط ہےحضرت اور ذوق سے تعلق رکھنے والی چیز ہے ،جو غیر کشفی اور ظاہری علوم والے مفسرین و مورخین میں فاش تاریخی اور مشاہداتی غلطیاں ہیں ان کا کیا حکم ہو گا؟” اس کے بعد سوچا کہ اس کی تھوڑی وضاحت بھی کردی جائے تو گزارش ہے کہ جناب اختلافِ قراء ت کی بنیاد پر ایک قیاس و استنباط کو اگر آپ نے یوں نشانۂ تضحیک بنانا ہے تاکہ اس کے حامل کو ڈسکارڈ کیا جا سکے ،تو ظاہری علوم والوں میں اس سے بھی بڑی بڑی “کرامتیں” نظر آئیں گی، ان کا کیا کریں گے؟ اس کے نمونے تو بہت ہیں لیکن ہم یہاں دو بڑے علما کے نمونے دکھانے پر اکتفا کرتے ہیں، جو اپنے اپنے فن کے امام سمجھے جاتے ہیں۔

علامہ واحدی اسباب نزول کے امام ہیں ، “اسباب النزول ” کے عنوان سے اس فن پر سب سے پہلی کتاب انھوں نے تالیف کی۔ہم آپ کو صبحی صالح کی المباحث فی علوم القرآن کے حوالے سے ان کی ایک “کرامت” سنا دیتے ہیں۔ سورہ بقرہ کی آیت 114وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّن مَّنَعَ مَسَاجِدَ اللَّهِ أَن يُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ وَسَعَىٰ فِي خَرَابِهَا أُولَٰئِكَ مَا كَانَ لَهُمْ أَن يَدْخُلُوهَا إِلَّا خَائِفِينَ لَهُمْ فِي الدُّنْيَا خِزْيٌ وَلَهُمْ فِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ کے سبب نزول میں واحدی قتادہ سے نقل کرتے ہیں کہ یہ آیت بخت نصر بابلی اور اس کے ساتھیوں کے بارے میں نازل ہوئی، جس نے یہودیوں پر حملہ کر کے بیت المقدس کو تباہ کیا اور رومی عیسائی اس سلسلے میں اس کے مددگار تھے۔ حالانکہ یہ واقعہ مسیح علیہ السلام کی ولادت سے 636 سال قبل پیش آیا تھا۔اس کے بعد مصنف نے یہ بیان دے کر کہ واحدی تو چلو مورخ نہیں تھے، یا یہ بھی عذر ہو سکتا ہے کہ انھوں نے ارینال رومی کو بخت نصر سمجھا ہو ، جسے یہودی بخت نصر ثانی کہتے تھے اور جو ولادتِ مسیح کے130سال بعد بیت المقدس میں آیا تھا۔ لیکن ابن جریر طبری کی طرف سے کیا عذر پیش کیا جائے، جو مفسر بھی ہیں ، مورخ بھی اور حافظِ حدیث بھی ،کہ انھوں نے نہ صرف بخت نصر کا یہی واقعہ نقل کیا ہے بلکہ دیگر تمام اقوال کے مقابلے میں اس کو ترجیح بھی دی ہے۔
یہ تو ڈاکٹر صبحی صالح کے حوالے سے ایک واقعہ ہوا. طبری کی تاریخ و تفسیر اور واحدی کی اسباب النزول ہی سے ایسے بہت سے واقعات نقل کیے جا سکتے ہیں، جو مسلمہ تاریخی حقائق کے خلاف ہیں۔ طبری کی تاریخ ذرا اٹھا کر دیکھیے اس کی ابتدا ہی میں آپ کو مضحکہ خیز تاریخی و مشاہداتی غلطیاں نظر آئیں گی۔ اسباب النزول میں مذکورہ نوعیت کی متعدد تاریخی غلطیوں کوMokraneGuezzouنے”اسباب النزول ” کے انگریزی ترجمے کے مقدمے میں بھی نمایاں کیا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

اب آپ دیانت داری سے ابن عربی اور امام واحدی و امام طبری کی مذکورہ تعبیرات کا موازنہ کیجیے۔ ایک طرف استنباط ہے اور وہ بھی مستقبل کے بارے میں اور وہ بھی مبینہ طور پر ایک قراء ت کی بنیاد پر جمل وغیرہ ( جو جو بھی بلا ہو معروف بلا رہی ہے ،اور علماے ظاہر بھی اس سے خوب استفادہ فرماتے رہے ہیں) کے قاعدے کی روشنی میں لگایا ہوا اندازہ ، جس کو ہر صورت درست ماننا مصنف کے نزدیک بھی ضروری نہیں، لیکن دوسری طرف قتادہ جیسے بزرگ کے حوالے سے واحدی اور پھر طبری کا نہ صرف صریح خلاف ِ حقائق بیان بلکہ اس کو سب سے بہتر قرار دینا! کوئی انصاف پسند آدمی بھی اس میں واحدی اور طبری کی غلطیوں کو ابن عربی کی غلطی سے چھوٹا باور نہیں کر سکتا۔ مگر بایں ہمہ یہ دونوں امام ہیں اور ابن عربی کافر یا کم ازکم ناقابلِ اعتنا اور نشانۂ تضحیک بننے کے لائق ۔فیا للعجب۔

Facebook Comments

ڈاکٹر شہباز منج
استاذ (شعبۂ علومِ اسلامیہ) یونی ورسٹی آف سرگودھا،سرگودھا، پاکستان۔ دل چسپی کے موضوعات: اسلام ، استشراق، ادبیات ، فرقہ ورانہ ہم آہنگی اور اس سے متعلق مسائل،سماجی حرکیات اور ان کا اسلامی تناظر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply